سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کا انٹریو

366

…دوسرا اور آخری حصہ…
’’مولانا! میں گفتگو کی ابتداآپ کے عہد شباب سے کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔‘‘
یہ کہتے ہوئے میں نے مولانا کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے۔ میں گھبراسا گیا ذہن میں یہی خیال لپکا کہ ’’عہد شباب‘‘ کی ترکیب کا استعمال مولانا کے شایان شان نہ تھا۔ میں نے فوراً اپنی ہی کہی ہوئی بات چھوڑ کر اپنے سوال کو ٹھیک کیا اور پوچھا:
طاہر مسعود: بنیادی طور ہر آپ مذہبی رہنما ہیں اس لیے میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کا ذہن مذہب کی طرف کیسے راغب ہو؟؟
مولانا مودودی: جب مجھ میں کچھ شعور پیدا ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ میں مسلمان گھرانے میں پید اہوا ہوں، اس لیے مسلمان ہوں یہ بات اپنی جگہ درست نہیں اور نہ ہی یہ کسی دین کے حق و صداقت کی دلیل ہے کیونکہ اس طرح اگر میں عیسائی گھرانے میں پیدا ہوتا تو عیسائی ہوتا۔ اس وجہ سے میں نے دوسرے مذاہب کا بھی مطالعہ کیا اور اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی جب میرا پوری طرح سے اطمینان ہوگیا کہ دراصل دینِ حق اسلام ہی ہے تو میں نے پورے شعور کے ساتھ اسلام قبول کیا۔ میں مسلمان دینِ آبائی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی تحقیق کی وجہ سے ہوں اسی وجہ سے میں نے خود کو نو مسلم بھی لکھا ہے۔
طاہر مسعود: پوری دنیا میں ایک انقلابی تبدیلی آرہی ہے اور نوجوان، بوڑھی اور پرانی قیادت سے بغاوت کررہے ہیں لیکن ہمارے یہاں معاملہ مختلف ہے نوجوان اپنے بزرگوں ہی کی قیادت کو پسند کرتے ہیں۔ کیوں؟
مولانا مودودی: اصل میں دنیا میں جہاں نوجوان اس طرح بغاوت کررہے ہیں ان کی رفتار، گفتار، کردارر یہ چیز سے معلوم ہوا ہے کہ وہ اس وقت بھی بگاڑ پیدا کررہے ہیں اور بھی بگاڑ پیدا کریں گے۔ صرف یہ بات کو نوجوان ایساچاہتے ہیں، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں وہ صحیح بھی ہے، جو نوجوان بھی صحیح العقل ہوں گے وہ اس بات کو مدنظر رکھیں گے کے اجتماعی معاملات کو چلانے کے لیے صرف اچھے مقاصد ہی کافی نہیں ہوتے بلکہ تجربہ کاری کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس وجہ سے آپ دیکھیں گے کہ جو قومیں ترقی کررہی ہیں ان کے معاملات کی باگیں سن رسیدہ اور تجربہ کار لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جہاں نو عمر لوگ کسی سازش یا کسی بغاوت کے ذریعے سے اپنے ملک کے معاملات پر قابض ہوگئے ہیں۔ وہاں ان کی ناتجربہ کاری اور ناپختگی اپنے برے اثرات دکھارہی ہے۔
طاہر مسعود: مولانا ایک طبقے کا خیال ہے کہ چوں کہ ہمارا ملک پس ماندہ ہے، اس لیے ان کے نوجوانوں کو اپنی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ جبکہ سیاستدان نوجوانوں کو اپنی قوت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ آپ کے نزدیک دونوں میں کون سا نقطۂ نظر درست ہے؟
مولانا مودودی: یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ طلبہ کو اپنی تعلیم توجہ سے حاصل کرنے اور اپنی قابلیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ جن نوجوانوں کو آگے چل کر کود ملک کا انتظام سنبھالنا اور چلانا ہے وہ اس بات سے آنکھیں بند کرلیں کہ ان کے حق میں کانٹے بوئے جارہے ہیں جنہیں آخر کار انہیں ہی چننا ہوگا۔ اگر وہ دیکھ رہے ہوں کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کا نطام ہے وہ ان کے حق میں کانٹے بونے کا سامان کررہے ہیں، بڑے بے حس اور بے عقل ہوں گے اگر وہ اس طرح کے لوگوں کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش نہ کریں۔ اس معاملے میں دو چیزیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں کسی سیاسی پارٹی کو طلبہ کو اپنا آلۂ کار بنانا اور طلبہ کو ان کے ہاتھ میں آلۂ کار بننا سراسر غلط ہوگا اگر وہ پارٹی ان پارٹیوں میں سے ہو جو مستقبل کے لیے ان ہی جوانوں کے حق میں کانٹے بونے کی تیاری کررہی ہو۔ آخر نوجوان طلبہ جو اپنے علم کی تکمیل کا ایک حد تک راستے طے کرچکے ہیں اور جن میں معاملات کو سمجھنے کے لیے شعور پیدا ہوچکا ہے وہ کسی کا آلۂ کار بننے سے پہلے اس بات کو ضرور دیکھیں گے اور نہیں دیکھیں گے تو غلطی کریں گے۔
