مولانا مودودی ؒ تبدیلی نظام کے داعی ہیں

590

ڈاکٹر انیس احمدبتاتے ہیںکہ ’’مجھے سب سے زیادہ متاثر مولانا مودودیؒ کی تحاریر اور شخصیت نے کیا۔ کالج اور یونی ورسٹی کی تعلیم کے دوران اردو میں ادبی اور علمی تخلیقات کو پڑھنے کا موقع ملا۔ ان میں سرسید، شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، ابوالکلام آزاد، غلام رسول مہر اور ادب و شعر کی دنیا کی معروف شخصیات شامل تھیں۔ لیکن جب میں نے مولانا مودودیؒ کی تحاریر کو پڑھنا شروع کیا تو انہیں ان سب سے مختلف پایا۔ مولانا مودودیؒ کی تحریر میں نہ وہ شوکتِ الفاظ تھی جو مولانا ابوالکلام آزاد کا امتیاز تھا، نہ علامہ شبلی کی کلامی روایت۔ مولانا مودودیؒ کی تحریر میں فکر کی گہرائی، الفاظ کی سادگی اور اطناب کی جگہ اختصار نے مجھے بہت متاثر کیا۔ یہ دور اختصار کا ہے، سادگی کا ہے، اور جو بھی نفسِ مضمون ہے اس کی حد تک بات کرنے کا ہے۔ اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ پہلے ایک بیان شروع کریں، پھر گریز کریں، پھر آپ واپس آئیں اور آخر میں جاکر آپ کوئی مقطع پیش فرمائیں۔ بلکہ جو بات ہو وہ کم سے کم الفاظ میں ادا کردی جائے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ مولانا کے اسلوب کا یہ کمال ہے، اور ظاہر ہے کہ انہوں نے مختلف علوم کے گہرے مطالعے سے اپنی فکر کو مرتب کیا اور دین کا جو تصور پیش کیا وہ بالکل ایک عملی تصور ہے کہ دین ایک زندہ حقیقت ہے، وہ ایک بیرونی عنصر نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد پر زندگی کا وجود ہے، اور اسی چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔‘‘
بات آگے بڑھی اور میں نے پوچھا ’’مولانا مودودیؒ کی علمی اور ادبی خدمات کی کیا اہمیت ہے؟‘‘ تو آپ کا کہنا تھا کہ ’’مولانا مودودیؒ کا علمی کارنامہ دورِ جدید میں اسلام کی عملی تطبیق ہے۔ مغربی تہذیب اور فکر نے مسلم دانشوروں کو بھی متاثر کیا اور انسانی تاریخ اور فکر کے ارتقائی تصور کی بنا پر یہ سمجھنے لگے کہ ساتویں صدی میں آنے والی تعلیمات پر آج کیسے عمل ہوگا! اس لیے یا تو ان تعلیمات پر نظرثانی کی جائے یا انھیں کچھ کتربیونت کرکے آج کے ’’ترقی یافتہ‘‘دور کے مطالبات کے مطابق بنایا جائے۔ مولانا مودودیؒ نے قرآن و حدیث کے دلائل سے سرمایہ داری، اشتراکیت، الحاد اور ارتقائی تصورات کا رد عقلی اور منطقی اسلوب میں کیا، اور نہ صرف علمی سطح پر بلکہ اصلاحی اور دعوتی تحریک قائم کرکے ثابت کیا کہ اس دور میں بھی اسلام ویسے ہی قابلِ عمل ہے جیسے دورِ اوّل میں تھا۔ مولانا کے اصلاحی تحریک قائم کرنے کا ایک ردعمل یہ ہوا کہ جن لوگوں نے جماعت اسلامی کو محض ایک دینی یا محض ایک سیاسی تحریک سمجھا، انہوں نے مولانا کی فکر کو جماعت سے وابستہ سمجھتے ہوئے اس پر توجہ کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔ لیکن اگر کسی نے مولانا کی تحریر کا مطالعہ کرلیا تو پھر ان کے سادہ اسلوب اور قرآنی فکر نے اسے لازماً متاثر کیا۔ میں سمجھتا ہوں مولانا کا جماعت کے فکری قائد کی جگہ ایک عالمی اسلامی مفکر، داعی اور مصلح کے طور پر مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ پوری امتِ مسلمہ کے اس دور کے مجدد کہے جانے کے مستحق ہیں، بلکہ اُن شخصیات میں سے ہیں جن سے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کی آفاقیت نے ان کی فکر میں آفاقیت پیدا کی۔ اس پہلو سے دورِ حاضر کے تین افراد قابلِ ذکر ہیں: ایک علامہ اقبال، دوسرے مولانا مودودی اور تیسرے علامہ محمد اسد۔ ان تینوں نے قرآن کریم سے اپنے آپ کو وابستہ کرکے وہ فکر امتِ مسلمہ کو دی جس میں قرآن کی آفاقیت پائی جاتی ہے۔ اس بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ جو تعصبات پیدا ہوئے ہیں کہ مولانا فلاں گروہ، فلاں جماعت کے قائد ہیں اور ہم دانشور ہیں، زیرک افراد ہیں، پڑھے لکھے افراد ہیں، روشن خیال ہیں، وقت سے آگے سوچنے والے ہیں، یہ ایک مصنوعی تفریق ہے جو ختم ہونی چاہیے۔ ان کا جو اصل مقام ہے آفاقی فکر رکھنے والے مفکر کی حیثیت سے، ایک مجتہد کی حیثیت سے، دین کی تشریح کرنے والے ایک فرد کی حیثیت سے دیکھنے کی ضرورت ہے، ان کو ان کے سیاسی کردار سے الگ کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام وہی کرے گا جو غیر جانب دار ہو۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ علمی غیر جانب داری عملاً مفقود ہے، کوئی کتنا ہی بڑا دعویٰ کرے کہ وہ غیر جانب دار ہے، لیکن جو عصبیتیں ہیں انہوں نے علم کی صحیح فکر کو، صحیح پہچان کو زنگ آلود کردیا ہے۔ جب تک یہ زنگ کم نہیں ہوگا اُس وقت تک شاید وہ محدود رہے۔ لیکن میری نگاہ میں مولانا ایک بہت ہی عظیم شخصیت کے حامل تھے اور میں نے ان کو پڑھا ہی نہیں ہے بلکہ انہیں بہت ہی قریب سے دیکھا ہے، ان کے ساتھ سفر کیا ہے، ایک عرصے تک ان کے قریب رہا ہوں، آخر وقت تک میں ان کے ساتھ رہا، ان سے ملاقاتیں رہی ہیں، حتیٰ کہ ان کی نماز جنازہ بھی بفیلو، امریکا میں ایک میں نے پڑھائی اور ایک ڈاکٹر اسرار صاحب نے پڑھائی۔ ان سے ہر لحاظ سے بہت قریبی تعلق رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ان کی شخصیت کو ہم نے بہت محدود کردیا ہے اور اس کے ذمے دار کسی حد تک وہ افراد ہیں جو اپنے آپ کو اُن کا مرید اور ماننے والا کہتے ہیں۔‘‘
مولانا سے متعلق ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’مولانا کی جو چیز بڑی نمایاں ہے وہ اُن کا خاکساری کا رویہ ہے۔ انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ سید زادے ہیں، وہ ایک سلسلۂ تصوف کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ ایک تحریک کے بانی ہیں، وہ ایک مفکر ہیں، ایک مفسر ہیں۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو ایک انتہائی منکسرالمزاج فرد کی حیثیت سے پیش کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان میں وہ انانیت نہیں تھی جو علم پیدا کرتا ہے تو یہ ایک جائز تجزیہ ہوگا۔‘‘
ایک سوال جب میں نے یہ پوچھا کہ ’’مولانا مودودیؒ کی فکر انقلابی فکر ہے اور اس نے پوری امت کے اندر بیداری کی لہر پیدا کی ہے۔ لیکن مولانا کی فکر کی انقلابیت کے نتائج سامنے نہیں آئے، کیا جدوجہد اس کی روح کے مطابق نہیں یا کوئی اور بات ہے ؟‘‘ تو اس پر آپ نے فرمایا تھا کہ ’’ضروری نہیں ہے کہ ان میں ہمیشہ یکسانیت پائی جائے۔ بعض مفکرین جیسے علامہ اقبال کی فکر بڑی اعلیٰ ہے، بڑی گہری ہے، بہت مستند ہے۔ لیکن کیا علامہ اقبال کوئی تحریک پیدا کرسکے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس بنا پر وہ ناکام ہوگئے؟ مولانا مودودی نے فکر بھی پیش کی، ایک تحریک بھی پیدا کی اور اس تحریک کو ایک عملی شکل دی۔ گویا کہ وہ ایک مفکر بھی ہیں اور ایک منتظم بھی ہیں جنہوں نے افراد کے مزاج اور ضروریات کے لحاظ سے ایک اجتماعیت پیدا کی۔ یہ دو بالکل الگ چیزیں ہیں۔ ہر قائد ایسا نہیں ہوسکتا۔ جن لوگوں کو انہوں نے متاثر کیا ہو، ضروری نہیں ہے کہ علمی لحاظ سے انہیں وہ مقام حاصل ہو، نہ یہ ضروری ہے کہ ہر ایک ایسا منتظم اعلیٰ ہو کہ وہ چھوٹے بڑے کو ساتھ لے کر چلنے کا قائل ہو۔ اسی لیے کسی بھی تحریک میں ان چیزوں کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے، اور اگر اس تحریک میں جو انہوں نے برپا کی آپ یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی قیادت میں علمی کمی، جذباتیت یا بعض اوقات عدم توازن پایا جاتا ہے تو یہ ایک قدرتی عمل ہے، آپ ہر ایک کو ایک سانچے میں نہیں ڈھال سکتے، لیکن آپ یہ لازماً کرسکتے ہیں کہ جو بھی اہداف ہیں وہ آپ کی نظر میں رہیں، اور ہدف ہمیشہ سے تحریک اسلامی کا یہی رہا ہے کہ ایسے افراد پیدا کرے جن میں فکر بھی پاکیزہ ہو، سیرت بھی پاکیزہ ہو، اور جو معاشرے میں تبدیلی لانے والے بن سکیں۔ یہ تین پہلو ایسے ہیں جو مولانا مودودی نے اپنی تحریر اور زندگی سے پیش کیے، اور یہی میرے نزدیک ان کی تحریک کی خصوصیت کا پہلو ہے۔
میں نے اُن سے پوچھا: ’’ایک خیال یہ ہے کہ تبدیلی کے لیے انتخابی سیاست کے راستے پر مولانا اپنے آخری دنوں میں مایوس تھے، وہ شاید کچھ عرصے اور حیات رہتے تو اس طریقۂ تبدیلی سے رجوع کرلیتے؟‘‘ اس پر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمدکا کہنا تھا: ’’میرا خیال ہے کہ مولانا مودودی نے بہت سوچ بچار کے بعد وہ مؤقف اختیار کیا تھا جس پر وہ آخر تک قائم رہے۔ انہوں نے بہت تحقیق سے فاشزم، کمیونزم اور سرمایہ داری کا مطالعہ کیا تھا، جس کی واضح مثال ان کی ’’تنقیحات‘‘ اور ’’سود‘‘ سمیت وہ تمام تحاریر ہیں جو انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑی ہیں۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ تبدیلی اگر آئے گی تو دستوری ذرائع ہی سے آئے گی، جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ برطانوی پارلیمانی نظام یا امریکی صدارتی نظام ہی مسائل کا حل ہے۔ دستوری ذرائع کا مطلب یہ ہے کہ توڑ پھوڑ سے تبدیلی نہیں آسکتی۔ تبدیلی کے لیے طویل عرصہ تطہیر افکار اور تعمیر سیرت کی ضرورت ہے۔ تبدیلی ایک فطری عمل ہے، جب بھی افرادِکار اس قابل ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ امامت، امارت اور قیادت سونپ دے، وہ اس میں تاخیر نہیں کرے گا۔ تعمیری تبدیلی مشروط ہے اُن انسانوں کی جماعت سے جو قرآن کی چلتی پھرتی تصویر ہوں۔ رہا یہ معاملہ کہ جہادی طریقہ اسلامی نہیں ہے، تو مولانا نے اُس وقت جب پوری امتِ مسلمہ معذرت پسند رویّے کے ساتھ جہاد پر بات کرنے سے گریز کررہی تھی، کھل کر علمی اور قرآنی دلائل سے یہ بات ثابت کی کہ جہاد اسلام کا رکن ہے اور قیامت تک رہے گا۔ ہاں جہاد کا مطلب نہ خون خرابہ ہے نہ خودکش حملے، بلکہ وہ منظم و مرتب اور ذمے دارانہ جدوجہد ہے جس میں جو کچھ انسان کے اختیار میں ہے اسے لگا دیا جائے۔ گویا تبدیلی دستوری اور پُرامن ذرائع سے ہونی چاہیے، جو اُسی وقت ممکن ہے جب افراد کی تربیت فکری اور عملی تطہیرکی شکل میں ہو، اور وہ تبدیلی کا ذریعہ بنے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ مولانا قوت کے استعمال کو مکمل رد نہیں کرتے۔ اس کی واضح مثال اُن کی وہ علمی کاوش ہے جسے ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ وہ جہاد کے موضوع پر بغیر کسی معذرت کے دوٹوک بات کرتے ہیں۔ یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ جہاد پر مولانا کی اس تحریر کے محرک مولانا محمد علی جوہر تھے، اور جہاد کے موضوع پر مولانا کے یہ مضامین توازن و اعتدال کی بہترین مثال پیش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں جہاد ایک اصلاحی عمل ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ جہاد ایک خونریز عمل ہے، اور اصلاحی عمل کا مطلب یہ ہے کہ آپ جس حد تک ممکن ہوگا ایک طبیب کی طرح سے حالات کی اصلاح کریں گے۔ لیکن اگر کہیں پر جراحت کی ضرورت ہے تو اس بنا پر کہ جراحت ایک نازک عمل ہے کیا آپ مریض کو مرنے دیں گے؟ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہوا کہ آپ جراحت کا نشتر لے کر ہر ایک کو اس سے کریدتے پھریں۔ گویا کہ ان کا جو مائنڈ سیٹ ہے وہ یہ کہ آپ دستوری ذرائع سے، وہ ذرائع جو پبلک ہیں، جو صبر آزما ہیں، جو طویل ہیں، جن کے لیے ضروری ہے کہ انبیائے کرام کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے آپ نرم گفتاری کے ساتھ، بھلائی کے ساتھ ایک چیز کو لوگوں کے دلوں میں بٹھائیں، ان میں تبدیلی پیدا ہو، اس تبدیلی کے اثرات ظاہر ہوں ان کے طرزِ عمل سے، ان کے معاملات وہ ہوں جو دوسروں کے لیے مثال ہوں، ایک مخالف بھی یہ کہے کہ مجھے اگر کسی رفاہی کام میں پیسہ لگانا ہے تو چاہے میں ووٹ ان کو دوں نہ دوں لیکن یہی لوگ امانت دار اور قابلِ اعتماد ہیں۔ ان کے معاملات درست ہیں۔اس لیے اللہ کے نام پر جو کچھ خرچ کرنا ہے تو وہ ان کے ذریعے خرچ ہو۔ یہ وہ امیج ہے جو اُسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب آپ ایک طویل عمل کے ذریعے افراد کی تطہیرِ فکر کرتے ہوئے، تعمیرِ سیرت کرتے ہوئے انہیں بطور ایک نمونے کے پیش کریں کہ یہ وہ عام شہری ہیں جن کے ذریعے مثالی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’مولانا نے بھی اس نظام کو مختلف جگہوں پر گلا سڑا نظام کہا، زہر کے پیالوں سے تشبیہ دی، اس کی کیا وجہ تھی؟‘‘ اس پر آپ کا کہنا تھا: ’’ان تمام چیزوں کا جب میں تجزیہ کرتا ہوں تو صرف دو الفاظ ان تمام چیزوں کا حل ہیں: تبدیلیِ اقتدار اور تبدیلیِ نظام۔ مولانا قائل ہیں تبدیلیِ نظام کے، جب کہ تبدیلیِ اقتدار مسئلے کا حل نہیں ہوتی لیکن حل معلوم ہوتی ہے۔ مولانا یہ سمجھتے ہیں کہ تبدیلیِ نظام ہونی چاہیے۔ نظام کیسے بدلے گا؟ توڑ پھوڑ سے؟ خون خرابے سے؟ جنگ و جدال سے؟ نہیں! وہ نظام بدلے گا اس طریقے سے جس نظام میں آپ افراد کو تیار کرسکیں۔ مولانا مودودی اور علامہ اسد کا مشترکہ مؤقف اگر آپ سمجھنا چاہیں تو دونوں کو پڑھیے، آپ کو معلوم ہوگا کہ دونوں اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تحریک کے اندر جو بڑی کمی رہی وہ یہ تھی کہ سرکردہ افراد وہ تھے جو نواب، جاگیردار، انگریز کی طرف سے اعزاز یافتہ بیوروکریٹس تھے، جن کو یہ بات معلوم تھی کہ جمعہ کی نماز پڑھنا کافی ہے اسلام کے قیام کے لیے۔ اور یہ بات علامہ اسد نے اپنی تحاریر میں کھل کر بیان کی ہے اور اس کا ذکر مولانا مودودی کی تحریروں میں بھی ملتا ہے۔ کیا محض ملک حاصل کرنا ہے یا وہ نظام جس کے ذریعے اس ملک میں وہ ادارے ہوں جن میں اسلامی اصول کارفرما ہوں، اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ کے پاس معیشت کے ایسے ماہر، دفاع کے ماہر، سائنس کے ماہرین، ادب و ثقافت کے ماہرین ہوں جن کا نقطۂ نظر اسلامی ہو، اس کا نام ہے تبدیلیِ نظام۔ تبدیلیِ نظام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ حکومت پر قابض ہوگئے، آپ نے جھنڈا لگا لیا اسلام کا، اور جو کچھ ہورہا ہے وہ ہوتا رہے۔ یہ بنیادی فرق اگر سمجھ لیا جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مولانا مودودی تبدیلیِ نظام کے داعی ہیں، تبدیلیِ اقتدار کے قائل نہیں ہیں۔

حصہ