کراچی میں عموماً خواتین کے لیے اطمینان بخش، محفوظ اور کام کے صحت مند ماحول کا فقدان ہے اس کے ساتھ تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ لیبر اور دوسرے متعلقہ قوانین کا جائزہ یہ واضح کرتا ہے کہ ان میں خواتین دوست دفعات اور معاونت کے نظام یا طریقہ کار اور پالیسیاںموجود نہیں ہیں جو خواتین پر کام کے دباؤ اور مشکلات کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کام سے متعلق خواتین کو در پیش مسائل ان کے کنبے پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں اور ذہنی وجسمانی دباو ٔکے ساتھ گھر اور ملازمت میں توازن رکھنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
کم مراعات یافتہ خواتین سماجی ومعاشی طبقے کی خواتین جن کے لیے روزانہ ملازمت پر جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا حصول اور اس میں سفر ایک آزمائش ہے۔ میگا سٹی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ گزشتہ دو دہائیوںکے دوران شہر کے ٹرانسپورٹ سسٹم کو باضابطہ تباہ کر دیا گیا‘ ماس ٹرانسپورٹ سسٹم کے نعرے تو بہت لگے لیکن حاصل کلام ایک دل دوز آہ کے سوا کچھ نہیں۔ تازہ صورت حال تو یوں ہے کہ میگا سٹی کے مرد و زن رکشا اور چنکچی جیسی غیر محفوظ سواریوں پر ایسی پگڈنڈیوں پر ڈولتے رہتے ہیں جن کے ایک طرف کنواں اور دوسری طرف کھائی ہے۔
ورکنگ ویمن ویلفیئر ٹرسٹ کے ایک سروے کے مطابق کام کرنے والی خواتین میں 65% سے زیادہ پبلک ٹرانسپورٹ پر انحصار کرتی ہیں۔ ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ موجودہ نظام میں وہ کس درجہ ذہنی اور جسمانی مشقت سے گزر رہی ہیں۔ درست اعداد و شمار پر مبنی سروے جو پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والی خواتین کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی نمائندگی کرتے ہیں‘ کی مدد سے مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے بڑے پیمانے پر ٹرانسپورٹ سسٹم کو بہتر بنانا ضروری ہے اس ضمن میں قانون سازی بھی درکار ہے جو خواتین کو ملازمت پر رکھنے والے اداروں کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ اپنے اسٹاف کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت فراہم کرے۔کام کرنے والی خواتین کے لیے صبح اور شام کے اوقات میں خصوصی شٹل سروس متعارف کرائی جانی چاہیے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں ہر قسم کی ریکارڈنگ اور غیر ضروری شیشوں کی تنصیب کی ممانعت کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد ضروری ہے۔ملازمت کی جگہ پر بیرونی مسائل میں بنیادی انفرا اسٹرکچر کی عدم موجودگی ہنگامی صورت حال میں محفوظ اخراج‘ تنگ راستے، گنجائش سے زیادہ اسٹاف کا اکٹھا ہونا، گندا اور غیر صحت مند ماحول، کھلی نالیاں‘ کوڑا کرکٹ جائے ملازمت کے عمومی مناظر ہیں جہاں ماحولیات، صحت اور حفاظتی قوانین کا مضحکہ اُڑایا جاتا ہے۔ کام کی جگہ ہر کم روشنی ماحولیاتی آلودگی بالخصوص چھوٹی فیکٹریوں میں خواتین ورکرز کی عمومی صحت کے لیے سخت مضر ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ خود بلدیہ کراچی کے تحت قائم ادارے اور مراکزِ صحت بھی انہی حالات کا شکار ہیں۔فیکٹری ورکرز پروبیشن پیریڈ کے نام پر برسوں غیر مستقل ورکر کے طور پر حراساں کی جاتی ہیں۔ قانون کے مطابق ورکنگ مدرز کو اس کے چھوٹے بچوں کے لیے ورک پیلس کے ساتھ ملحقہ ڈے کیئر فراہم کرنا اداروں کے لیے لازمی ہے لیکن سرکاری اداروں میں بھی یہ سہولت موجود نہیں ہے۔