(دروازہ کھلا اور ایک نوجوان داخل ہوا، مولانا اسے دیکھ کر مسکرائے: ’’کہیے کیا حال ہیں؟‘‘ نوجوان جھک کر کچھ باتیں کرتا رہا پھر وہیں بیٹھ گیا۔ یوسف سعید نے آہستہ سے مجھ سے کہا ’’شاید یہ مولانا کے صاحبزادے ہیں‘‘)
طاہر مسعود: اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بیش تر تعلیمی اداروں میں قیادت کی باگ ڈور اسلامی ذہن رکھنے والے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے باوجود وہاں مذہبی نقطۂ نظر سے کوئی مثبت تبدیلی نہیں آتی۔ کیوں؟
مولانا مودودی: بات یہ ہے کہ لوگوں کے اخلاق کو بگاڑنے کا کام جتنے وسیع پیمانے پر ہورہا ہے۔ اس کے اثرات لامحالہ کچھ نہ کچھ تو عام نوجوانوں پر بھی پڑتے ہیں اور یہ سلسلہ ایک مدت دراز سے چل رہا ہے۔ صرف یہ بات کہ ان تعلیمی اداروں کے انتخابات میں اسلامی ذہن رکھنے والے طلبہ کو کامیابی حاصل ہوجاتی ہے بجائے خود کافی نہیں بلکہ ان کی قیادت کے سنبھالنے والوں کو بڑے پیمانے پر طلبہ کے اصلاح حال کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
طاہر مسعود: لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی ذہن رکھنے والوں کو ایسے افراد سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو اسلام سے محض عقیدتاً اور جذباتی لگائو رکھتے ہیں اور عملاً شعائر اسلام کی پابندی نہیں کرتے جبکہ حقوق العباد کے معاملات ان کے بہتر ہوتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟
مولانا مودودی: اس کی دو وجوہ ہیں یا تو یہ کہ وہ علم کے بغیر اسلام کا ساتھ دے رہے ہیں، جذباتی وابستگی ایسے لوگوں میں پائی جاتی ہے جس مسلم گھرانوں میں پید اہوئے ہیں، اس قسم کی وابستگی اسلام کے لیے اتنا عشق پیدا کرسکتی ہے کہ اس کی خاطر انسان جان دے دے لیکن اسلام کے احکامات کی پابندی کرتے ہوئے ساری زندگی گزار دینا یہ ممکن نہیں یا پھر دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایک آدمی کو شعور بھی ہے اسلام کو سمجھتا بھی ہے، لیکن اس کی سیرت میں ایسی کمزوری موجود ہے کہ ایک چیز کو فرض جاننے کے باوجود رہ اسے ادا نہیں کرسکتا۔ ایک چیز کو حرام جاننے اور ماننے کے باوجود اس کا ارتکاب کرتا ہے۔ ان دونوں میں جو صورت بھی ہو، اس میں یہ ممکن نہیں کہ آدمی حقوق العباد ادا کرنے میں پوری طرح راست باز ہوسکے۔ اس لیے کہ مضبوط سیرت و کردار کا پیدا ہونا صرف خدا اور آخرت پر یقین ہی کے نتیجے میں ممکن ہے۔ جو شخص خدا اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا وہ بعض چیزوں میں حقوق العباد ادا کرے اور بعض چیزوں میں حقوق العباد کو پامال کرے گا۔ جہاں کہیں بھی وہ محسوس کرے گا کہ حقوق العباد ادا کرنے میں اسے نقصان سے سابقہ پیش آئے گا وہاں اس کی اخلاقی قوت جواب دے جائے گی۔ ایسی حالت میں حقوق العباد وہی ادا کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو خدا کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ اگر یہاں کسی کا حق مارکر میں دنیا کی گرفت سے بچ جائوں گا تب بھی یہ عقیدہ اسے ایسا کرنے سے باز رکھے گا کہ مرنے کے بعد اسے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔
بعض لوگ اس معاملے میں بعض مغربی قوموں کی مثال پیش کرتے ہیں کہ ان کے ہاں کے معاملات میں بڑی ایمانداری پائی جاتی ہے۔ لیکن وہ نہیں سوچتے کہ اگر واقعی وہ ایسے لوگ ہیں تو وہ قومی حیثیت سے دنیا کی دوسری قوموں کے حقوق کیوں مارتے ہیں اور ستم ڈھاتے ہیں۔ فرداً فرداً جس قسم کے لوگ ایماندار ہوں مجموعی طور پر وہ ایک قوم بننے کے بعد بے ایمان کیوں ہوجاتے ہیں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کیریکٹر کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
