بچوں میں خوف ،اسباب ،علامات اور تدارک کی تجاویز

944

اللہ تعالیٰ نے انسان کو سوچنے، سمجھنے اور غور و فکر کے لیے دماغ عطا فرمایا ہے، جس کی پیچیدہ ساخت اور پُرپیچ نظام کا مطالعہ کرنے پر دل بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ ’’اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔‘‘
ایک طرف دماغ کی قوت اور صلاحیت کے بل پر انسان نے خلا کی وسعتوں، سمندر کی گہرائیوں اور پہاڑوں کی بلندیوں کو گزر گاہ بنایا تو دوسری طرف اس کی حساسیت کا عالم یہ ہے کہ اچھے بھلے باشعور اور صحت مند انسان کو لمحوں میں اَن دیکھی، بے ضرر چیزوں کے خوف یا خود ساختہ فوبیاز کا نہ صرف شکار بنا دیتا ہے بلکہ بعض اوقات اس خوف کی شدت کے باعث وہ جان سے بھی گزر جاتا ہے۔اگر ایک جوان تنومند انسان خوف کے باعث بے بس ہو جاتا ہے تو بچے تو پھر بچے ہوتے ہیں۔ دماغ کی حساسیت، ذہن کی اس مخصوص حالت ، کیفیت اور خوف کی شدت میں اس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب معاملہ کسی بچے/ بچی کا ہو۔
بچوں کی عمر کے ابتدائی 6,5 سال خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیوں کہ اس دوران ان کا دماغ نشوونما کے مراحل طے کر رہا ہوتا ہے اور ذہن کے شفاف پردے پر حالات، واقعات، انداز پرورش و تربیت، رویوں اور ماحول کے مثبت، منفی نقوش ثبت ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس عمر میں پیدا ہونے یا پیدا کیے جانے والے خوف آئندہ پوری زندگی بچے کے ذہن و دل سے نہیں نکلتے بدقسمتی سے عمر کے اسی دور سے گزرنے والے بچے ہمارے ہاں سب سے زیادہ نظر انداز ہوتے اور ڈرائے دھمکائے جاتے ہیں۔ کبھی والدین اپنے وقتی آرام اور لمحاتی تفریح کی خاطر تو کبھی تربیت کرنے اور تمیز تہذیب سکھانے کے نام پر بچوں کو اندھیرے، جن بھوت‘ چڑیل ‘ خون پینے والی بلاؤں، سیٹی بابا، شیر، کالی مائی وغیرہ سے ڈرا کر سلایا ، کھلایا ، پلایا ، پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔
اسی طرح بلوغت سے قبل کا زمانہ رونما ہونے والی ذہنی و جسمانی تبدیلیوں کے باعث بہت نازک اور خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ عدم توجہ، رہنمائی کا فقدان اور محبت و شفقت سے محرومی اس دور سے گزرنے والے بچے/ بچی کے اندر بے شمار پیچیدگیاں اور مسائل پیدا کر دیتی ہے۔
ایک غیر ملکی تحقیق کے مطابق 18 ماہ کی عمر سے عام صحت مند بچے کے ذہن و دل پر خوف کے اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں اور 2 سال کی عمر کا بچہ اپنے خوف کا اظہار مختلف طریقوں سے کرنے لگتا ہے۔
’’بچوں میں خوف‘‘ سے متعلق ہمارے ہاں کے اچھے خاصے پڑھے لکھے، باشعور والدین میں بھی ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ’’سارے بچے ڈرتے ہیں‘‘یا ’’ابھی تو بچہ ہے، بڑا ہو کر خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ یوں والدین کی عدم توجہ اور لاپروائی کے باعث بچے کی پوری زندگی خوف کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔
