ملک میں پہلی دفعہ ڈریگن فروٹ کے پودے کاشت کئے گئے

636

ڈاکٹر نورالنساء میمن سندھ ایگری کلچر یونیورسٹی ٹنڈو جام میں ہارٹی کلچر ڈپارٹمنٹ کی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے منفرد غیر ملکی پھل ڈریگن فروٹ کے پودے کاشت کرنے کا کامیاب تجربہ کیا، اس کے علاوہ وہ ایوکاڈو، زیتون، اجوا کھجور کے پودوں کی کاشت کا تجربہ بھی کررہی ہیں۔ ہم نے ان سے گفتگو کی جس کو اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کررہے ہیں۔
…٭…
جسارت میگزین: اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں بتایئے۔
ڈاکٹر نورالنساء میمن: میرا نام ڈاکٹر نورالنساء میمن ہے، سندھ ایگری کلچر یونیورسٹی ٹنڈوجام میں پروفیسر ہوں، پنجاب کی فیصل آباد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا، اس سے پہلے 1996ء سے میں یونیورسٹی میں لیکچرار تھی، پھر ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوئی اور اب پروفیسر ہوں۔ ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کے طالب علموں کی ریسرچ میں راہنمائی کرتی ہوں۔ ہارٹی کلچر پر میں نے ایک ڈکشنری لکھی ہے، کچن گارڈننگ پر بھی ایک بک لیٹ لکھی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی مدد سے یونیورسٹی میں باقاعدہ لیب بنائی اور اس کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ ہارٹی کلچر سے مراد پھل، پھول، سبزیاں اور لینڈ اسکینگ کا شعبہ ہے۔
میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ پھولوں پر تھا۔ میرا پہلا مقالہ نیوزی لینڈ میں پیش ہوا۔ کراچی اور دیگر شہروں میں ادارے وائس چانسلر کے ذریعے ہم کو بلاتے ہیں تو مختلف شہروں میں جاتے ہیں۔ میرے والد نے بھی اسی یونیورسٹی میں خدمات فراہم کی تھیں، امریکا سے بھی پڑھا۔ ہم چھ بھائی اور تین بہنیں ہیں، ہر ایک اپنے اپنے میدان کا شاہ سوار ہے۔ میرے شوہر انجینئر ہیں اور واٹر مینجمنٹ کمپنی چلا رہے ہیں۔
جسارت میگزین: آپ اپنی حالیہ کامیابی کے بارے میں بتایئے جو یوم خواتین کے موقع پر نمایاں طور پر سامنے آئی؟
ڈاکٹر نورالنساء میمن: جیسا کہ میں نے بتایا، میں ریسرچ ورک کرتی ہوں اور کرواتی بھی ہوں، ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کے طالب علم ہوتے ہیں۔ میری کوشش اس سلسلے میں یہ رہتی ہے کہ کچھ نئے پھل پاکستان میں متعارف کروائوں۔ اس سلسلے میں ایک صاحب سے نیٹ کے ذریعے رابطہ ہوا، میں نے کہا کہ مجھے ڈریگن فروٹ لگانا ہے، اس فروٹ کا درخت عام پھلوں کی طرح نہیں ہوتا، یہ کیکٹس کی طرح ہوتا ہے جس کا فروٹ اس کی پورز میں لگتا ہے۔ خود اس کو بھی پورز کے ذریعے ہی لگایا جاتا ہے۔ انہوںنے مجھ سے کہا کہ دعا فائونڈیشن کے فیاض عالم صاحب سے رابطہ کریں۔ میں نے ان سے رابطہ کیا تو جیسے میری لائن کھل گئی۔ انہوں نے مجھے بے حد سپورٹ کیا۔ نہ صرف مجھے ڈریگن فروٹ کے پودے دیے بلکہ اس کے پورز بھی لگا کر دیے، اس کے علاوہ ایواکاڈو کا پودا بھی دیا، کھجوروں کی وہ اقسام دیں جو یہاں نہیں ہوتیں مثلاً اجوا، عنبر وغیرہ۔ یہ نایاب قسم کی کھجوریں ہیں۔ یوں دعا فائونڈیشن کے فیاض عالم صاحب سے ہمارا رابطہ گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے ہے اور وہ ہمارے لیے بہت اہم مدد فراہم کر رہے ہیں۔
جسارت میگزین: ڈریگن فروٹ کی طرح کے نایاب پھلوں کی افزائش سے پاکستان کو کیا فوائد حاصل ہوںگے؟
