ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سمندر میں کوئی پری نہیں رہتی تھی۔ سمندر میں رہنے والی مخلوق کو معلوم تھا کہ پریاں تمام جان دار چیزوں پر نہایت مہربان ہوتی ہیں۔ جب ان میں کوئی دکھ بیماری یا مصیبت ہوتی ہے تو وہ ان کا پورا پورا خیال رکھتی ہیں، اس لیے سب رنجیدہ تھے کہ ہم نے ایسی کیا خطا کی ہے، جو ہمارے ہاں پریاں آ کر نہیں رہتیں۔ چنانچہ سمندر کے سارے رہنے والوں نے پرستان میں اپنا ایلچی بھیجا اور وہاں کے بادشاہ سے درخواست کی کہ کچھ پریاں سمندر میں بھی بسنے کے لیے بھیج دی جائیں، تاکہ ہمارے آڑے وقتوں پر کام آ جائیں۔
ایلچی جب پرستان کے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کی ” جو پریاں ہمارے ہاں آ کر رہیں گی، ہم ان کے ساتھ نہایت مہربانی سے پیش آئیں گے اور انھیں خوش رکھنے میں حتی المقدور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔”
بادشاہ اپنی درباری پریوں سے مخاطب ہو کر بولا “تم نے سنا، سمندر کا ایلچی ہمارے پاس کیا درخواست لے کر آیا ہے؟ اب بتاؤ، تم وہاں جانا اور نیلے سمندر کے پانی کے نیچے رہنا پسند کرتی ہو؟”
پریوں نے کانپ کر کہا: “ہم وہاں جانے اور رہنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ ہم یہیں خوش ہیں۔” اس کے بعد بادشاہ نے جنگل کی پریوں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ سمندر میں جا کر رہنے میں تمھاری کیا مرضی ہے؟ وہ بھی سب سر ہلا کر کہنے لگیں کہ یہ ہرے بھرے جنگل، پھلوں پھولوں سے لدے ہوئے باغات، ان میں بولتی چڑیاں اور کلیلیں کرتے ہوئے جانور چھوڑ کر کہیں جانا ہمیں گوارا نہیں۔ بادشاہ نے اسی طرح باری باری تمام پریوں کی مرضی معلوم کی اور سب نے سمندر میں جانے سے کھلم کھلا انکار کر دیا۔ اب صرف پانی کی پریاں رہ گئی تھیں۔ آخر میں بادشاہ ان کی طرف مخاطب ہوا اور یہ دیکھ کر ہر ایک کو حیرت ہوئی کہ وہ بلا جھجک فوراً تیار ہو گئیں اور کہنے لگیں”ہم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کسی طرح ان ندی نالوں، تالابوں، کنوؤں اور باؤلیوں سے باہر نکلیں۔ گھر بیٹھے ہماری مراد پوری ہوئی۔ اتنے لمبے چوڑے اور گہرے سمندر کا کیا کہنا ہے۔ ہمارے اچھلنے کودنے، بھاگنے دوڑنے کے لیے اس سے زیادہ اچھی کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟ وہاں ہزاروں لاکھوں قسم کی مچھلیاں ہیں اور مچھلیوں کے علاوہ طرح طرح کے عجائبات۔ اب جہاں جہاں ہم رہتے ہیں، ان میں چند مچھلیوں اور چھوٹے چھوٹے جھینگا جیسے جانوروں کے سوا کیا رکھا ہے؟ بڑے سے بڑا دریا بھی ہمارے لیے کافی نہیں، جب کہ ندی نالوں کو ہم قید خانے سے کم نہیں سمجھتے۔ حضور! ہماری اس سے بڑھ کر کوئی تمنا نہیں کہ ہم سمندر کی پریاں بن جائیں۔ ہاں ایک بات کا خیال رہے کہ ہم پانی میں کس طرح رہ سکیں گے؟ دوسرے اپنے تمام زندگی بھر کے ساتھیوں کو اچانک چھوڑنے کے خیال سے دل دکھتا ہے۔ ہمیشہ کے لیے ہم کو انھیں خدا حافظ کہنا پڑے گا اور پھر ہم اپنے پیارے بادشاہ اور ملکہ کی صورت بھی شاید کبھی نہ دیکھ سکیں۔”
(جاری ہے)