قیصرو کسریٰقسط(42)

304

عاصم اپنے قیدی کے گلے کا رسّا پکڑ کر چل دیا۔ اُس کا رُخ ٹیلے کی اُس نشیب کی طرف تھا جہاں یہ لوگ اپنے گھوڑے چھوڑ آئے تھے۔ تھوری دیر بعد وہ پہاڑی سے اُتر کر ان جھاڑیوں کے قریب پہنچے جہاں اُن کے گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ عاصم نے تین گھوڑوں کی لگامیں اُتار کر انہیں ایک طرف ہانک دیا۔ اس کے بعد ایک گھوڑے پر اپنے قیدی کو لادا اور دوسرے پر خود سوار ہوگیا۔ اِس طرف سے، ٹیلوں اور پہاڑیوں کی دیوار کے ساتھ ساتھ کچھ دور چلنے کے بعد، وہ نسبتاً ایک آسان راستے سے دوسری طرف جا نکلا۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ دمشق کے راستے کے قریب پہنچے تو عاصم نے اپنے قیدی کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’میں تمہیں کسی مناسب جگہ چھوڑ دوں گا۔ لیکن یہ یاد رکھو کہ تمہارے رسّے کا دوسرا سرا میری زین سے بندھا ہوا ہے۔ اگر تم نے راستے میں کسی کو اپنا مددگار سمجھ کر شور مچایا تو مجھے تمہاری زبان مستقل طور پر بند کرنے کے لیے صرف اپنے گھوڑے کو ایڑ لگانے کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر میں راستے میں کسی سے بات کروں تو تم میری تردید نہیں کرو گے۔ مجھے یقین ہے کہ اب تک ایرانیوں کے خوف سے راستے کی تمام چوکیاں خالی ہوچکی ہوں گی۔ تاہم اگر کسی نے ہماری طرف توجہ کی تو تمہاری بہتری اِسی میں ہے کہ میں کسی خطرے کا سامنا کیے بغیر اپنا سفر جاری رکھوں‘‘۔
قیدی نے سراپا التجا بن کر کہا۔ ’’جناب! میں باپ، بیٹے اور روح القدس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر آپ مجھے چھوڑ دیں تو میں سیدھا اپنے گھر جائوں گا۔ اب مجھے اپنے بیوی بچوں سے زیادہ کسی بات کی فکر نہیں۔ دمشق کی شکست کے بعد رومی یروشلم میں نہیں ٹھہریں گے۔ مجھے پر رحم کیجیے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’میں تمہیں زیادہ دور نہیں لے جائوں گا۔ لیکن میرے لیے یہ اطمینان کرنا ضروری ہے کہ تمہارے ساتھی میرا پیچھا نہیں کررہے‘‘۔
’’جناب! اب اگر اُن کی مدد کے لیے یروشلم کی پوری فوج آجائے تو بھی وہ دمشق کا رُخ نہیں کریں گے۔ وہ تو دمشق کی شکست کی خبر سنتے ہی واپس جانا چاہتے تھے۔ میں نے بڑی مشکل سے انہیں آپ کا پیچھا کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ اپنے دوسرے ساتھیوں کے متعلق جو پچھلی بستیوں میں آپ کو تلاش کررہے ہیں میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ پوری رفتار سے یروشلم کا رُخ کررہے ہوں گے۔ پھر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کے ساتھ جو عورتیں تھیں وہ کئی کوس دور جاچکی ہیں اور اب انہیں کوئی خطرہ نہیں‘‘۔
’’تمہیں کیسے معلوم ہے کہ وہ آگے جاچکی ہیں‘‘۔