ڈاکٹر نورالنساء میمن: ہمارے ملک میں بہت سارے پھل ہوتے ہیں لیکن ڈریگن فروٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا ایک پھل بارہ، پندرہ سو کا ہوتا ہے۔ پوری دنیا کی مارکیٹ میں اس کی ڈیمانڈ ہے، یہ خاص طور سے ویت نام کا پھل ہے جو اس کو ایکسپورٹ کرتا ہے اور اس کے ذریعے زرمبادلہ کماتا ہے۔ پھر یہ پھل گرم علاقے کا ہے، 45 ڈگری سے اوپر برداشت کرسکتا ہے۔ ہمارے پاس تو اس سے زیادہ درجہ حرارت ہوتا ہے۔ پھر اس کی اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ کم پانی لیتا ہے، اور ہمارے ہاں پانی کی ویسے بھی کمی ہے۔ تو ہم ایسا پھل کیوں نہ لگائیں جس کو کم پانی چاہیے اور جو ہمارے موسم کے لحاظ سے چل سکے! یعنی یہ اِن پٹ کم لے گا اور آئوٹ پٹ زیادہ دے گا، تو یہ ہمارے لیے بہت فائدہ مند ہے۔
جسارت میگزین: آپ نے پھلوں اور سبزیوں کے لیے کچھ اور کام بھی کیا ہے؟
ڈاکٹر نورالنساء میمن: جی ہاں ہم نے آم کے درختوں کے لیے ’’کلین مینگو نرسری‘‘ کا پراجیکٹ کیا ہے۔ یہ آسٹریلیا کے تعاون سے کیا گیا۔ ہم نے آم کے درختوں کے مسائل کا جائزہ لیا اور زیادہ پھل دینے والے پودے متعارف کروائے۔
آم کے درختوں میں یہ ہورہا تھا کہ اچانک پورے کے پورے درخت جل رہے تھے اور باغبان پریشان تھے، تو کلین مینگو نرسری کے ذریعے اس پر ریسرچ کی گئی۔ پتا چلا کہ جیسے کوئی بچہ ہے جس میں بچپن میں کسی چیز کی کمی یا زیادتی ہو اور اس کا علاج بچپن میں نہ کرایا جائے تو پھر بڑے ہوکر اس کا تدارک مشکل ہوجاتا ہے، اسی طرح درختوں اور مٹی میں کچھ وجوہات کی وجہ سے یہ ہورہا تھا۔ ہم نے اپنی نرسری میں کلین مینگو پودے لگائے اور ان کو آگے فراہم کیا تاکہ یہ پھل دار درخت جو ہمارے باغبانوں اور ملک کے لیے اہم ہیں، یوں ضائع نہ ہوں، اور اس میں ہمیں کامیابی ہوئی۔ ہم نے گہرائی سے جائزہ لیا تو یہ تشخیص ہوا کہ آم کے چھوٹے پودوں میں ایک پیتھوجن آجاتے ہیں جس کے باعث بیماری بڑھ جاتی ہے۔ کلین نرسری کا مطلب ہے کہ ہم ایسے پودے بنا رہے ہیں جن میں کوئی بیماری یا فنگس نہیں ہے، اور وہ آگے چل کر اِن شاء اللہ صحت مند پودا ہوگا اور زیادہ پیداوار دے گا۔
سٹرس پھلوں کی اقسام میں بھی ہم نے کام کیا ہے۔ پنجاب میں اس کی بہت اقسام ہوتی ہیں، اس دفعہ ہم نے اپنی نرسری میں ان کے پودوں کو کٹنگ یعنی قلم کے ذریعے لگانے کا تجربہ کیا۔ ابھی یہ ابتدائی مراحل میں ہے، کچھ کی کونپلیں نکل آئی ہیں اور یہ مستقبل میں کامیابی کی ایک کہانی ہوسکتی ہے۔
جسارت میگزین: آپ کو اس سلسلے میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور آپ نے انہیں کیسے حل کیا؟
ڈاکٹر نورالنساء میمن: مشکلات تو ہر ایک کی زندگی میں ہوتی ہی ہیں اور کوئی ایک دو نہیں ہوتیں، وقت اور حالات کے حساب سے ان میں اضافہ ہوتا ہے۔ میرے ساتھ میرے والدین تھے، انہیں اپنے بچوں کو تعلیم دینے کا شوق تھا، لیکن کبھی انہوں نے زبردستی نہیں کی۔ جب میں نویں جماعت میں تھی مجھے پڑھنے کا شوق نہیں تھا، میرے والد نے کہا ’’بیٹا آپ میٹرک کرلیں پھر جو چاہیں کریں‘‘۔ میں نے میٹرک کا امتحان تھوڑی دل جمعی سے دیا۔ میٹرک میں اُس زمانے کے لحاظ سے بہت اچھے نمبر آگئے۔ پھر شوق بھی ہوا اور آگے واقعی محنت سے پڑھا۔ پھر انٹر کے بعد میڈیکل اور انجینئرنگ کے ساتھ ایگری کلچر یونیورسٹی کا فارم بھی بھرا، اور داخلہ مل گیا۔ اُس زمانے میں اس شعبے میں لڑکیاں کم ہوتی تھیں۔ ہم سے پہلے تو اور بھی کم ہوتی تھیں۔ مشکل سے چار، پانچ ہی لڑکیاں ہوتی تھیں۔ ہمارے زمانے میں نو، دس ہوتی تھیں۔ لیکن اب یونیورسٹی میں اس شعبے میں کلاس میں آدھی لڑکیاں ہوتی ہیں۔
