الارم بجنے کی آواز پر صباحت کسل مندی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سامنے دیوار پر لگی گھڑی تین بجا رہی تھی۔ اس نے پردے ہٹاکر کھڑکی کھولی۔ سیاہ آسمان پر دور دور ٹمٹماتے تارے گھپ اندھیرے میں چراغ کی مانند چمک رہے تھے۔ وہ سحری کی تیاری کرنے باورچی خانے کی جانب چل پڑی۔ پراٹھے، چائے، اچار، رات کا بچا ہوا سالن… وہ بس اتنا ہی اہتمام کرپائی تھی۔ آج کل حالات ہی ایسے چل رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں سب گھر والے بھی جاگ گئے۔ اس نے دستر خوان بچھایا اور سب سحری کرنے لگے۔ فجر کی اذان پر اس نے دسترخوان سمیٹا اور تھوڑی دیر سستانے کمرے کی جانب چل پڑی۔
اماں کی وفات کے بعد یہ پہلا رمضان تھا۔ اماں کی زندگی میں تو رمضان کی رونقیں ہی الگ تھیں۔ سحر و افطار کا کشادہ دسترخوان، نماز، تراویح، تلاوت کا باقاعدہ اہتمام… اور صرف یہی نہیں، اماں دل کی بہت وسیع تھیں۔ رمضان میں مانگنے والوں کا تانتا بندھ جاتا، وہ دل کھول کر صدقات کرتیں۔ گھر میں درس و وعظ کا سلسلہ بھی چل رہا ہوتا۔ وہ اپنی ضعیف العمری کے باوجود محلے کے گھروں میں بہ ذاتِ خود درس کی دعوت دینے جاتیں۔ ہر اتوار کو سب بھائی بھابھی بچوں کے ساتھ افطار کرتیں۔ گھر میں تو گویا رونق و برکات کا سماں بندھ جاتا۔ لیکن اب اماں کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جیسے ہر طرف ویرانی چھا گئی تھی۔
’’اگر آج اماں ہوتیں تو حقیقت میں رمضان، رمضان لگتا۔‘‘ صباحت نے افطاری کی تیاری کرتے ہوئے اپنی ساس کو یاد کیا۔
کھجور، شربت اور دال کے کباب… صباحت نے افطاری دسترخوان پر چُن دی۔ اماں کی زندگی میں رزق میں بھی بہت برکت تھی، لیکن ان کے انتقال کے بعد ورثے کی تقسیم اور بھائیوں کے آپس کے جھگڑے… اماں کی زندگی میں جڑا ہوا خاندان بکھر کر رہ گیا، ساری برکتیں بھی اٹھ گئیں۔ جہاں دلوں میں تنگی آئی وہیں رزق میں بھی تنگی آگئی۔ ابا تو دس سال پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ ان کی کریانے کی چھوٹی سی دکان تھی جو اُن کے انتقال کے بعد اماں نے بچوں میں تقسیم کردی۔ بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات انہی پیسوں سے پورے ہوئے۔ اماں صاحبِ ثروت خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ انہیں نانا کے انتقال کے بعد ورثے میں تین منزلہ مکان ملا تھا، جو اُن کی وفات کے بعد اُن کی اولاد میں جھگڑے کا سبب بنا۔ اماں کی وفات کے بعد دو بھائی اس مکان کو بیچنے کے حق میں تھے جبکہ دو بھائیوں کا کہنا تھا کہ ایسے ہی رہا جائے۔ اس تنازعے کی وجہ سے مکان مناسب قیمت میں فروخت بھی نہ ہوسکا۔ اپنا اپنا حصہ لے کر کوئی پورب اور کوئی پچھم میں جا بسا۔ کورونا آیا تو نوکریاں چھوٹ گئیں۔ جب سب ساتھ رہتے تھے تو بھائیوں کو ایک دوسرے کی خبر ہوتی تھی، دکھ سُکھ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے، لیکن اب کسی کو کسی کی کوئی خبر نہ تھی کہ کس بھائی کے گھر میں مہینوں سے گوشت نہیں پکا، کس بھائی کے بچے کو فیس نہ دینے کی وجہ سے اسکول سے خارج کردیا گیا ہے۔ سب کے دل ایک دوسرے سے کٹ چکے تھے۔ فون پر بھی ایک دوسرے کی خیریت دریافت نہ کرتے۔
