میری پیاری امی جان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ڈیڑھ سال ہوچکا ہے لیکن ان کی یادیں ہمارے دلوں میں ایسے زندہ ہیں جیسے ابھی ہم ان کے پاس جائیں گے، سلام کریں گے تو وہ ہمارے سلام کا جواب دیں گی، پھر ہم ان سے کوئی بات کریں گے ، وہ مسکرائیں گی، پھر ہمیں کوئی نصیحت کریں گی۔ ان کی نصیحتیں کچھ اس طرح کی ہوتی تھیں :
’’وہی ہوگا جو اللہ کو منظور ہوگا۔‘‘
’’تم تقدیر سے لڑ نہیں سکتے، ملے گا وہی جو تقدیر میں ہوگا۔‘‘
’’اپنے سے نیچے والے کودیکھا کرو اور شکر کیا کرو۔ اپنے سے اوپر والے کو نہیں دیکھا کرو۔‘‘
’’تدبیر کے پَر جلتے ہیں تقدیر کے آگے‘‘۔
بچپن سے جوانی تک ہم امی کی ان باتوں سے زچ ہوجایا کرتے تھے، لیکن بعد کے تجربات اور مشاہدات نے ہمیں بھی یہ سب کچھ سکھا دیا۔
بیٹیوں کے لیے مائوں کا وجود ایک سایہ دار درخت کی مانند ہوتا ہے، جن کی ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھ کر وہ سکون حاصل ہوتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں۔ سسرال سے میکے آنا بیٹیوں کے لیے ’’ٹانک‘‘ کا کام کرتا ہے بشرطیکہ ماں دین و دنیا کو سنوارنے والی ہو۔ ہماری ماں کی تربیت میں سختی کا پہلو نمایاں تھا۔ دین کے خلاف کوئی بات اور کوئی عمل برداشت نہیں کرتی تھیں۔ ہم سب بہن بھائیوں کے لیے حکم تھا کہ ’’فجر کی نماز پڑھ کر تلاوتِ قرآن کرو تو ناشتا ملے گا‘‘۔ (آج کے دور میں یہ دھمکی کارگر نہیں ہوسکتی، کیوں کہ اب باہر بہت کچھ مل جاتا ہے) پہلے تو امی کے ڈر کی وجہ سے دونوں کام کرتے تھے، لیکن بعد میں اللہ کے ڈر کی وجہ سے ہم سب بہن بھائی پنج وقتہ نماز کے پابند بن گئے۔ تلاوتِ قرآن بھی کرتے ہیں اور الحمدللہ دین کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔
میری پیاری امی نے کفایت شعاری اور سلیقے سے گھر چلایا۔ دو کمروں، ایک برآمدے اور کھلے صحن پر مشتمل سادہ سا گھر تھا جس میں سلیقے اور صفائی کا عنصر نمایاں تھا، جس کی وجہ سے گھر میں سکون کا احساس ہوتا تھا اور ہر آنے والے کا دل لگتا تھا۔ تنگ دستی میں بھی ایسے سلیقے سے گزارا کیا کہ بچوں کو اچھا پہنایا، اچھا کھلایا۔ کبھی بھی ان کے منہ سے مالی پریشانی کا ذکر نہیں سنا۔ ان کی قناعت اور سلیقہ ان کی اگلی نسلوں میں بھی موجود ہے۔
امی جان جب ہم سے رخصت ہوکر اللہ کے پاس پہنچیں اُس وقت ان کی عمر 85 سال تھی۔ 35 سال جوڑوں کے مرض میں مبتلا رہیں لیکن پورا عرصہ صبر اور شکر سے گزارا۔ اتنی بیماری کے باوجود نہ کوئی نماز قضا ہوئی، نہ تلاوتِ قرآن میں کمی آئی۔ فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کا بھی اہتمام کرتی تھیں، یہاں تک کہ تحیتہ الوضو اور تہجد کا بھی۔ مغرب کے بعد سورۃ واقعہ، سورۃ حم السجدہ، سورۃ الحدید، سورۃ الملک باقاعدگی سے پڑھتی تھیں۔ آخری چند برسوں میں ایک آنکھ کی بینائی ضائع ہوگئی تھی لیکن تلاوتِ قرآن میں کمی نہیں آئی۔ آخری تین سال میں معذوری زیادہ بڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے واش روم نہیں جا سکتی تھیں تو بیڈ پر ہی ان کو وضو کروا دیا جاتا اور ان کی تمام عبادات حسبِ سابق جاری رہتیں۔ بے شمار بچوں کوقرآنِ پاک ختم کروایا۔ عمر کے آخری حصے میں بھی قرآنِ پاک پڑھاتی رہیں۔
میری پیاری اور محترم والدہ کے لیے سب سے بڑا اعزاز جو اِن شااللہ آخرت میں ان کی بلندی کا باعث بنے گا، یہ ہے کہ ان کی نسل میں 18 حافظِ قرآن، 4 عالمِ دین، 6 عالمائیں اور 2 مفتی ہیں (ان کے دو پوتے مفتی ہیں)۔
وہ جو اچھی باتیں اور احادیث پڑھتی تھیں، ہمیں نصیحت کے طور پر سناتی تھیں۔ میکے اورسسرال میں یکساں مشہور تھیں۔ سب خاندان والے محبت اور عزت سے پیش آتے تھے۔ میری خوش دامن اور امی نند بھاوج تھیں، لیکن کسی نے ان دونوں کو ایک دوسرے کی برائی کرتے نہیں سنا۔ مثالی محبت تھی دونوں نند بھاوج میں۔
بیماری کے 35 سالہ دور میں امی کی بہوئوں، پوتے، پوتیوں نے امی کی بہترین خدمت کی۔ آخری ایام میں تو تمام اولادوں نے حسبِ استطاعت بہت خدمت کی۔ اللہ سب کو دنیا و آخرت میں بہترین اجر عطا فرمائے،آمین۔
امی کو کسی سے کوئی گلہ شکوہ نہیں تھا۔ کسی کے لیے دل میں حسد، بغض اور کینہ نہیں تھا۔ صاف دل لے کر دنیا سے رخصت ہوئیں جبھی تو چہرہ پُرنور تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا سکون و اطمینان سے سو رہی ہیں۔ غسل کے بعد اس نورانیت میں اور اضافہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ میری والدہ کو جنت کے اعلیٰ مقامات عطا فرمائے۔ ہم سب بہن بھائیوں اور ہماری اولادوں کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق، ان جیسا حوصلہ، ان کی طرح صبر شکر کی نعمت سے سرفراز فرمائے، آمین۔