مشکلات تو ہر دور میں آتی ہیں، کبھی اس قدر ہوتی ہیں کہ انسان کمزور پڑ جاتا ہے اور ہمت ہار دیتا ہے کہ ہم کچھ نہیں کرپائیں گے۔ لیکن سب سے مضبوط سہارا اللہ کا ہے۔ میں اس پر یقین رکھتی ہوں کہ اللہ ہے نا، وہ ہر مشکل سے نکالنے والا ہے، اور پھر اللہ نکال دیتا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ آپ بس محنت کرتے جائیں اللہ آپ کے لیے راستے آسان کردے گا۔ میں کبھی ناکامیوں سے دل برداشتہ نہیں ہوئی، اللہ کا شکر ہے کہ کوئی سفارش نہیں کوائی۔ محنت کی، اور اللہ نے کامیاب کردیا۔
ہماری سندھ ایگری کلچر یونیورسٹی ٹنڈو جام کے وائس چانسلر محترم پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد مری نے مجھے ہر ہر موقع پر سپورٹ کیا۔ میری کامیابی کے پیچھے حقیقت میں وہی ہیں، میں ان کی بے حد مشکور ہوں۔
جسارت میگزین: آپ کے دن کی ابتدا کیسے ہوتی ہے؟ اپنے معمولات کے بارے میں بتایئے۔
ڈاکٹر نورالنساء میمن: بچپن سے ہمارے والدین نے یہ عادت ڈالی تھی کہ جلدی سونا ہے، لہٰذا ہم بچپن میں نو، ساڑھے نو بجے سو جاتے تھے۔ اب بھی ایسا ہے کہ دس، ساڑھے دس بجے ہم سوجاتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ شوہر بھی اسی کے عادی ہیں۔ ہماری صبح چار بجے اور کبھی پانچ بجے ہوتی ہے۔ ساڑھے سات بجے مجھے یونیورسٹی کے لیے نکلنا ہوتا ہے جہاں سے واپسی عموماً پانچ بجے تک ہوتی ہے، واپس آکر ہم سوتے نہیں ہیں بلکہ معمول کے کاموں میں لگ جاتے ہیں اور جلدی کھانا کھا کر دس، ساڑھے دس بجے سو جاتے ہیں۔ رات کو سوتے ہوئے نیٹ بند کردیتے ہیں تاکہ بچے نہ جاگیں اور جلد سوجائیں۔ جلد سونا اور جلد اٹھنا ایک ایسی عادت ہے جو آپ کو ساری زندگی فائدہ اور برکت دیتی ہے۔
جسارت میگزین: بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں والدین کو آپ کیا مشورہ دیں گی؟
ڈاکٹر نورالنساء میمن: والدین بچوں کو کسی خاص شعبے کی طرف زبردستی نہ لے جائیں۔ بچوں کو دیکھیں کہ وہ کیا بننا چاہتے ہیں اور کیا ان کے شوق ہیں۔ بچہ اگر اپنے شوق والے شعبے میں جائے گا تو محنت بھی کرے گا اور تخلیقی طور پر بھی آگے بڑھے گا کہ اس کو نئی نئی چیزیں کرنے کا شوق ہوگا۔ والدین بچوں کو بہت زیادہ آرام میں نہ رکھیں۔ والدین سوچتے ہیں کہ اے سی لگا دیں، انہیں نئے نئے گیجٹ دلا دیں، سہولتیں فراہم کردیں۔ والدین یہ محبت میںکرتے ہیں لیکن پھر بچے اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو سخت کوش بنائیں، بچپن سے انہیں ساتھ ساتھ رکھیں، زندگی میں عملی طور پر تربیت دیں۔ کھیل اور تقریری مقابلوں میں حصہ دلوائیں، گھر کی ذمے داریوں میں ساتھ رکھیں، کچھ ذمے داری دیں۔ مائیں خاص طور سے پیار میں انہیں آرام پسند بنا دیتی ہیں۔ وہ اے سی والے کمروں میں موبائل کے ساتھ مصرف رہتے ہیں۔ رات رات بھر موبائل دیکھتے ہیں۔ یہ پیار نہیں دشمنی ہے۔
موبائل کا مثبت استعمال سمجھائیں۔ آج کل تو اس کے ذریعے بہت کچھ سیکھا جاتا ہے، تعلیمی لیکچر ہوتے ہیں۔ میں نے خود اپنے کام کی نیٹ کے ذریعے ہی ابتدا کی اور مدد حاصل کی۔ یوٹیوب پر بہت سے تخلیقی آرٹ سکھائے جاتے ہیں۔ والدین اس سلسلے میں بچوں کو بتائیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس موبائل کی بدولت ہماری نوجوان نسل برباد ہورہی ہے اور اپنا وقت، قابلیت اور ذہانت ضائع کر رہی ہے۔
میرا پیغام یہی ہے کہ ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال سے نوجوان فائدہ اٹھائیں اور اپنے ملک کو آگے سے آگے لے کر جائیں۔
جسارت میگزین: بہت شکریہ ڈاکٹر نورالنساء میمن۔

حصہ