’’جناب! یہ سمجھنے کے لیے کسی ذہانت کی ضرورت نہیں۔ مجھ سے صرف ایک غلطی ہوئی اور وہ یہ کہ میں نے آپ کو سرائے میں دیکھتے ہی فوراً گرفتار نہیں کیا۔ اور‘‘۔ آپ سے چند باتیں کرنے کے بعد مجھے یہ یقین ہوچکا تھا کہ آپ رومی نہیں ہیں۔ میرا خیال تھا کہ آپ شامی ہوں گے۔ یہاں خسانی قبیلے کے کئی معززین رومیوں کا لباس پسند کرتے ہیں لیکن آپ کی بعض باتوں سے میرا یہ شبہہ بھی دور ہوگیا۔
عاصم نے پوچھا۔ ’’اور اب تمہارے خیال میں میں کون ہوں؟‘‘
قیدی نے کہا۔ ’’اگر میں غلطی پر نہیں تو آپ خالص عرب ہیں۔ کم از کم آپ کی زبان سے یہی ظاہر ہوتا ہے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’اچھا، اب ہوشیار ہوجائو! میں گھوڑے کی رفتار فدا تیز کررہا ہوں‘‘۔
دوپہر کے وقت فسطینہ اور اُس کی ماں نے ایک چھوٹی سی بستی کے قریب ندی کا پل عبور کیا اور فسطینہ نے اپنا گھوڑا روکتے ہوئے کہا۔ ’’امی اب ہم بہت دور آگئے ہیں میرے خیال میں ہمیں اس ندی کے کنارے تھوڑی دیر آرام کرلینا چاہیے۔ بستی کے اندر داخل ہونا ٹھیک نہیں وہاں لوگ ہمیں پریشان کریں گے‘‘۔
ماں نے کہا۔ ’’بیٹی! میں تم سے زیادہ تھک گئی ہوں اور اب اگر کوئی خطرہ بھی ہو تو میں آگے نہیں جاسکتی‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’امی! راستے میں ہمیں کتنے آدمی ملے ہیں، لیکن کسی نے ہماری طرف دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے اور یہ بستی بھی شاید خالی معلوم ہوتی ہے‘‘۔
وہ گھوڑوں سے اُتریں اور اُن کی باگیں پکڑ کر بائیں طرف چل پڑیں۔ ندی کے بلند کنارے سرسبز درختوں میں چھپے ہوئے تھے۔ پل سے تھوڑی دور انہیں نیچے اُترنے کا راستہ دکھائی دیا۔ انہوں نے نیچے جاکر گھوڑوں کو پانی پلایا۔ پھر اپنی پیاس بجھائی اور اِس کے بعد درختوں سے گھوڑے باندھ دیے۔ فسطینہ نے اناج کا توبڑا کھول کر عاصم کے گھوڑے کے منہ پر چڑھادیا اور اپنی ماں کے پاس سبز گھاس پر بیٹھ گئی‘‘۔
بستی سے ایک چرواہا، جو اپنے مویشیوں کو پانی پلانے کے لیے لارہا تھا، انہیں کچھ فاصلے سے دیکھ کر ٹھٹکا اور اور پھر تذبذب اور پریشانی کی حالت میں آگے بڑھ کر بولا۔ ’’آپ دمشق سے تشریف لائی ہیں‘‘۔
فسطینہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن یوسیبیا نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر ٹوکتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں‘‘۔
’’آپ کے ساتھی کہاں ہیں؟‘‘۔
’’وہ پیچھے رہ گئے ہیں۔ ابھی پہنچ جائیں گے‘‘۔
چرواہے نے کہا۔ ’’ہماری بستی خالی ہورہی ہے۔ صرف چند لوگ رہ گئے ہیں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو میرے گھر میں آرام کرسکتی ہیں‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’نہیں شکریہ ہم یہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہریں گے‘‘۔
چرواہے نے کہا۔ ’’اگر آپ پسند فرمائیں تو میں آپ کے لیے گھر سے دودھ لاسکتا ہوں‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’بہت اچھا لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ تم بستی کے لوگوں کو جمع کرکے یہاں لے آئو۔ ہم بہت پریشان ہیں‘‘۔
