رمضان کریم ایک ایسا مبارک اور رحمتوں والا مہینہ ہے جس کا انتظار اور استقبال ایک عام مسلمان ہی نہیں، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم جن پر ہمارے والدین قربان ہوں، خصوصی عبادات کے ذریعے فرمایا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ شعبان ہی سے اس ماہ کے لیے کمرکس لیا کرتے تھے لیکن رحمت للعالمینؐ کا اپنی امت کی آسانی کے لیے یہ خصوصی اظہارِ محبت تھا کہ، گو خود تمام شعبان روزہ رکھتے لیکن امت کو آخری دو ہفتوں کی رخصت دے کر صرف شعبان کے اوّلین حصے میں روزہ رکھنے کی تلقین فرماتے۔ اسی بنا پر نصف شعبان کا روزہ افضل ہے اور اوّلین دوہفتوں میں روزے رکھنا سنت کی پیروی ہے۔
اس مہینے کی اہمیت اور اس کے انقلابی اثرات کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ ایک بڑی عظمت والا، بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس میں روزہ رکھنا فرض کردیا گیا ہے اور راتوں میں تراویح پڑھنا نفل (یعنی سنت) ہے۔ اس ماہ میں ایک فرض کا ادا کرنا دوسرے کسی مہینے کے 70فرض ادا کرنے کے برابر ہے۔ یہ مہینہ مواساۃ ،یعنی ہمدردی کرنے والا مہینہ ہے۔
جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ اس ماہ میں روزہ رکھا تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرما دے گا۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت کا، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر باشعور مسلمان مرد، عورت اور بچہ اس ماہ میں خصوصی اہتمام کے ساتھ تلاوتِ قرآن، وقت پر نمازوں کا اہتمام، صدقات و خیرات اور غربا و مساکین کی امداد کرنے میں مسابقت کرتا ہے۔ اس کی برکتیں اَن گنت، اس کے انعامات غیرمحدود، اور اس کی لذت اپنی مثال آپ ہے۔
یہ مہینہ جو مواساۃ کا، رحمت کا، مغفرت کا، عفو و درگزر کا، صبر و استقامت کا مہینہ ہے، جس کا مقصد رحمت کی فضا پیدا کرکے پوری امتِ مسلمہ کو دنیا کی تمام غلامیوں سے نکال کر صرف اور صرف اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی طرف بلانا ہے، ایک عام مسلمان سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟ کیا صرف عبادات کا خلوصِ نیت کے ساتھ کرلینا اور نوافل کا اہتمام کرلینا اُمتِ مسلمہ کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے کافی ہوگا؟ یا ہمیں غوروفکر کے ساتھ اپنے حالات کا جائزہ اور احتساب کرتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ اس ماہ میں ہماری ترجیحات کیا ہوں؟
تقریباً 1500 سال قبل جب پہلی مرتبہ رمضان کا مہینہ اپنی رحمتوں کے ساتھ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب پر سایہ فگن ہوا تو ابھی 17دن بھی نہ گزرے تھے کہ امتِ مسلمہ کو ایک ایسی جنگ کا سامنا کرنا پڑا جو اس کے وجود کو ختم کرنے کی خاطر نظامِ کفر و استحصال کی طرف سے اس پر مسلط کی گئی تھی۔ آج جدید جاہلیت پر مبنی تہذیب اور اس کے سرمایہ دار قائد اُمتِ مسلمہ کے خلاف اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ نبردآزما ہیں۔ جس طرح اُس وقت اصحابِ رسولؐ میں سے کسی کے پاس نیزہ تھا تو تلوار نہ تھی، تلوار تھی تو ڈھال نہ تھی، خَود تھا تو زرہ نہ تھی، اسی طرح آج بھی اُمتِ مسلمہ جنگی آلات کے لحاظ سے کم تر مقام رکھتی ہے، لیکن جس چیز نے قرن اوّل میں اُمتِ مسلمہ کو فتح مند کیا تھا، وہ اس کی اسلحہ میں برتری نہ تھی، بلکہ اس کا وہ کردار و تقویٰ تھا جس کی تیاری میں اسے 13سال آزمایشوں کی دہکتی بھٹیوں سے گزرنا پڑا تھا۔ اللہ کے یہ چند بندے اپنے کُند بھالوں کے باوجود ایمان کی غیرمحدود قوت، کردار کی عظمت، خلوص کی کثرت اور رب کریم سے اپنے تعلق کی فراوانی کی بنا پر اپنے سے تین گنا زیادہ تعداد اور 10 گنا زیادہ مسلح قوت سے نہ صرف ٹکرلینے بلکہ آخرکار اس قوت کو توڑنے اور شکست دینے کی نیت سے نکلے تھے۔ ان کے رب نے ان کو وہ عزم دیا تھا جو غیرمتزلزل ہو، اور ایسی استقامت دی تھی جو فتح و کامرانی کا پیش خیمہ ہو۔
آج اس پُرآشوب دور میں اس برکتوں والے مہینے کے ذریعے ہمیں اولاً اپنے آپ کو باطل کی تمام محکومیوں سے نکال کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی میں دینا ہوگا۔ یہ بندگی کامیابی کے لیے شرطِ اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو اپنا رہنما بنانا ہوگا کہ بہترین اسوہ اور بہترین قابلِ عمل نمونہ اگر کوئی ہے تو وہ صرف آپؐ کی حیاتِ مبارکہ ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں دشمن کی حکمت عملی اور منصوبوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ کس کس راستے سے وہ ہم پر حملہ آور ہورہا ہے۔ دشمن کی جنگی حکمت عملی کا اوّلین نکتہ اُمتِ مسلمہ کو ثقافتی، ابلاغی اور برقی اتصالات (ذرائع ابلاغ) کے ذریعے مغلوب کرنا ہے۔
مغرب کی ثقافتی یلغار کا ایک بڑا ذریعہ جدید اتصالات ہیں، چنانچہ سوشل میڈیا فیس بک (facebook) اور یوٹیوب (youtube) کے ذریعے نوجوانوں کے ذہنوں کو دین سے دُور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس ماہِ مبارک میں قرآن کریم کی دعوت کے ذریعے نوجوانوں میں دینی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنا سیکھیں، لہوولعب میں ضائع نہ کریں۔ اسلامی معلومات کو برقی میڈیا سے دل نشیں انداز سے پیش کیا جائے۔ یہ مہینہ جو قرآن کا مہینہ ہے اس میں قرآن کریم کے بہت سے پہلو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے عام کیے جاسکتے ہیں، مثلاً سابقہ اقوام کے قصے اور کائنات کے حوالے سے قرآن کریم کے دلائل۔
اُمتِ مسلمہ کو درپیش مسائل میں سے ایک بنیادی مسئلہ فرقہ بندی نیز علاقائی اور قومی عصبیتوں کا اُبھارا جانا ہے تاکہ امتِ مسلمہ اتحاد سے محروم رہے۔ قرآن کریم نے اُمتِ مسلمہ کو ایک بنیان مرصوص سے تعبیر کیا تھا، جب کہ مغرب کی لادینی فکری یلغار اسے الگ الگ قومیتوں میں تقسیم دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ مہینہ اتفاق واتحاد کا مہینہ ہے۔ اس میں دلوں کے اتحاد کی بنیاد قرآن کریم ہے۔ اس ماہ میں ہرہرمحلے میں حلقہ ہائے مطالعہ قرآن کا قائم کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ عصبیت لسانی ہو یا نسلی، ان سب کا علاج صرف اس کلامِ عزیز پر جمع ہوجانا ہے۔
یہ مہینہ زندگی میں اعتدال اور توازن پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ حکم ہے کہ بغیر سحری روزہ نہ رکھا جائے، اور نہ سحری اتنی زیادہ ہو کہ دن میں ایک روزہ دار پریشان رہے۔ ایسے ہی افطار میں توازن ہو اور بجائے اپنے اوپر اسراف کرنے کے اہلِ محلہ، غریبوں، مسکینوں، قرض داروں، غرض ان تمام افراد پر خرچ کیا جائے جو مسائل کا شکار ہوں۔ لیکن اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو یا کسی کی مشکل کا دُور کرنا، ہر معاملے میں متوازن رویہ اختیار کرنا ہی رمضان کا پیغام ہے۔
