چاہ اور چاہت

288

’’چاند نظر آگیا…‘‘میرا چھوٹا بھائی تقریباً چیختا ہوا سیڑھیاں پھلانگ رہا تھا۔ اس کی آواز سن کر میرا دل دکھ سے بھر گیا۔
’’میرا یہ رمضان کیسا گزرے گا؟‘‘ یہ سوچتے ہوئے میں نے دکھ بھرے دل کے ساتھ ٹی وی کی طرف دیکھا جو صبح ہی اس جہانِ فانی سے کوچ کرگیا تھا، اور موبائل! وہ تو کچھ دن پہلے ہی پانی میں گر کر خراب ہوگیا تھا۔ ابا کو کہا بھی تھا کہ ’’بنوا دیں‘‘، مگر انہوں نے کہا کہ ’’رمضان گزر جائے پھر بنوا دیں گے۔‘‘
اب ان سے کیسے کہتی کہ ’’اس کے بغیر رمضان گزرے گا کیسے…؟‘‘
قصہ یہ ہے کہ پچھلے سال دسویں کے امتحان سے فارغ ہونے کے بعد ابا سے موبائل کی فرمائش کی… فرمائش پوری ہوئی اور موبائل مل گیا۔ رمضان کی آمد آمد تھی اور میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ ٹی وی پر چلنے والے رمضان کے خصوصی پروگرامات اور اس کے بعد جو وقت بچ جائے اس میں موبائل کے ساتھ نے رمضان کے نعمتوں کو دگنا کردیا تھا۔ مگر اِس بار میں ان دونوں ہی نعمتوں سے محروم ہوگئی تھی۔
تینوں چھوٹے بہن بھائیوں کا رات کو سحری تک جاگنے کے لیے کیا گیا احتجاج کوئی خاطر خواہ جواز نہ ہونے کے باعث جلد ہی ختم ہوگیا اور امی کی غصیلی نظروں کے پڑتے ہی تینوں بستروں پر آپڑے۔ موبائل نہ ہونے کی صورت میں ’’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘ کی تصویر بنی میں بھی سیرت کی کتاب لے کر بستر پر لیٹ گئی۔ دُنیا میں بنائی گئی نیند کی ادویہ کا اثر ایک طرف اور کتاب کا اثر ایک طرف…! مگر اس حقیقت سے صرف شاگرد ہی واقف ہیں۔ سو، کتاب کے دو صفحوں کا سفر طے کرتے ہوئے میں نیند کی وادیوں میں اترتی چلی گئی۔ خوش گوار وادیوں میں، جہاں دنیا کی زندگی سے آزاد آسمانوں کے سفر پر رواں دواں تھی!
مگر اچانک کسی نے کندھے سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔ پلٹ کر میں نے آنکھیں کھولیں تو سامنے امی کھڑی آوازیں لگا رہی تھیں ’’اُٹھ بھی جائو… کب سے اٹھا رہی ہوں…جلدی کرو۔‘‘
’’کیا ہوا ہے؟‘‘میں نے ہڑبڑا کر پوچھا۔
’‘سحری کا وقت…‘‘ امی کہتے ہوئے پلٹیں اور کمرے سے نکل گئیں۔ میں جلدی سے اٹھ کر اُن کے پیچھے باورچی خانے میں جاکر کھڑی ہوگئی۔ امی نے پلٹ کر دیکھا۔ ’’سارے سال تو توفیق نہیں ہوتی… مگر رمضان میں جو موقع مل رہا ہے تو بندہ اسی سے فائدہ اٹھالے… اور تہجد پڑھ لے۔‘‘ اپنا مدعا بیان کرکے امی مڑ کر اپنا کام کرنے لگ گئیں اور میں خاموشی سے باورچی خانے سے نکل کر تہجد کی تیاری کرنے لگی۔
