رمضان کی فیوض وبرکات کا ذکر اور رمضان کی اہمیت و فضیلت پر بے شمار مضامین ہم پڑھتے ہیں۔ مذہبی طبقے کی جانب سے معلومات کی فراہمی میں کوئی کوتاہی نہیں ہوتی تاہم رمضان کے مہینے کے با برکت ہونے، نظام الاوقات کے بدلنے اور مخصوص اہتمام کے ساتھ گزارنے کے ذکر سے اردو ادب کا میدان بھی خالی نہیں ہے۔ کلاسیکی طرز پر لکھے گئے بعض ناولوں میں بھی رمضان کا ذکر کسی نے باضابطہ اور کسی نے بین السطور کیا ہے۔ شعرا نے رمضان کو باضابطہ اپنی شاعری کا موضوع بھی بنایا ہے۔ ذیل کی سطور میں یہی تجزیہ مقصود ہے کہ ماہ رمضان کو ادبا و شعرا نے اپنی نگارشات میں کس طرح برتا ہے۔ رمضان کے تئیں کون سے معمولات زمانہ قدیم میں رواج پا گئے تھے اور دورِ جدید کے لکھنے والے ادبا و شعرا نے رمضان کے ذکر میں کن چیزوں پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب جدید تقاضوں کے ساتھ اردو ادب میں کون سے امور پر گفتگو کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ادب کو مقصدیت سے جوڑنے اور نہ جوڑنے پر تو بے شمار مکالمے ہو چکے ہیں تاہم ادیب سماج ہی کا حصہ ہے۔ جب بھی کوئی ادب تخلیق پاتا ہے تو ادیب کی تخلیقات میں موجودہ ماحول اور تہذیب و ثقافت کا عکس لازماً نظر آتا ہے چاہے وہ ادیب یک لسانی ہو یا ذو لسانی۔
تاریخی طرز پر لکھے گئے ناول جیسے ’’آگ کا دریا‘‘۔ قرۃ العین حیدر کے یہاں ایک سلسلے سے تاریخ کے بیانیے میں رمضان کا ذکر بین السطور ماہ رجب میں یہ واقعہ رونما ہوا اور رمضان کی آمد آمد تھی کہہ کر ذکر تاریخی پس منظر کے بطور ملتا ہے۔ اسی طرح شمس الرحمن فاروقی کے شہرۂ آفاق تاریخی ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ میں واقعاتی حوالے سے رمضان کی آمد اور دربار میں افطار کے دسترخوان کا ذکر واقعاتی تناظر میں بین السطور دکھائی دیتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی کی مشہور تخلیق بیگمات کے انسو ’’باضابطہ فاقہ میں روزہ‘‘ دہلی کے ایک تاج دار فیملی کے دورِ فراوانی کے روزے کو بیان کرتا ہے کچھ اس طرح بہ صورت تلخیص دیکھیے ’’والدہ محترمہ نے طلب کیا اور شہزادے کو حکم دیا کہ ماہِ رمضان میں تلاوتِ کلام پاک میں مشغول ہوں اور افطار کے بعد شہزادے کے موسیقی سننے کے معمول سے تلاوت میں خلل واقع ہوتا ہے اس لیے شہزادہ کو ماہِ رمضان موسیقی نہ سننے کا حکم صادر ہوتا ہے۔ شہزادہ کا موسیقی کے بغیر گزارہ نا ممکن ہے مصاحب نے مشورہ دیا کہ بازار کی رونقیں دیکھیں دل بہل جائے گا بازار میں جابجا تلاوت قرآن کی محافل ہیں، دین و شریعت پر مفتی کی مجالس میں گفتگو و مباحث کا سلسلہ ہے اور شہزادے کا دل چار و ناچار بہل جاتا ہے۔ آگے اسی خواجہ حسن نظامی نے شہزادہ کے دورِِ زوال کے فاقہ زدہ روزے اور ایام بے بسی کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا کہ قاری کے آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح بابا یحییٰ خان کی 500 صفحات پر مشتمل تخلیق ’’کاجل کوٹھا‘‘ جس کی ابتدا ہی سحری کے وقت ایک خاتون کے پراٹھے کی خوشبو سے ہوتی ہے اور خوشبو کسی سائل کے نتھنے تک پہنچتی ہے اور وہ بوقت سحر اس خاتون سے سوال کر ڈالتا ہے وہ لاولد خاتون نے صرف دو پراٹھے بنا رکھے ہیں اور وہ سائل کو اپنے حصے کا پراٹھا دے کر بغیر سحری کے روزہ رکھ لیتی ہے ‘‘۔