معاشرے سے معاشی ظلم و استحصال اور عدم توازن کو دور کرنا اور تمام شہریوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے مناسب اقدامات کرنا، ایک اسلامی ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں اس جانب عدم توجہ پائی جاتی ہے۔ اس مبارک مہینے میں ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ مالی استحصالی نظام سے نجات اور اسلامی معیشت کے عادلانہ نظام کے لیے زمین ہموار کرنے کی کوشش کی جائے۔ یونی ورسٹیوں میں طلبہ و طالبات کو ان موضوعات پر اظہارِ خیال کی دعوت دی جائے، اور جہاں کہیں بھی ابلاغ عامہ تک رسائی ہو، اسلامی نظامِ معیشت، اسلامی بینکاری اور تکافل کے حوالے سے عوام کو فکری رہنمائی فراہم کی جائے، اور اسلامی بینکاری کے حالیہ تجربات کو تعاون و اشتراک سے دوسروں تک پہنچایا جائے تاکہ سودی کاروبار سے بتدریج نجات ملے۔
اس مبارک مہینے کا ایک مقصد تزکیۂ نفس ہے کہ انسان اپنے نفس کو قابو میںرکھنا سیکھے اور اپنی خواہشات کو اللہ کی بندگی کا تابع بنادے۔ یہ ان تمام ترغیبات کے خلاف ایک مسلسل جہاد ہے جو انسان کو غیرمحسوس طور پر برائی کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔ یہ مہینہ ہمیں سادگی اور کفایت شعاری کی تعلیم دیتا ہے اور چاہتا ہے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا، جن کا شمار کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں، شکر ادا کرنے کے لیے اللہ کی دی ہوئی دولت، وقت اور صلاحیت کو اُس کے دین کے غلبے کے لیے استعمال کیا جائے اور ان تحریکوں کا ساتھ دیا جائے جو دنیا سے طاغوتی نظام کو مٹانے اور اسلامی شریعت نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس مقصد کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب انسانوں میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے ذریعے ایک فکری انقلاب لایا جائے اور اس فکری انقلاب کے دائرۂ کار کو خاندان، معاشرے اور معیشت وتعلیم کے شعبوں تک وسعت دے دی جائے۔ اس مہینے میں اللہ کے بندوں کے دلوں کی دنیا میں انقلاب لایا جائے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت اختیار کی جائے۔ قرآن کریم ہدایت کرتا ہے کہ اللہ کے بندے تو وہ ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوئوں پر لیٹے، ہر حال میں اللہ کے ذکر کو اختیار کرتے ہیں۔ اس ماہِ مبارک میں مسنون دعائوں کے خصوصی اہتمام کی ضرورت ہے۔
رمضان کریم کی برکات میں سے ایک بڑی برکت اس کا آخری عشرہ ہے۔ اس میں وہ قوت والی طاق رات ہے جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا۔ اس کلام کی عظمت و شوکت اس بات کی متقاضی تھی کہ اسے ایک قوت والی رات ہی میں نازل کیا جائے۔ آج قرآن کریم کی یہ قوت ہی وہ محرک ہے جس نے عالمِ اسلام کے نوجوانوں میں رجوع الی القرآن اور رجوع الی اللہ کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس عظیم رات میں جو انقلاب تاریخ عالم میں برپا ہوا، اس کے اثرات زندگی کے ہرشعبے میں نمایاں ہوئے۔ اس رات کے بعد انسانوں کا تصورِ کائنات، تصورِ انسان، تصورِ الٰہ اور مقصدِ حیات کا تصور، غرض ہر ہرشعبے میں ایک انقلاب برپا ہوا۔ کل تک جو انسان سیاروں، ستاروں اورچاند سورج کی پرستش کرتا تھا، اب ان سب کے خالق رب العالمین کا بندہ بن گیا۔ کل تک جو انسان جانوروں اور بتوں کے سامنے جھکتا تھا، ان سے ڈرتا تھا، ان سے اپنی مرادیں مانگتا تھا اور بعض اوقات خود کو ربِ اعلیٰ سمجھ بیٹھتا تھا، اب اُس انسان نے اپنی اصل عظمت کو پہچانا اور عبدیت کو انسان کی معراج سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو تمام غلامیوں سے نکال کر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت کے آگے سرتسلیم خم کردیا۔ کل تک اگر زندگی کا مقصد لذت، مال و دولت کی کثرت اور اقتدار کی ہوس تھا، تو اب زندگی کا مقصد صرف حاکمِ حقیقی کی رضاکا حصول اور اس رضا کے حصول کے لیے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا اہتمام قرار پایا۔ اس ایک رات نے زمین و آسمان کا نقشہ بدل دیا اور ایک ایسی اُمت کے وجود کی بنیاد رکھی جسے رب کریم نے انسانوں کی قیادت و امامت کے لیے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے، زمین سے ظلم کو مٹانے اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے ایک مقصد اور مشن کے ساتھ تمام انسانوں پر جواب دہ بنادیا۔
آج اُمتِ مسلمہ اگر اپنی اصل قوت کا صحیح شعور و آگہی رکھتی تو اس کا سر کسی عالمی قوت کے سامنے نہ جھکتا۔ وہ اپنے قدرتی اور انسانی وسائل کو اپنے عوام کی فلاح کے لیے استعمال کرتی، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ نظامِ حیات کو اللہ کی زمین پر نافذ کرکے زمین و آسمان سے برسنے والے فضل و رحمت کی مستحق بن جاتی۔
آج سب سے زیادہ ضرورت اسی شعور و آگہی کی ہے۔ اگر اُمتِ مسلمہ اپنی اصل سے آگاہ ہوجائے تو کوئی قوت اسے زیر نہیں کرسکتی۔ یہ اصل اس کی قوتِ ایمانی ہے، یہ اصل اس کا اعتصام باللہ ہے، یہ اصل اس کی قرآن کریم سے رغبت اور سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی اور پیروی ہے۔ آج اُمتِ مسلمہ پر باطل قوتوں کی جانب سے یلغار کا سبب یہی ہے کہ انہیں اس کی اصل قوت کا خطرہ ہے۔ اس مہینے میں شب و روز اس تعلق کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہرمسلمان ایک چلتا پھرتا قرآن اور ایک بہترین داعی بن کر معاشرے کی فلاح وبہبود کے کاموں میں دوسروں سے آگے نکل سکے۔ یہ مہینہ ان تمام بھلائیوں اور نیکیوں میں مسابقت کا مہینہ ہے جو رب کریم کو پسند ہیں اور اسے خوش کرنے والی ہیں۔
یہ مہینہ ظلم و استحصال کے خلاف منظم جہاد کا مہینہ ہے کہ کفر کی ہرہرچال کو سمجھ کر دین کی فراست اور حکمت کے ساتھ اس چال کوتوڑا اور معروف کے قیام کے لیے مثبت اقدامات کو اختیار کیا جائے۔ یہ ماہ مثبت فکر، مثبت عمل اور مثبت کوشش کا مہینہ ہے۔ اس میں بھلائی کے لیے نکلنے والوں کی نصرت اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے کرتے ہیں۔ اس ماہ میں کی گئی منظم جدوجہد اہلِ ایمان کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں تبدیل کردیتی ہے، اور بعض اوقات اپنی قلتِ تعداد کے باوجود وہ اپنے سے دس گنا زیادہ نفری پر غالب آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ماہ کی برکات سے استفادے کی توفیق دے، ہر عملِ خیر میں برکت دے، اور ہر کوشش کو خصوصی نصرت سے نوازے، آمین۔