بادشاہ نے کہا “نہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ ان باتوں کا ذرا خیال نہ کرو۔ جب تمھارا دل چاہے، روزانہ رات کے وقت تم اوپر آ سکتی ہو اور چاندنی رات میں ہم میں سے بعض پریاں سمندر کے کنارے ریت پر جا کر تمھارے ساتھ کھیلا کودا اور گایا بجایا کریں گی، لیکن دن میں ہم سب اپنا اپنا کام کریں گے، البتہ ہمارا ایک دوسرے سے ملنا دشوار ہے۔ رہا سمندر کے اندر ہر وقت رہنا، یہ معمولی بات ہے۔ میں تمھاری موجودہ صورت تبدیل کر دوں گا اور تم کو پانی میں رہنے سے کوئی دقت نہیں اٹھانا پڑے گی۔ پاؤں کی جگہ تمھاری مچھلیوں کی سی دم پیدا ہو جائے گی اور پھر تم سمندر کی ہر مخلوق کی طرح بخوبی تیرا کرو گی۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ پھرتی کے ساتھ۔”
بادشاہ کی یہ تقریر سن کر سمندر کا ایلچی بھی خوش ہو گیا کہ ان کی عرض بھی قبول ہو گئی اور سمندر کی نئی پریاں بھی خوش تھیں کہ انھیں سمندر کی نئی حکومت ملی۔ چناں چہ جب یہ پانی کی پریاں سمندر کے کنارے پہنچیں تو ان کے چھوٹے چھوٹے پاؤں آپس میں جڑ کر ایسی خوبصورت چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی دمیں بن گئے کہ ان کے تصور میں بھی نہیں آ سکتا تھا اور وہ اپنے ہاتھوں سے پانی چیرتی اور تیرتی ہوئی اپنے گھر کی طرف چلی گئیں۔
پریوں کو سمندر میں کرنے کے لیے بے انتہا کام تھے، کیوں کہ سارے بڑے جانور چھوٹوں کو ستایا اور مار ڈالا کرتے تھے۔ اب تک وہاں کوئی ایسا نہ تھا، جو ان باتوں کا انتظام کرتا، ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا اور جسے سمندر کی سطح پر امن قائم کرنے کا خیال آتا۔
پریوں کے لیے یہ کام کم نہ تھے، امن و امان پیدا کرنا چھوٹی سی بات نہیں، لیکن تم جانتے ہو کہ پریوں کے پاس وقت کی کمی نہیں اور وہ کبھی تھکتی نہیں، اس لیے مصروف ہو کر وہ اتنی خوش ہوئیں کہ پورے ایک مہینے تک چاندنی رات میں بھی کھیلنے کودنے کے لیے سمندر کے کنارے پر نہ آئیں۔
جب تیس راتیں لگاتار گزر گئیں اور کوئی پری باہر نہ آئی تو آخرکار بادشاہ کو فکر ہوئی کہ کہیں کوئی مصیبت تو نہیں آ گئی؟ کیا بات ہے کہ پریاں سمندر سے باہر نہیں آئیں۔ اس نے ان کی خبر لینے کے لیے اپنا ایلچی بھیجا۔
ایلچی سمندر میں پریوں کے پاس پہنچا۔ ان کا حال پوچھا اور بادشاہ کا پیغام دیا۔ پریوں نے کہا: “بادشاہ سلامت کی خدمت میں ہماری طرف سے عرض کر دینا کہ ہمیں بھی اپنی سہیلیوں سے اتنے دن تک نہ ملنے کا بہت افسوس ہے۔ ہم کو یہاں آ کر اتنی خوشی اور اس قدر مصروفیت رہی کہ معلوم نہ ہوا کہ کتنا وقت گزر گیا۔ آج رات ہم ضرور حاضر ہوں گے اور اب تک جو گزرا ہے، وہ سنائیں گے۔”
رات ہوئی تو پریاں سمندر کے کنارے پانی سے باہر نکل آئیں۔ سارا پرستان ان سے ملنے کے لیے جمع ہو گیا اور جب انھوں نے سمندر کی تہہ کے عجیب و غریب حالات اور وہاں کی مخلوق کا ذکر کیا تو بادشاہ، ملکہ اور تمام درباری پریاں حیران رہ گئیں اور بڑی دلچسپی لی۔
بادشاہ نے کہا: “تم بڑی اچھی نیک دل پریاں ہو۔ تم کو اس کا صلہ ملنا چاہیے۔ چوں کہ تمھاری مصروفیت بہت زیادہ ہے اور تمھارا رہنا بھی ٹھہرا دور دراز، اس لیے مناسب ہے کہ تم اپنا بادشاہ بھی الگ بنا لو اور لہروں کے نیچے اپنی سلطنت قائم کر لو۔ شاہی خاندان میں سے ایک شہزادہ تمھارا بادشاہ بن سکتا ہے، تم اس کے رہنے کے لیے ایک محل بناؤ، جس میں جا کر وہ رہے اور تم پر حکومت کرے۔”
سمندر کی پریاں خوش ہو گئیں۔ انھوں نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا کہ انھیں اپنا علیحدہ بادشاہ ملا اور اپنی الگ سلطنت حاصل ہوئی۔ وہ اپنے نئے بادشاہ کے محل کی تعمیر کرنے کے لیے سمندر میں چلی گئیں۔
سمندر کی تہ میں پہنچتے ہی پریوں نے محل کا ڈول ڈال دیا۔ ایک مہینے کے اندر ہی محل تیار ہو گیا۔ محل کے درو دیوار چمکیلی سیپ کے تھے اور اس کی چھتیں سفید باریک چاندنی جیسی ریت کی۔ دیواروں پر رنگ رنگ کی نازک نازک سمندری بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ کہیں سرخ، کہیں سبزی مائل زرد تو کہیں قرمزی۔ جتنے کمرے تھے، اتنے ہی رنگ کی آرائش۔ تخت شاہی اور دربار کی نشستیں عنبر کی۔ تاج بڑے بڑے موتیوں کا۔
سفید محل کے چاروں طرف سمندر کے پھولوں کے درختوں سے آراستہ باغات تھے۔ جگہ جگہ فوارے، جو رات دن چلا کرتے۔ رات کی روشنی کے لیے چمکتی ہوئی مچھلیاں تھیں، جو ہر طرف اپنے چمکیلے جسموں سے روشنی پھیلاتی پھرتیں اور جہاں ہر وقت اجالے کی ضرورت تھی، وہاں ان شعلہ نکالنے والی مچھلیوں کو سمندری بیلوں سے باندھ دیا گیا تھا تاکہ لیمپوں کا کام دیں۔
(جاری ہے)