صباحت آج عید کی شاپنگ کرنے بازار گئی ہوئی تھی۔ روزے اور گرمی سے اس کا سر چکرانے لگا۔ وہ ایک دکان پر سستانے بیٹھ گئی۔ اچانک ایک خاتون اندر آئیں، اس نے غور سے دیکھا، یہ حنا بھابھی تھیں۔
’’السلام علیکم!‘‘ صباحت نے سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام!‘‘ حنا بھابھی نے بے رخی سے جواب دیا اور دکان دار کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ صباحت کو لگا جیسے اس کا دل کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔ یہ وہی حنا بھابھی تھیں، جنہیں وہ جیٹھانی کے بجائے بہن کہا کرتی تھی۔ کوکنگ سے لے کر اسکولنگ تک ہر معاملے میں ان سے مشورہ کرتی، اور وہ کتنے خلوص سے اس کی رہنمائی کیا کرتی تھیں، اور آج کیسی بے رخی برت رہی ہیں! صباحت کا دل کٹ کے رہ گیا۔
وہ گھر آئی تو بہت بجھی بجھی تھی، کامران نے استفسار کیا تو ٹال گئی۔ وہ حنا بھابھی کے رویّے سے بہت دل برداشتہ تھی۔ جمعہ کے دن پڑوس میں درسِ قرآن میں گئی تو معلمہ صلۂ رحمی پر درس دے رہی تھیں۔ صباحت بغور اُن کو سن رہی تھی۔ وہ گھر آئی تو کسی گہری سوچ میں گم تھی۔ افطاری کے بعد چائے پیتے ہوئے کامران سے کہنے لگی ’’کیوں نا ہم سب بھائیوں کو فیملی سمیت افطار پر مدعو کریں؟‘‘
’’کیا…؟‘‘ کامران چونکا۔
’’تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ جانتی بھی ہو خاندانی معاملات کیسے چل رہے ہیں!‘‘
’‘ان معاملات کو سدھارنے کے لیے ہی تو کہہ رہی ہوں‘‘۔ صباحت بولی۔
’’کیا… ؟‘‘ کامران پھرچونکا۔
صباحت نے درسِ قرآن میں بتائی گئی تمام باتیں کامران کے سامنے دہرا دیں۔ وہ چپ کا چپ رہ گیا۔
دوسرے دن ہی سب بھائیوں کو فون کرکے دعوتِ افطار دے دی گئی۔ اتوار کی شام سب بھائی اپنے بیوی بچوں سمیت پہنچ گئے۔ آفاق بھائی اور حنا بھابھی ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ افطار میں کچھ ہی دیر رہ گئی تھی۔ صباحت نے خود ہی حنا بھابھی کو فون کیا اور نہ آنے کی وجہ پوچھی تو وہ بہانا بنانے لگیں۔ صباحت نے اصرار کیا تو آنے کے لیے تیار ہوگئیں۔ تھوڑی دیر میں آفاق بھائی اور حنا بھابھی بھی پہنچ چکے تھے۔ خاموشی سے سب نے افطار کیا۔ مالی حالات اچھے نہ ہونے کے باوجود انہوں نے افطارکا خاصا اہتمام کیا تھا۔ پھر افطار کے بعد چائے کا دور چلا۔ خاموشی آہستہ آہستہ چھٹنے لگی، دلوں میں لگی کدورتیں مٹنے لگیں، تھوڑی دیر میں سب اس طرح باتوں میں مشغول ہوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ’’اماں کی روح پُرسکون ہوگئی ہوگی۔‘‘ صباحت نے سوچا۔ اس کی ادنیٰ سی کوشش نے قطع رحمی کے زہر کو توڑ دیا تھا۔ صباحت نے واقعی اس رمضان میں اصل اجر کمایا تھا۔