بچہ ایک قوتِ حیات کے ساتھ دنیا میں آتا ہے، عمر کے ابتدائی پانچ‘ چھ برسوں میں وہ بے حد پُرجوش، توانائی سے پُر اور چلبلا ہوتا ہے، اس کے اندر موجود توانائی کا ذخیرہ اسے ہر دم شور مچانے، بھاگنے دوڑنے، اچھلنے کودنے اور نئی نئی شرارتیں کرنے پر اکساتا ہے اس طرح اس کی شخصیت کی مثبت تعمیر اور تشکیل ہوتی ہے اور جذبات و رویوں میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر بے جا پابندیاں لگائی جائیں، بات بے بات مارا پیٹا اور ڈرایا دھمکایا جائے تو توانائی کا مثبت اخراج رک جاتا ہے اور منفی جذبات اور قوتیں برسرکار آنے لگتی ہیں۔ بچے کی عزت نفس مجروح ہوتی اور وہ خوداعتمادی کے جوہر سے محروم ہو کر ضدی، باغی و بدتمیز یا پھر بزدل اور ڈرا سہما ہوا ’’دبو‘‘ بچہ بن جاتا ہے۔
خوف کیا ہے؟
خوف انسانی ذہن کی ایک خاص حالت یا کیفیت کا نام ہے، روزمرہ زندگی میں رونما ہونے والا کوئی بھی ناخوش گوار واقعہ، حادثہ یا سانحہ کبھی بھی، کہیں بھی، کسی بھی عمر کے انسان کے ذہن پر منفی اثرات مرتب کر کے اچھے بھلے آدمی کو متاثر کر سکتا ہے چنانچہ وہ ’’عدم تحفظ‘‘ کے احساس کے ساتھ اس چیز یا واقعہ سے ڈرنے اور خوف کھانے لگتا ہے جس کا دورانیہ فرد کی اپنی قوتِ ارادی کے مطابق مختصر یا طویل ہوتا ہے۔
خوف کی اس حالت یا کیفیت کا دورانیہ جتنا مختصر ہو اتنا ہی اچھا ہوتا ہے بہ صورت دیگر مسئلہ پیچیدہ ہو کر کوئی سنگین صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔
بچوں میں خوف:
بڑوں کی طرح بچے بھی روز مرہ زندگی کے تلخ و ترش رویوں، ناموافق حالات، ناخوش گوار واقعات، اندوہناک سانحات سے متاثر ہوتے اور ان کے ذہن و دل بھی بڑوں ہی کی طرح ان تمام حالات و واقعات کے منفی اثرات قبول کرتے ہیں، لیکن بڑوں کے برعکس بچوں میں ایسی حالت‘ کیفیت فوری توجہ اور خصوصی اہمیت کی متقاضی ہوتی ہے کیوں کہ بچہ اپنے خوف اور خوف کی وجہ کو سمجھ نہیں پاتا ، اسی طرح خوف کی حالت میں اپنی کیفیت یا جو کچھ وہ محسوس کر رہا ہوتا ہے اس کا اظہار نہیں کر سکتا۔ ایسے میں یہ والدین، اساتذہ اور دیگر بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کے خوف کا سبب جان کر اسے اس کیفیت سے نکال کر مطمئن اور پُرسکون کریں۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ بچوں میں قدرتی طور پر ’’خوف‘‘ نام کی کوئی چیز یا احساس نہیں پایا جاتا۔ آپ نے اکثر بچوں کو مختلف چیزوں مثلاً آگ، چاقو، کانچ کے ٹکڑوں، چھپکلی، لال بیگ ، بلی وغیرہ کو بے دھڑک چھوتے، پکڑتے اور ان کے پیچھے پُرشوق انداز میں لپکتے دیکھا ہوگا۔
اندھیرے کا خوف، تنہائی کا خوف، بلندی سے گرنے، پانی میں ڈوبنے، کرنٹ لگنے یا آگ سے جل جانے وغیرہ سمیت ہر قسم کے خوف بچوں میں عمر کے ساتھ ساتھ اردگرد کے ماحول اور بڑوں کی باتوں، رویوں اور ڈرانے دھمکانے سے جنم لیتے ہیں۔
خوف کے اسباب و وجوہات:
ہنستے مسکراتے، پیارے پیارے، صحت مند بچے فطرت کا حسین تحفہ اور قدرت کی انمول نعمت ہوتے ہیں۔ بچوں کے ذہن کورے کاغذ یا صاف سلیٹ کی مانند ہوتے ہیں جن پر اردگرد کے ماحول اور بڑوں کے رویوں کے اچھے برے، مثبت منفی اثرات نقش ہوتے رہتے ہیں اسی کے مطابق بچے / بچی کی شخصیت بنتی اور بگڑتی ہے۔
