مریم: آپ پر دوہری ذمہ داری ہے ماشاء اللہ پاکستان میں آپ کی فیملی ماں باپ پھر اب ہمارے بچے بھی اسکول جانے لگے ہیں ان کی پڑھائی کا خرچہ وغیرہ… میرے خیال میں (اس نے شوہر کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا) اس میں کوئی خرچ نہیں سعدیہ نے کہا ہے کہ وہ میرے بنائے ہوئے رول سموسے وغیرہ یہاں کچھ دکانوں میں رکھوا دے گی اس طرح کچھ آمدنی میں اضافہ ہو جائے گا۔
…٭…
مریم اور ساجد کو کینیڈاسے آئے چھ سات سال ہو گئے تھے پاکستان میں ساجد کے اماں ابا بھائی بہن اور بھتیجے بھتیجیاں رہتے تھے ساجد کو احساس تھا کہ اس کے والدین نے بڑے جتن کر کے ساجد کو اعلیٰ تعلیم حاصل کروائی تھی اب ساجد کا وقت تھا کہ وہ بھی اپنی فیملی کے لیے کچھ کرے لہٰذا اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ اماں کو پاکستان بھیجتا اس طرح بھائیوں نے نہ صرف چھوٹا موٹا کاروبار شروع کردیا تھا بلکہ ساجد کی تاکید کے مطابق اپنے بچوں کو تعلیم بھی دلوا رہے تھے جس کا تمام خرچہ ساجد اٹھا رہے تھے مریم بھی ایک نیک بیوی تھی جو شوہر کے اس معاملے میں ہم نوا اور مدد گار بھی تھی… انسان نیکی کی طرف قدم بڑھائے تو اللہ رب الکریم راستے کھول ہی دیتا ہے مریم اور ساجد کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا اللہ نے نہ صرف ان کی روزی میں برکت دی بلکہ چاروں بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے برسر روزگار ہو گئے ساجد نے اپنے بھتیجے اور بھانجوں کو بھی کنیڈا بلا لیا ان کے لیے تگ و دو کرکے اچھی ملازمتوں کا بھی انتظام کیا۔
چند سال پہلے مریم پاکستان آئی تو میری اس سے ملاقات ہوئی خیریت معلوم ہونے کے بعد اس نے پاکستان آنے کا اپنا مقصد بیان کیا کہ الحمدللہ ساجد اپنی تمام ذمہ داریوں سے فارغ ہو چکے ہیں دونوں بھائیوں کو مکان بھی بنوا کر دیے ہیں بہن کے بچوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوا چکے ہیں تمام بچے اب بر سر روزگار ہیں اب ہم نے سوچا ہے کہ پاکستان میں اپنے لیے بھی ایک مکان بنوا لیں اسی لیے ہم پاکستان آئے ہیں۔
میں نے بڑے تعجب سے پوچھا کہ ابھی تک آپ نے اپنے لیے کوئی مکان وغیرہ نہیں بنوایا۔
مریم نے بڑی فراغ دلی سے جواب دیا کہ الحمدللہ ان کے والدین نے (ساجد نے) ساجد کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اچھی تربیت کی جس کی وجہ سے آج ہم اس قابل ہوئے ہیں ہم اور ہمارے بچے عزت اور سکھ کی زندگی گزار رہے ہیں… لہٰذا ساجد کا بھی یہ فرض بنتا تھا کہ اپنے کنبے کو سکھ پہنچائے اللہ نے برکت دی ہمارے بچوں کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا لہٰذا اب ساجد اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہو چکے ہیں تو اپنا مکان کی طرف دھیان دیا ہے۔
…٭…
مریم اور ساجد کے چہروں کی طمانیت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس فریضے کو انجام دے کر وہ پرسکون ہیں اور تمام بہن بھائیوں اور ان کے بچوں کے دل میں ان کے لیے اتنا پیار و محبت ہے کہ کوئی بھی تقریب اس وقت تک ملتوی رکھتے ہیں جب تک وہ پاکستان آکر اس میں شرکت نہ کریں۔