ہوم بیس ورکرز کو فارمل لیبر فورس کا قانونی درجہ مل گیا ہے لیکن یہ ابھی صرف کاغذوں میں ہے کراچی میں اورنگی ٹائون، بلدیہ، بن قاسم، سرجانی شاہ فیصل اور دیگر ٹاؤنز میں ایسی ورکرز بڑی تعداد میں موجود ہیں مگر نہ وہ اپنا قانونی اسٹیٹس جانتی ہیں نہ ان کو اس کا شعور ہے۔ کارخانہ داروں کو لیبر فورس کا ڈیٹا فراہم کرنا اور ان کی اجرتوں کا ریکارڈ رکھنے کا پابند بنانا ضروری ہے۔
گھریلو ملازماؤں کی رجسٹریشن کو یو سی کی سطح پر مرتب کرنا ضروری ہے اس کے ذریعے نہ صرف ان کے حقوق کا تحفظ یقینی ہوگا بلکہ دوسری جانب مالکان کو ان کے اندر موجود جرائم پیشہ افراد سے بھی تحفظ ملے گا۔
میگا سٹی میں سیلز اینڈ مارکیٹنگ اِن ڈور اور آؤٹ ڈور فیمیل اسٹاف میں تشویش ناک اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر لوئر مڈل کلاس کی خواتین اس شعبے میں داخل ہو رہی ہیں کیوں کہ اس میں تعلیم اور مہارت کی مطلوبہ قابلیت معیار نہیں بنتی‘ ان کا تقرر زیادہ تر ریکروٹنگ ایجنسیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ تھرڈ پارٹی ایمپلائی ڈکلیئر کر کے کوئی بھی ادارہ ان کے حقوق اور جان ومال کے تحفظ کی ذمے داری قبول نہیں کرتا۔ اس شعبے میں ہر قسم کی حراسانی عام ہے چنانچہ اس پر بھی فوری توجہ دینا ضروری ہے۔
اتنے بڑے شہر میں ہر قسم اور ہر علاقے کی ہنر مند کاری گر اور ماہر دستار موجود ہیں لیکن کاٹیج انڈسٹری اور سیلز اینڈ ڈسپلے سینٹر کے نام پرمحض متعلقہ وزارتوں کی شعبدہ بازیا ں ہیں۔
اس جانب بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ کام کی ضرورت ہے ڈومیسٹک اکانومی کو بہتر بنانے میں اس کا بہت بڑا کردار ہوگا۔ورک پیلس ہریسمنٹ کے قانون پر عملدرآمد کے نتیجے میں ہر ادارے میں ایک پرو ٹیکشن کمیٹی بننا ضروری قرار دی گئی ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ لمبے چوڑے طریقہ کارکے بجائے تادیب کا نظام واضح ہو اور اس کے تحت جس ادارے یا پروڈکشن یونٹ میں خواتین ورکرزکی بے حرمتی کا کوئی واقعہ رپورٹ ہو اس پر کسی بھی قسم کی امپورٹ ایکسپورٹ پر دو سال کے لیے پابندی عائد کی جائے گی اور اس کو بلیک لسٹ کیا جائے۔
کورونا نے ٹرسٹ کے ورک فرام ہوم اور لچک دار اوقات کار کے دیرینہ مطالبہ کو قابل عمل ثابت کردیا ہے، پہلے مرحلے میں خواتین کو ورک فرام ہوم اور لچک دار اوقات کار کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ضروری قانون سازی ہونی چاہیے، لازمی سروسز میں شفٹوں کی تعداد میں اضافہ‘ روزگار کے مواقع اور پروفیشنل ڈگری یافتہ خواتین کی قابلیت اور صلاحیت سے استفادے میں اضافہ کرے گا۔خواتین کے پیشہ وارانہ تربیتی اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور ان کی تعداد میں اضافہ ضروری ہے۔
کراچی کی ایڈمنسٹریشن کے اندر آنے والے تمام تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو ووکیشنل ٹریننگ سینٹر میں تبدیل کردیا جائے جہاں طالبات اور خواتین کو کیریئر‘ وژن اور گولز کے حوالے سے بھی تربیت اور رہنمائی دی جائے۔
ان مسائل کے بہترین حل کی تلاش نہ صرف فیمیل ورک فورس کی بے پناہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے بلکہ قومی ومعاشرتی ترقی اور خاندانی ادارے کے استحکام کے لیے لیے بہت ضروری ہے لہٰذا ایک ایسے وقت میں جب کہ ہم ملک کے سب سے بڑے اور اہم شہر کی تعمیر نو کے عزائم کے ساتھ اکٹھے ہوئے ہیں ہمیں وسیع النظری اور دوررس نتائج کے لیے مشترکہ کام کا عزم کرنا ہو گا۔