طاہر مسعود: اسلامی جمعیت طلبہ میں بے شمار طلبہ شامل ہوتے ہیں لیکن آگے چل کر جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو ان مقاصد کے لیے کام نہیں کرتے جن کے لیے وہ اس میں شامل ہوئے تھے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
مولانا مودودی: یہ بات نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ طلبہ کی بہت بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو طالب علمی کے زمانے میں بڑے بلند مقاصد رکھتی ہے اور اچھے ارادے اپنے دل میں پرورش کرتی ہے لیکن جب ان کو تعلیم سے فارغ ہوکر اس سوال سے سابقہ پیش آتا ہے کہ انہیں عملی دنیا میں قدم رکھنا ہے اور اپنے مستقبل کو خود ہی تعمیر کرنا ہے تو اس وقت وہ اپنی اس خیالی دنیا سے نکلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس کے اندر وہ اپنے زمانۂ طالب علمی میں زندگی بسر کررہے تھے۔ اس وجہ سے یہ ممکن تو نہیں کہ وہ سارے کے سارے آگے چل کر تحریک اسلامی کے کارکن بن جائیں، ان میں سے ایک قلیل تعداد ہی ایسا کرتی ہے لیکن یہ سمجھ لینا صحیح نہیں کہ عملی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد ملازمت یا تجارت یا کسی اور کام میں جو لوگ لگے تھے، مجھے بہ کثرت ایسے لوگوں کو دیکھے کا اتفاق ہو اہے جو پہلے جمعیت طلبہ میں تھے اور بعد میں کسی شعبۂ زندگی سے وابستہ ہوگئے۔ میں نے کم ہی ایسے شخص کو پایا ہے کہ اس کے خیالات بالکل بدل گئے ہوں۔ چوں کہ ان کے ساتھ روابط رکھنے کی کوششیں نہیں کی جارہی ہیں اس لیے یہی گمان پیدا ہوگیا ہے کہ وہ سب لوگ دنیا میں کھوگئے اور اب ان کے خیالات میں ان کے سابق عقائد و افکار کی جھلک باقی نہیں رہی۔
طاہر مسعود: مولانا! نوجوانوں کا فکری مستقبل آخر کیا ہوگا؟ نوجوانوں کو کون سی اقتصادی ضمانت دی جاسکتی ہے؟ کیا آپ کے ذہن میں کوئی نقشہ موجود ہے؟
مولانا مودودی: اقتصادی ضمانت کوئی بھی ایسی حالت میں نہیں دے سکتا، جب تک اسے اقتصادی نظام پر گرفت حاصل نہ ہو بلکہ جنہیں گرفت حاصل ہے وہ بھی تمام نوجوانوں کو کوئی اقتصادی ضمانت نہیں دے سکتے۔ حقیقت میں صحیح عقیدہ وہی ہے جو کسی اقتصادی نظام کا محتاج نہ ہو اور جو اس یقین پر مبنی ہو کہ ہم جس چیز کو حق سمجھتے ہیں وہ حق ہے اور ہمیں اس کی پیروی کرنی چاہیے خواہ وہ ہمارے لیے تابناک مستقبل کی ضمانت دیتا ہو یا نہ دیتا ہو۔ جو شخص بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہو، وہ تحریک اسلامی کے لیے کام نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے یقین شرط اول ہے۔
طاہر مسعود: کیا اسلامی انقلاب صرف جمہوری راستوں سے ہی لانا چاہیے؟ جبکہ دوسری نظریاتی تحریکیں ایسی موجود ہیں جنہیں نے قوت اور ہتھیار کو بھی انقلاب لانے کا ذریعہ بنایا۔
مولانا مودودی: ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اسلامی انقلاب صرف جمہوری راستوں ہی سے آسکتا ہے بلکہ جو بات ہم یقین سے سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ کسی مصنوعی ذریعے سے اگر کوئی ایسا انقلاب برپا کردیا جائے جس کے لیے معاشرہ ذہنی و اخلاقی حیثیت سے تیار نہ ہو۔ وہ انقلاب کبھی پائے دار نہیں ہوسکتا اور معاشرے کو تیار کرنا ایک محنت طلب کام ہے۔ ایک اچھی خاصی مدت لوگوں کو اس حق کا قائل کرنے پر صرف کرنی پڑتی ہے کہ جس حق کو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جب معاشرے کو ایک حد تک تیار کرلیا جائے، اس کے بعد انقلاب برپا کرنے کے لیے ہر وہ تدبیر کی جاسکتی ہے جو جائز بھی ہو اور ان حالات میں کارگر بھی ہو جن میں ہم کام کررہے ہیں۔ اپنے وقت اور اپنے ملک کے حالات کو نظر انداز کرکے کوئی اسکیم نہیں بنائی جاسکتی۔ اور اگر بنائی جائے تو یہ ناکامی پر منتج ہوگی۔

حصہ