تہجد: جس وقت خدا انسان کے بہت قریب آکر اسے پکارتا ہے اور تمام کائنات ساکت ہوجاتی ہے کہ انسان اس پکار کو سنے اور اس پر لبیک کہے، تو جو اس پکار کا جواب دیتے ہیں اُن کی طرف رب متوجہ ہوجاتا ہے اور فرماتا ہے کہ ’’مانگو… کیا مانگتے ہو؟‘‘ یہی وجہ ہے کہ شاید اس پہر انسان اپنے رب سے بہت کچھ کہنا چاہتا ہے اس اطمینان کے ساتھ کہ اس کا رب اس کی جانب متوجہ ہے۔
’’تمام راتوں کا کوٹا آج پورا کروگی؟جلدی کرو اور سب کو اٹھاؤ سحری کے لیے۔‘‘ امی کی آواز نے سارا فسوں توڑ دیا۔ یہ مائیں بھی جرنیلوں سے کم نہیں ہوتیں۔
کہتے ہیں وقت ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے، مگر ایسا لگتا تھا کہ وقت کے سوار نے عبادتوں کے گلستان میں اس کی لگامیں کھینچ کر اسے روک لیا تھا اور میرے دل کو وہاں اتار دیا تھا جہاں سکون ہی سکون تھا، اطمینان ہی اطمینان تھا۔
فجر، ظہر، عصر… ہر نماز کو بہت آہستہ آہستہ ادا کرتی۔ جلدبازی کا وہ جواز رہا ہی نہیں تھا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ موبائل اور ٹی وی، جن کی وجہ سے صرف فرض کے طور پر نماز کو ادا کیا جاتا اور اس میں بھی دھیان انہی چیزوں کی طرف لگا رہتا… مگر اب ہر حرف جیسے دل میں اترتا جارہا تھا۔
تلاوتِ قرآن میں وہ سرور آتا کہ دل چاہتا تھا اسے کبھی نہ ختم کروں، جیسے فرشتوں کا کوئی جھرمٹ مجھے گھیرے میں لیے نور برسا رہا ہو۔
دعا مانگتی تو لگتا کہ خدا سامنے آبیٹھا ہے اور نہایت غور سے مجھے سن رہا ہے۔ اپنے سارے مسئلے بیان کردینا چاہتی تھی۔ اپنی ساری خواہشات اس کے سامنے رکھ دینا چاہتی تھی اور دعا طویل سے طویل ہوتی چلی جاتی۔
مجھے خود پر حیرت ہورہی تھی کہ یہ میں ہوں؟ یا مجھ پر اللہ کا کوئی انعام ہے۔ یہ رمضان کا احسان تھا۔ رمضان جو بتارہا تھا مجھے کہ میں رحمتوں اور برکتوں کے خزانے لے کر پہنچتا ہوں تو تم اسبابِ دنیا جمع کیے بیٹھی ہوتی ہو۔
میں ہر عمل کا کئی گنا اجر لے کر آتا ہوں اور تم بس فرض پر اکتفا کرکے جان چھڑاتی ہو، میں تمہارے لیے اللہ کے قرب کی وجہ بننا چاہتا ہوں لیکن تم دنیا کی چاہ میں ہوتی ہو، اور اس بار جب تمہاری چاہ تم سے چھین لی تو میں تمہیں اپنی رحمتوں کا مزا چکھاتا ہوں۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ خدا کی رحمت کو برستے دیکھا ہے؟ تو میں اُسے اس رمضان کا منظر دکھاؤں جس نے مجھ پر احسان کیا تھا۔
اور یہی وہ وقت تھا جب میں نے اپنی راہ کا انتخاب کیا۔ دنیا کی عارضی چاہتوں کو چھوڑ کر ابدی محبت و سکون کا راستہ اختیار کیا، اپنے رب کا راستہ اختیار کیا کہ نمازوں میں اب بھی نور برستا ہے، رب کے ذکر پر اب بھی فرشتے اترتے ہیں، دعاؤں کو ’’وہ‘‘ اب بھی بہت قریب آکر سنتا ہے۔ مگر بات تو ساری ’’چاہ‘‘ کی ہے۔

حصہ