علامہ راشد الخیری بھی اپنے ناولوں میں جہاں خواتین کی کفایت شعاری، خدا خوفی، جذبہ انفاق کا ذکر کرتے ہیں وہیں رمضان میں اپنے ملازم کے ساتھ نرمی برتنے کو بہت ہی سہل انداز میں قاری کے سامنے اجاگر کرتے نظر آتے ہیں۔ بنتِ الاسلام کا افسانہ ’’انفاق‘‘ جو ’’بتول‘‘ لاہور سے شائع ہوا تھا‘ جس میں خواتین کو رمضان میں قرابت داروں کے ساتھ بہترین سلوک پر ابھارنے کا ذکر ملتا ہے۔
عبدالحلیم شرر کے ناول ’’فردوسِ بریں‘‘ میں حقیقی واقعات اور تخلیاتی کرداروں کے درمیان رمضان کا ذکر جا بجا ملتا ہے جس میں مذہبی مظاہرے اور روحانی اعمال کے تذکرے بھی شامل ہیں۔
خواتین کی تخلیقات میں بانو سرتاج فرحت اشتیاق اور بھی بے شمار خواتین میگزین مثلاً ’’شعاع‘‘ ’’شمع‘‘ ’’پاکیزہ‘‘ ’’آنچل‘‘ اور’’حجاب‘‘ میں دوران رمضان خصوصی شمارے بھی بڑے تزک واہتمام سے اپنے دور میں نکلتے رہے ہیں جس میں رمضان کی فضیلت اور اہمیت کو عمومی طور پر بیان کرنے والے مضامین اور خواتین کے پکوان، افطاری میں لوازمات کی تیاری اور مختلف طریقۂ پکوان اور دسترخوان کے اہتمام سمیت سحر کی تیاری کا ذکر ملتا ہے۔ آخری عشرے میں لڑکیوں کی مہندی کی تیاریاں درزی کے کپڑے سلوانے نیز سمدھیانے میں عیدیاں بھجوانے کی داستان باضابطہ نظر آتی ہیں۔
ذو لسانی ادیب منشی پریم چند کے مقبول ترین افسانہ ’’عید گاہ‘‘ کے مضبوط پیغام سے ہر ایک واقف ہے۔ اسی طرح ’’فسانہ آزاد‘‘ رتن ناتھ سرشار نے بھی دوران گفتگو رمضان کی رونق کا تذکرہ کیا ہے۔ رمضان کی رونقیں اور اس کی عبادتوں کے ذکر کو بعض خواتین ادیبوں نے ہجر و وصال کی دعا، رمضان کی عبادت و ریاضت کو اپنی نگارشات کا موضوع بنایا ہے۔ ’’اے حمید‘‘ کی کتاب ’’ہمارے بچپن کا رمضان‘‘ میں رمضان کے روزمرہ کے معمولات یادوں پر مبنی تخلیق ہے۔
اسی طرح جدید دور کے ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ محسن خان نے بچوں کی نفسیات پر لکھا ہے جس میں رمضان المبارک میں باہم تعاون پر عملاً اکسایا گیا ہے۔ رمضان کی رونقیں اور روزہ اور عید کے اہتمام پر استاد شعرا نے بھی اعلیٰ درجے کی شاعری کی ہے۔ مرزا غالبؔ نے روزوں کے سلسلہ میں عذر صرف اتنا کیا تھا کہ:
سامان خور و خواب کہاں سے لائوں
آرام کے اسباب کہاں سے لائوں
روزہ مرا ایمان ہے غالبؔ لیکن
خس خانہ و برفاب کہاں سے لائوں
بطور عذر غالب نے خس خانہ جھالر والا جھولا جو روزے کی پریشانی میں آسانی فراہم کرے امرا کی طرح کہاں سے لائوں اور وہیں شکوہ ہے کہ برف جو گرمی کے روزوں میں لازم ہے وہ میں کہاں سے لائوں کہہ کر اپنی بے بسی کا اظہار کیا ہے۔ وہیں غالب یہ کہتے بھی نظر آتے ہیں:
افطارِ صوم کی جسے کچھ دست گاہ ہو
اُس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
نہ صرف یہ بلکہ’’آبِ حیات‘‘ میں محمد حسین آزاد نے مرزا غالب کی بذلہ سنجی کے حوالے سے واقعہ نقل کیا ہے کہ بادشاہ نے ماہِ رمضان میں دربار میں موجود شعرا سے استفسار کیا کہ کس نے کتنے روزے رکھے؟ مرزا غالبؔ کی باری آئی تو قطعاً نہ رکھے ہوئے روزے کو غالب نے جواباً کہا:
’’بادشاہ سلامت ایک نہیں رکھا‘‘ بادشاہ سلامت نے کہا ’’ایک نہیں رکھا تو کوئی بات نہیں‘‘ اور جب دوسرے شعرا نے ’’ایک نہیں رکھا‘‘ کی ذو معنویت کو سمجھتے ہوئے غالبؔ سے دریافت کیا تو مرزا نے بے ساختہ کہا:
صادق ہوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
اسی طرح سنیے اقبالؒ کا مکالمہ عید کے چاند سے متعلق ہے‘ شاعر نے جانے اس چاند سے کیا کہا تھا جو ادھر سے یہ جلا کٹا جواب آیا:
یہ شالامار میں اک برگِ زرد کہتا تھا
گیا وہ موسمِ گل جس کی یادگار ہوں میں
خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے یادِ فصل بہار
خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں
اجاڑ ہو گئے عہدِ کہن کے مے خانے
گزشتہ بادہ پرستوں کی یادگار ہوں میں
پیام عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے
ہلال عید ہماری ہنسی اُڑاتا ہے
اسی طرح ’’جوابِ شکوہ میں‘‘ علامہؒ شکوہ کناں ہیں کہ:
جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب
زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب
نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا تو غریب
امرا نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دَم سے
علامہ کی کئی ایک نظموں میں اسی طرح روزہ رمضان، عید کا ذکر ملتا ہے۔ بہر کیف اس تجزیہ سے بات یہ واضح ہوتی ہے کہ اُردو ادب کے بحر ذخاّر میں ماہِ رمضان کا ذکر کثرت سے پایا جاتا ہے تاہم ہر تخلیق میں تخلیق کار کا نظریہ، تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج سے مغلوب پیغام نظر آتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ زمانے کے شعور اور متوقع تبدیلی کے پیش نظر تخلیق کار اپنی تخلیقات میں مرکز بناتے آئے ہیں ہمیں اس ادبی ذخیرے میں مخفی پیغام سے کسی طور انکار نہیں‘ توجہ اس جانب مرکوز کروانی مقصود ہے کہ بدلتے زمانے کے ساتھ انسان کا شعور بلند ہوا رمضان میں عبادتوں کا تصور رمضان کی مقصدیت، رمضان کے فیوض و برکات اور اس کا عملی پیغام بھی بدل گیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی پر عبور اور معلومات کے خزانے کی ارزانی اس تبدیلی کی اہم وجہ ہے۔ اب تخلیق کار سے قاری تقاضے بھی بدلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مذکورہ بالا حوالے سے یہ ظاہر ہے کہ خواتین کی تخلیقات میں بجز بنتِ الاسلام کے کوئی مضبوط پیغام رمضان کے عملی منصوبے کا خواتین کی تخلیقات میں نظر نہیں آتا۔ اب خواتین کی ادبی تخلیقات میں نئے موضوعات کو شامل کرنا چاہیے جیسے رمضان میں قرآن مجید سے خواتین کا مضبوط رشتہ، سماعت قرآن کی محافل، اپنی ضرورت پر ضرورت مند کو ترجیح، خیرات و صدقات کا ماحول، فضول رسم و رواج کے بجائے للّٰہیت کے ساتھ کیا گیا عمل، قرآن مجید سے نسلِ نَو کو جوڑنے کی تگ و دو، چاند رات‘ جسے پہلے مہندی اور تیاری کے ساتھ خاص سمجھا جاتا تھا‘ اب باشعور طبقہ اب لیلۃ الجائزہ کے طور گزارنا پسند کرتا ہے، قیام اللیل کے لیے مساجد میں خواتین کا علیحدہ اہتمام اور تلاوت سے لطف لینے کا مزاج تقویت پانے لگا ہے۔ نیکی کا ثواب بڑھ جانے کی فضیلت نے مال پر سال کا تخمینہ لگا کر زکوٰۃ کا اہتمام بھی اسی ماہ میں کرنے کی ترغیب دی ہے۔ زکوٰۃ کو اس کے مداّت میں خرچ کرنے شعور بھی پیدا ہوا، قرآن میں تدبر کے ماحول نے شعور میں پختگی اور بالیدگی پیدا کی ہے اور رمضان کو تربیت اور امدادِ باہمی کا مہینہ سمجھنے کا شعور پیدا ہونے لگا ہے۔ بچوں کو کارٹون کے بطور قرآن کی تفسیر اور قرآنی کہانیوں کو بچوں کے مزاج پر ڈھال کر پڑھانے کے لیے تقی عثمانی مرحوم اور دیگر افراد نے عربی زبان میں کام کیا ہے کیوں نہ بچوں کے ادیب‘ ادب اطفال کے حوالے سے اردو میں ایسی کہانیاں تخلیق کریں جو بچوں میں مذہبی و ثقافتی ورثے کی منتقلی کا باعث بن سکیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ اردو ادب کے جدید تخلیق کار رمضان کی نسبت سے اپنی تخلیق کے بین السطور یا باضابطہ تخلیق میں اس طرح کے عملی موضوعات کو پیش کریں تاکہ اردو ادب کے قاری کے سامنے ہر میدان کی طرح یہاں بھی جدّت پیدا ہو اور اردو ادب کا میدان جدید تقاضوں سے تشنہ نہ رہ جائے۔
nn