بچوں سے متعلق ہمارے ہاں ایک عام تاثر یا خیال یہ پایا جاتا ہے کہ ان پر اردگرد کے ماحول، حالات واقعات اور رویوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا حالانکہ یہ سوچ بالکل غلط ہے۔ بچے کوئی بے جان کھلونا یا بے حس چیز نہیں بلکہ جذبات و احساسات رکھنے والے گوشت پوست کے جیتے جاگتے باشعور انسان ہوتے ہیں۔ وہ بھی ماحول، حالات اور روّیوں سے متاثر ہوتے بلکہ بڑوں کے برعکس اپنی کم عمری اور مشاہدات و تجربات کی کمی کے باعث زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ بچہ پیدائش سے قبل ماں کے پیٹ میں بھی ماحول، حالات اور روّیوں کے مثبت منفی اثرات قبول کر رہا ہوتا ہے۔ یہ اثرات اتنے دیرپا اور نقوش اتنے پائیدار ہوتے ہیں کہ بچے کی آئندہ پوری زندگی اور شخصیت کی بنیاد بنتے ہیں۔
بچے فطری طور پر ہر قسم کے ڈر، خوف سے بے نیاز ہوتے ہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ کون سی چیز نقصان دہ اور کون سا کام خطرناک ہے۔ کس کھیل میں انہیں شدید چوٹ لگے گی یا کون سا جانور زہریلا یا وحشی ہے۔
ڈیڑھ دو سال کابچہ میز پر رکھی بھاپ اڑاتی گرما گرم چائے کی پیالی کو دیکھتے ہی بے دھڑک پکڑ لیتا ہے، چائے چھلک کر ہاتھ پر گرتی ہے تو جلن اور تکلیف کا احساس ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن و دل پر نقش ہو جاتا ہے، چنانچہ جب بھی گرم چائے کی پیالی سامنے آتی ہے تو بچہ ’’Hot, Hot‘‘کہہ کر پیالی کی طرف اشارہ کرتا اور اضطراری حرکات کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسی طرح بچہ ہیٹر، چولہے یا موم بتی کے شعلے کو چھونے پر جلن اور تکلیف کا احساس اور تجربہ حاصل کرتا ہے اور ہمیشہ کے لیے ان چیزوں کو چھونے/ پکڑنے سے گریز کرتا ہے۔ خوف کی یہ عارضی کیفیت ماں کی توجہ اور مناسب تربیت و رہنمائی سے کچھ عرصے بعد ختم ہو جاتی ہے اور بچہ ان چیزوں کے استعمال اور احتیاط کا سلیقہ سیکھ جاتا ہے، لیکن اگر ماں اور دیگر بڑے بچے کو آگ، ہیٹر، چولہے وغیرہ سے مستقل ڈراتے رہیں تو بچے کا ناپختہ ذہن ہمیشہ کے لیے ان چیزوں کے ساتھ تکلیف اور خوف کا احساس قائم کر لیتا ہے۔ گویا بچوں میں خوف کا ایک بڑا سبب پرورش و تربیت کا نامناسب انداز، ناموافق حالات، منفی رویے، عدم توجہ، رہنمائی کا فقدان اور والدین، اساتذہ یا دیگر بڑوں کا ڈرانا اور خوف دلانا ہے۔
بچوں سے متعلق یہ سوچ اور خیال بھی درست نہیں ہے کہ وہ ہر قسم کے تفکرات اور پریشانیوں سے بے فکر و بے نیاز ہوتے ہیں۔ بلاشبہ بچے بہت آزاد منش، فطری طور پر چلبلے اور لا ابالی ہوتے ہیں، ان کی اپنی ہی ایک چھوٹی سی خوب صورت دنیا ہوتی ہے جس میں کسی قسم کے ڈر، خوف، وہم وغیرہ کا گزر نہیں ہوتا، مگر اس کے ساتھ ہی وہ بہت حساس اور نازک بھی ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی فکریں، پریشانیاں، الجھنیں اور مسائل ہوتے ہیں جنھیں ان کے ناپختہ ذہن، عمر، مشاہدے و تجربے کی کمی کے باعث سمجھنے، سلجھانے اور حل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ ہر لمحہ کیا؟ کیوں؟ کیسے؟ کب اور کہاں؟ کی کھوج میں رہتے ہیں جب کہ بڑوں کے نزدیک ان کے معصوم سوالوں اور چھوٹی چھوٹی الجھنوں کی کچھ اہمیت نہیں ہوتی۔