’’آپ فکر نہ کریں میں کسی کو یہاں نہیں آنے دوں گا‘‘۔ چرواہا یہ کہہ کر پوری رفتار سے بستی کی طرف بھاگنے لگا۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’فسطینہ! اب مجھے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن میں اُس کے متعلق بہت پریشان ہوں‘‘۔
فسطینہ نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور اُس کی خوبصورت آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے۔ پھر اُس نے اچانک پُرامید سی ہو کر کہا۔ ’’امی! وہ ضرور آئے گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ضرور آئے گا۔ جب وہ ہمارے لیے گھوڑا لینے گیا تھا تو آپ اُس کی نیت پر شک کرتی رہیں‘‘۔
یوسیبیا نے مغموم لہجے میں کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ میں نے اُس پر شک کیا تھا۔ جب ہم اُس سے جُدا ہو رہے تھے تو میرے دل میں بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ میں اُس سے معافی چاہوں۔ اس سے کہوں کہ میں تمہارے احسان کا بدلہ نہیں دے سکتی‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ ایک عرب تھا‘‘۔
’’بیٹی! دنیا کا کوئی خطہ فرشتوں سے خالی نہیں ہوسکتا‘‘۔
مجھے تو اس کا نام بھی یاد نہیں رہا ممکن ہے ہم اُسے دوبارہ نہ دیکھیں، شاید وہ زخمی ہوچکا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ…؟‘‘۔
فسطینہ کی آواز بیٹھ گئی اور وہ سسکیاں لینے لگی۔ ’’امی! مجھ سے وعدہ کرو کہ ہم کسی دن وہاں جائیں گے۔ نہیں! ہم ہر سال اُن ٹیلوں کا طواف کیا کریں گے جہاں ہمارے لیے اُس نے اپنا خون گرایا ہے۔ ہم وہاں ایک گرجا تعمیر کروائیں گے۔ جب آپ نانا جان سے کہیں گی تو وہ خوشی سے اُس کی یادگار تعمیر کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ میں ابا جان کو بھی مجبور کروں گی کہ وہ اپنی ساری دولت وہاں نذر کریں‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’بیٹی حوصلے سے کام لو میرا دِل گواہی دیتا ہے کہ وہ ضرور آئے گا‘‘۔
’’امی! اگر وہ نہ آیا تو نانا جان اور ابا جان کو اِس بات کا کتنا صدمہ ہوگا کہ وہ ہمارے ایک محسن کو کوئی صلہ نہ دے سکے۔ لیکن…‘‘ فسطینہ اچانک اُٹھ کھڑی ہوئی اور پل کی طرف دیکھنے کے بعد بولی… ’’امی مجھے ڈر ہے کہ اگر وہ آیا تو سیدھا آگے نکل جائے گا۔ میں پل پر جا کر اُس کا راستہ دیکھتی ہوں‘‘۔
ماں نے برہم ہو کر کہا۔ ’’فسطینہ پاگل نہ بنو۔ بیٹھ جائو۔ تمہارا وہاں جانا ٹھیک نہیں۔ ممکن ہے کوئی ہمارا پیچھا کررہا ہو‘‘۔
’’امی! آپ فکر نہ کریں۔ میں اُن درختوں کے پاس چھپ کر راستہ دیکھوں گی‘‘۔ فسطینہ یہ کہہ کر بھاگتی ہوئی پل کے قریب جا پہنچی۔
