اسلام کے زیر سایہ تقوے کی بنیادی اکائی نماز کے بعد اہم رکن روزے سے منسوب ہوتی ہے،جسکا تصور حیات مختلف پہلو سے ملتا ہے،جب ہم دن کے بارہ گھنٹے بھوک و پیاس کی تکلیف میں رہ کر گزارتے ہیں تو خدا کی محبت ہمارے دل کی اسیر ہوجاتی ہے۔
دل میں اترتی قربتِ الٰہی کا یہ عملی نذرانہ تقوے کی celebration ہے،جس میں خشوع و خضوع کی کیفیت رب سے جوڑے رکھتی ہے،تقوے کا جز انسان کے نفس کو تزکیے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔
دل کی اس میراث نے مومن کو قیدی بناکر۔ کی محبت کی جستجو میں کاربند کردیا،روزے نے وہ حسنِ عبادت مہیا کی جسکی ادائیگی میں پیاس اور بھوک کی شدت سے جہاد کرکے مومن اپنی منزلت کی طرف رواں دواں ہوا۔
روزہ کا مقام اور مقصدِ حیات اللہ رب العزت نے اسی طرح فرض قرار دیا جیسے نماز فرض کی گئ،رمضان کے تیس روزے
سال بھر کی ادھڑی اور بگڑی روحانی تعمیر میں معاون ثابت ہوئے،جبکہ روح میں سفر کرتے ہوئے بے ہنگم خیالات اس مبارک عبادت سے فلٹر ہوکر روح کو پاکیزہ جذبات سے لبریز کرتے گئے۔
وہ فطری تقاضے جن میں نا مناسب ربط اور بدمزگی عام زندگی میں پیدا ہوئ،وہاں اس عبادت نے روح کی حرص کو نوچ پھینکا،مسلمان کے آئینہِ زندگی میں اس رحمت خداوندی نے تراش خراش کرکے باغ ہستی کو ابدی خوبصورتی سے ہم کنار کیا جو اسکو اسکے رب کے پاس سرخرو کرسکے۔
دل کی نگہبان تقوے نے معصیت سے روزے کو بچایا،خواہ وہ دل میں پلنے والے غیر ضروری خیالات ہی کیوں نہ ہو،میزان میں سب سے بڑا وزن تقوی کا ہے اور اسکے حصول کیلئے روزہ نے ایک مشقت کے سفر سے گزارکر اسکو کامیابی کی راہ دکھائ،جیسا کہ فرمایا،،،اے ایمان والوں!تم پر روزہ فرض کیا گیا،جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا،امید ہے کہ تم خدا ترس بنوگے۔بقرہ
اس عظیم نعمت کی غرض اور مقصد مومن کی اصل تربیت سے وابستہ ہے،امت مسلمہ کو اپنا اصل رول ادا کرنے کی ایک ایسی تربیت جس سے رضائے الٰہی کا حصول اور ضمیر کی عدالت میں اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ گزشتہ سال اور پھر اس سے پہلے انگنت گزرے ماہ مبارک نے ہم پر کیا اثرات مرتب کیے؟کب شکر کے کلمات پیدا ہوئے؟کب یہ بات سوچی کہ زندگی کا یہ مبارک موقع کہیں آخری مہلت نہ ہو؟یا پھر یہ فریب ذہن پر بادل بنکر چھایا رہا کہ موت نہیں آنی؟جب آئے گی تو دیکھی جائے گی؟ایک گزر گیا اب دوسرا آجائے گا۔۔۔۔پھر اس دھند کے چھٹ جانے کی فکر کی جس نے ابدی زندگی کی حقیقت کو دھندلا دیا تھا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس یہ نادر مواقع جو تواترسے ملتے رہے،اس سے ہم نے کتنی منزلوں کی تیاری کی؟یہ زندگی کی شاہراہ پر مرحلہ ہائے سفر کوئ آخری گشت تو نہیں؟
کیونکہ گزرا ہوا ماضی سمندر کی جھاگ کی طرح ہے،لمحہ بھر میں غائب پھر نئ لہر نیا جھاگ جو اپنا نام و نشان تک نہیں چھوڑتا،تو گزرجانے والے کل نے ہمارے اندر کیا تبدیلی پیدا کی؟
پھر سوال یہ آتا ہے کہ آخر کونسی بات ہے جو رمضان کے آنے پر ہمیں خوش کردیتی ہے؟وہ کونسی عظمتیں ہیں جو دل پر اپنی اسیری چھوڑتی ہیں ؟کیا گزرے روزوں میں ان خوبصورت ساعتوں کی پر سوز عبادت موجود ہے ؟جو آج ہمارے دل پر اتنی اثر انداز ہے کہ رمضان کی آمد ہمیں خوش کیے دے رہی ہے؟
اگر نہیں ۔۔۔۔۔تو یہ خوشی پھر کس بات کی ؟جب عشق حقیقی دل کی زمین پر اپنی کھیتی نہ اگاسکا تو پھر اتنی سجاوٹ اور اظہار کس بات کا؟
پستی کی یہ کیفیت جو ہمیں کہیں نہ پہنچاسکی تو پھر رمضان کا آنا اور گزر جانا کیسے اثر انداز ہوگا ہماری زندگی پر؟
تو کیوں نہ ہم اپنے آنے والے رمضان کی جدوجہد میں تقوی کے ساتھ دل کی صفائی ستھرائی کرکے روزے کی عبادت کا اک نیا سانچہ تخلیق کریں ۔
کیونکہ جھاگ ہمیشہ نہیں رہے گا وہ سمندر میں تحلیل ہو جائے گا ،ہمیں تو نیکیوں کی اسٹیمپ لگوانی ہے،اللہ کے بنائے اس اعمال نامے پر جو روز حشر پیش کیا جائے گا،یہ اسٹیمپ ہمارے لیے اس دن ڈھال بن جائے گی۔
یہ صبح شام کا ملنا رخصت ہونا سب کاریگری جس خدا کی ہے وہ ہستی ہم سے تجارت کررہی ہے،چند نیکیوں کے عوض جنت کی تجارت۔
وہ پکار لبیک کا استعارہ ہے جو ہمیں خدا کی نظر میں ممتاز بنائے گی اور یہی روزے کی اصل حقیقت ہے۔