دو سے تین سال کا بچہ انجان چہروں اونچی آوازوں یا ڈراؤنی شکلوں والے کھلونوں وغیرہ سے محض اس لیے ڈرتا ہے کہ وہ ان کی حقیقت نہیں سمجھتا۔
تین سے چار سال کا بچہ باپ کی مار، ٹیچر کی ڈانٹ یا ماں کی سختی کا کچھ مطلب نہیں سمجھتا البتہ اس کا معصوم ناپختہ ذہن مار، ڈانٹ اور سختی کے ساتھ نفرت اور خوف کا تصور قائم کر کے باپ، ٹیچر یا ماں سے ڈرنے لگتا ہے۔
چوٹ لگنے پر ایک بچے میں تکلیف کی شدت ، درد اور خوف کے احساس میں اس وقت اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے جب ماں اور گھر کے دیگر بڑے گھبرا کر زور زور سے بولنے‘ واویلا کرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں بچہ سہم کر رہ جاتا ہے، لیکن اگر ماں اور دیگر بڑے بچے کی بڑی سے بڑی چوٹ یا تکلیف پر بھی اس کا حوصلہ بڑھائیں، اسے بہادر اور اچھا بچہ کہیں تو پھر آنسوؤں سے بھری آنکھوں اور چوٹ سے بہتے خون کے باوجود ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔
خوف کی اقسام:
خوف دو قسم کے ہوتے ہیں
-1حقیقی خوف‘-2 فوبیاز
خوف کا دورانیہ:
مدت / دورانیہ یا اپنے اثرات کے لحاظ سے بھی خوف کی دو قسمیں ہیں -1عارضی (وقتی) خوف‘ -2 طویل المیعاد (لمبے عرصے تک چلنے والے) خوف۔
خوف کی علامات:
جس طرح ہر بچے کا خوف دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اسی طرح بچوں میں خوف کی علامات، شدت، نوعیت اور مدت بھی مختلف ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات ایک ہی طرح کے خوف کا شکار دو بچوں میں اس خوف کی علامات میں فرق ہوتا ہے۔
خوف کی حالت میں بچوں کی ذہنی و جسمانی کیفیات:
خوف کی حالت میں بچوں میں دو طرح کی ذہنی و جسمانی کیفیات پیدا ہوتی ہیں ایک عمومی کیفیات دوسری مخصوص کیفیات۔ خوف کی حالت میں بچوں کے دماغی خلیے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ مستقل خوف کا شکار رہنے والے بچوں میں بلوغت سے قبل اور بعد میں کئی طرح کی مخصوص جنسی کیفیات و مسائل اور پیچیدگیاں بھی رونما ہو جاتی ہیں۔
خوف کا سد باب:
بچوں میں خوف کے علاج کے ضمن میں سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ خوف خواہ کیسا ہی ہو اور اس کی علامات کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہوں، والدین کو انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور پوری توجہ، دل چسپی و سنجیدگی کے ساتھ خوف کا سبب جاننے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے رویے، طرز عمل اور پرورش و تربیت کے انداز میں تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ معاملہ اگر پیچیدہ ہو تو کسی تجربہ کار، مستند و ماہر معالج (سائیکاٹرسٹ ، سائیکالوجسٹ) سے رجوع اور اس کی ہدایات پر عمل کرنا بچے کی آئندہ پوری زندگی کو پیچیدگیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

حصہ