دمشق کی سمت سے سواروں کی ایک ٹولی اور اُس کے بعد پیدل انسانوں کا ایک چھوٹا سا قافلہ گزر گیا لیکن فسطینہ کی طرف کسی نے توجہ نہ دی۔ وہ پل کے قریب ایک درخت کی آڑ میں کھڑی دوسری طرف دیکھ رہی تھی۔ اچانک اُسے ایک گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی۔ پھر سڑک کے موڑ سے ایک سوار نمودار ہوا اور اُس کی تمام حسیات سمٹ کر آنکھوں میں آگئیں۔ یہ عاصم تھا۔ اُس نے پل کے قریب پہنچ کر گھوڑا روکا اور پھر قدرے توقف کے بعد سڑک کے دائیں جانب نشیب کی طرف باگ موڑ لی۔ فسطینہ اُس کی طرف بھاگنا چاہتی تھی لیکن اُس کے پائوں لڑکھڑا رہے تھے۔ اُس نے آہستہ آہستہ چند قدم اٹھائے پھر آدھا پل عبور کرنے کے بعد وہ ایک ہرنی کی طرح بھاگ رہی تھی۔ عاصم پانی کے قریب پہنچ کر گھوڑے سے اُتر پڑا اور ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ چُلّو سے پانی کے چند گھونٹ پینے کے بعد وہ اپنے منہ پر چھینٹے مار رہا تھا کہ پیچھے کوئی آہٹ محسوس ہوئی۔ اُس نے مُڑ کر دیکھا اور اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ فسطینہ ہچکچائی رُکی اور پھر اچانک آگے بڑھ کر اُس کے قریب کھڑی ہوگئی۔ وہ مسکرا رہی تھی، اُس کا دل مسرت سے اُچھل رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی اُس کی نگاہوں کے سامنے آنسوئوں کے پردے حائل ہورہے تھے۔ ’’مجھے یقین تھا کہ آپ ضرور آئیں گے۔ میں اُن درختوں کے پیچھے چھپ کر آپ کا راستہ دیکھ رہی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ آپ ہمیں دیکھے بغیر آگے نہ گزر جائیں۔ آپ نے بہت دیر لگائی۔ آپ زخمی تو نہیں ہیں؟‘‘ فسطینہ نے یہ کہہ کر اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپالیا اور سسکیاں لینے لگی۔
عاصم نے کہا۔ ’’فسطینہ اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں۔ تمہاری والدہ کہاں ہیں؟‘‘۔
’’وہ پُل کے دوسری طرف بیٹھی ہوئی ہیں‘‘۔
’’تم رو رہی ہو، دیکھو میں زندہ ہوں، اور مجھے کوئی زخم بھی نہیں آیا‘‘۔
فسطینہ نے اپنے ہاتھ نیچے کرلیے اور پھر عاصم کی طرف دیکھ کر اچانک سوال کیا۔
’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘۔
’’میرا نام عاصم ہے‘‘۔ عاصم نے قدرے حیران ہو کر جواب دیا۔
’’آپ ان سے لڑے تھے؟‘‘۔
’’ہاں‘‘۔
’’اگر آپ نہ آتے تو ہمیں یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ ہمارے محسن کا نام کیا تھا۔ آپ ان سب کو قتل کر آئے ہیں؟‘‘
’’نہیں میں نے صرف دو آدمیوں کو قتل کیا ہے۔ دو کو باندھ کر اُس ٹیلے پر چھوڑ آیا ہوں اور ایک کو پکڑ کر ساتھ لے آیا تھا‘‘۔
’’وہ کہاں ہے؟‘‘۔
’’میں نے اُسے یہاں سے دو میل دور چھوڑ دیا ہے۔ اب اُس سے کوئی خطرہ نہ تھا۔ اب اگر میں آپ کے ساتھ نہ جائوں تو بھی آپ دمشق پہنچ سکتی ہیں‘‘۔
فسطینہ نے اچانک سنجیدہ ہو کر پوچھا۔ ’’آپ ہمارے ساتھ نہیں جانا چاہتے؟‘‘
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میرا خیال ہے کہ اب آپ کو میری ضرورت نہیں؟‘‘۔
’’آپ کا خیال غلط ہے، آئیے امی آپ کا انتظار کررہی ہیں‘‘۔ فسطینہ یہ کہہ کر مسکراتی ہوئی پل کی طرف چل پڑی اور عاصم اپنے گھوڑے کی باگ تھامے اُس کے پیچھے ہولیا۔
(جاری ہے)

حصہ