مقابلہ بازی رشتوں کو کمزور کرتی ہے

419

شادی کی تقریب میں ہر لڑکی فائزہ کو اس لحاظ سے بہت خوش قسمت سمجھ رہی تھی کہ کلّے (اکیلے) گھر جارہی ہے جہاں نہ ساس ہے، نہ سسر۔ ایک ہی نند ہے، وہ بھی بیرونِ ملک اپنے شوہر اور بچوں سمیت رہتی ہے۔ کبھی سال دو سال کے بعد ہی فائزہ کے سر پر سوار ہوگی، وہ بھی چند روز یا چند ہفتوں کے لیے۔ امریکا سے آئے دن آنا کوئی آسان ہے بھلا!
اور ان کی باتیں سنتے ہوئے میں حیران ہورہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ بھلا فائزہ کا پُرتپاک استقبال کیسے ہوگا اگر اس کی ساس ہی نہیں ہے!
اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں سسرال کا ذکر کیا، اور ظاہر ہے سسرال کسی مجرّد چیز کا نام تونہیں ہے۔ ہر لڑکی یا لڑکے کا نکاح ہوگا، سسرال بنے گا اگلا گھرانا۔ رشتے داری کا احترم ہوگا تو اس پُرسکون فضا میں بچوں کی پیدائش، تعلیم و تربیت سب آسانی اور خوب صورتی سے ہوگی۔ انہی سے خون کے رشتے بنتے ہیں جنہیں ’’رحم کے رشتے‘‘ کہا جاتا ہے، اور صلۂ رحمی ایسے تمام رشتوں کا خلوصِ دل سے نباہ کرنے کا نام ہے، حتیٰ کہ اگر کوئی ہم سے قطع کلامی کرے یا ہمارا حق مارے، ہمیں اُس سے بھی جڑنے کا حکم ہے۔
مگر آج کل تو معاملہ بہت ہی عجیب ہوگیا ہے، وہی بات کہ ’’تھا جو خوب، بتدریج وہ ناخوب ہوا‘‘
سچ تو یہ ہے کہ آج برائی، اچھائی بن گئی ہے، اور اچھائی کو برائی کے طور پر لیا جاتا ہے۔ رشتے داری میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر اَنا کا مسئلہ کھڑا کرکے بول چال بند کردی جاتی ہے۔ ایک حدیثِ مبارکہ کے مطابق قیامت کے قریب بے گانے رشتے داروں سے زیادہ اچھے ہوجائیں گے۔ شاید وہ وقت آچکا ہے۔ مگر ہمیں تو صلۂ رحمی کا حکم دیا گیا ہے، پھر ہم ان رشتوں سے کیسے غافل رہ سکتے ہیں؟ اور کیسے ان سے قطع تعلق کرکے چین کی نیند سوسکتے ہیں؟ ’’اپنا اپنا ہے اور غیر غیر‘‘… پہلے لوگوں نے بہت سوچ سمجھ کر محاورے بنائے ہوئے ہیں۔
آپ کبھی قطع تعلق کے بعد صلح صفائی کرکے کسی رشتے دار کے پاس بیٹھ کر تو دیکھیں۔ ایسا سکون، ایسا چین آپ کے رگ و پے میں سرایت کرجائے گا جو بیان سے باہر ہے۔ رشتے داری میںآج جو فاصلے آن پڑے ہیں، جو دراڑیں پڑتی اور بڑھتی جارہی ہیں، ہمارے خیال میں ان کی وجوہات کوئی ایسا مسئلہ فیثا غورث نہیں جو حل نہ ہوسکے۔ ہمارے رویّے ہی ہیں، ہمارے حالات ہی ہیں، ہماری اپنی سوچ ہی تو ہے جو ہمارے اعمال کی محرک ہے۔
ذرا دیر کے لیے اسلامی اخلاقی تعلیمات پر نظر ڈالیے۔ کیا کیا پیاری نصیحتیں کی گئی ہیں حقوق العباد کے لیے۔ یہ ہمارے نفس کی بخیلی ہے جو ہم دوسروں اور خاص کر رشتے داروں سے روا رکھتے ہیں۔ آپ تحائف دے کر تو دیکھیے، آپ کی طرف سے اگلے کا دل کیسی محبت سے بھر جائے گا۔ آپ ضبطِ نفس کوشش کرکے چند ہفتے اپنایئے، کیسے عمدہ نتائج آئیں گے آپ خود دیکھیں گی۔
رمضان کا مہینہ آگیا ہے، نہ جانے کتنے رمضان ہماری زندگی میں آکر چلے گئے مگر صبر روزے رکھنے کے باوجود بھی اپنے اندر پیدا نہ ہوسکا۔ کسی ناگوار بات پر ساس، سسر یا کسی اور رشتے دار کی چبھتی ہوئی بات پر صبر تو کرکے دیکھیے۔ اللہ کی ذات کو اپنے قریب محسوس کیجیے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ پھر دیکھیے ناگوار بات کرنے والا حیرت سے آپ کو دیکھے گا، یا آپ کے بارے میں سوچے گا۔ ایک دوسرے سے مقابلہ کیا کرنا، یہ مقابلہ بازی بھی رشتوں کو کمزور کرتی ہے۔ حسد اور فخر کی آگ بھڑکاتی ہے۔ مقابلہ تو نیکی میںسبقت لے جانے میں کیجیے، خاموش رہنے میں کیجیے۔ شوہر، ساس، سسر یا دوسرے کسی بڑے کی یا بیمار کی خدمت کرنے میں کیجیے، اپنے بچوںکی بہترین تعلیم و تربیت کرنے میں کیجیے تو بات بھی ہے۔ یہ ذاتی آرائش، گھر کی زیبائش، دوسروں کے طرزِ زندگی… اس میں مقابلہ کیا کرنا! آپ کا اخلاق اچھا ہے، گھر سادہ مگر آنے والے کے لیے آرام دہ اور ہر دم کھلا ہے، گھر والوں کے دل میں خلوص، پیار اور محبت ہے تو یقین جانیے بڑے سے بڑے محل بھی آپ کے اس گھر اور مہمان نوازی کے آگے ماند ہیں جہاں مہمان کو محض تکلف، بناوٹ اور سجاوٹ ہی ملے۔
ہر کسی کو اپنے رب کی تخلیق سمجھ کر سراہیں، عیب نہ نکالیں، غیبت اور حسد نہ کریں، اسلامی اخلاق اپنائیں تو ہر ایک… کیا رشتے دار، کیا عام ملنے جلنے والا… آپ کے حُسنِ اخلاق کا اسیر ہوجائے گا۔ قطع رحمی کرنے والوں کو پہل کرکے منایئے اور اجرِ کثیر کمایئے۔ ساس، سسر ہمارے دوسرے والدین ہیں، ان کی خدمت خوش دلی سے کیجیے۔ رشتوں کو، ان پیارے رشتوں کو اخلاص و محبت سے گہرا کیجیے، انہیں تنگ نظری اور نفس کی بھینٹ نہ چڑھایئے۔ یہ زندگی عارضی، یہ دنیا عارضی، اس کی چمک دمک عارضی… پھر اس کے پیچھے ہم اپنی آخرت کیوں کھوٹی کریں! بلند ہوجائیں ان چھوٹی چھوٹی رنجشوں سے، عارضی خودفریبیوں سے۔ ہماری نظر حُسنِ آخرت پر ہونی چاہیے، جنت پر، جنت الفردوس پر۔
کبھی بھول کر بھی کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
جو کوئی تم سے کرتا، تمہیں ناگوار ہوتا

حصہ