…٭…
سلمیٰ: سچ بتائو نمرہ تمہیں غصہ تو آتا ہو گا کہ تمہارے شوہر اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ اپنے بہن بھائیوں پر خرچ کرتے ہیں کبھی کسی کو بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیج رہے ہیں تو کبھی کسی بھانجی بھتیجی کو مکان خریدنے میں مدد دے رہے ہیں۔
نمرہ: (بڑے تحمل اور اطمینان سے) باجی میرے شوہر نے مجھے اور میرے بچوں کو زندگی کا ہر سکھ دیا ہے اب وہ اپنے بہن بھائیوں کے لیے جو کچھ کر رہے ہیں یہ ان کا فرض اور خوشی ہے کبھی انہوں نے ایسا نہیں کیا کہ ہماری کسی ضرورت کو روک کر ان کو سکھ دیا۔ بلکہ ہمیشہ انصاف سے کام لیا ہے اس لیے نہ مجھے اور نہ میرے بچوں کو ان سے (شوہر سے) شکایت ہے۔
…٭…
یہ دو حقیقی واقعات آپ کے سامنے پیش کیے بے شک آج بھی ہمارے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کا خصوصاً اپنے ضرورت مند بھائی بہنوں کی تکلیف و ضرورت کا احساس کرتے ہیں بلکہ فراخدلی سے مدد بھی کرتے ہیں اور اس طرح خوبصورتی سے مدد کرتے ہیں کہ نہ سامنے والے پر احسان جتاتے ہیں نہ اپنی نیکی کا دوسرے لوگوں میں واویلا کرتے ہیں۔ آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں جب کہ ہر دوسرا بندہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں دوسروں کے حقوق کو روندتا گزر جاتا ہے ایسے نایاب لوگوں کی عزت و قدر کرنی چاہیے بے شک میرے اللہ کی طرف سے تو ان کے لیے اجر عظیم ہے۔ حقوق اللہ کے بعد حقوق العبادہی کی پاسداری سے معاشرتی زندگی میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے خاندانوں اور رشتوں میں استحکام و توانائی پیدا ہوتی ہے اللہ اور اس کے رسول اللہ نے حقوق العباد کو اسی لیے پسند فرمایا ہے ویسے بھی دینِ اسلام ضابطۂ حیات ہے جس نے معاشرتی نظام میں توازن اور حسن پیدا کرنے کے لیے احکامات سے نوازا ہے کہیں ہدیہ دینے کو پسند فرمایا تو کہیں صدقہ و خیرات کی افادیت سے باخبر کیا ہے تو کہیں زکوٰۃ کے اجر اور ثواب سے… (سبحان اللہ) صرف خونی رشتوں کو ہی نہیں بلکہ آس پڑوس، یتیم غریب و مسکین بیوہ اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنا افضل نیکی ہے۔
حدیث مبارکہ ہے کہ (جو حضرت جریرؓ بن عبداللہ سے روایت ہے) آپؐ نے فرمایا جو شخص بیوہ اور مسکینوں کے کاموں میں سعی کرتا ہے وہ (ثواب میں) اس شخص کی مانگ ہے جو جہاد میں سعی کرتا ہے (بخاری۔ مسلم)
بخاری مسلم کی دوسری حدیث مبارکہ ہے (جو حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے) کہ آپؐ نے فرمایا۔ ’’تم مسلمانوں کو باہمی ہمددردی باہمی محبت اور باہمی شفقت میں ایسا دیکھو گے (یعنی مسلمان ایسے ہونے چاہیے) جیسے کہ جب اس کے ایک عضو میں درد ہوتا ہے تو تمام بدن بے خوابی اور بیماری میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘
بے شک ’’انسانیت‘‘ کی نشانی ہے کہ وہ دوسرے انسان کی تکلیف کو نہ صرف محسوس کرے بلکہ اس کی مدد بھی فرمائے۔ میرا اللہ تو مہمان کی مہمانی کرنے والے کو بھی پسند فرمایا ہے۔ اس کے رزق میں برکت فرماتا ہے تنگ دست کے رزق میں اضافہ کے لیے بہن اور بیٹیوں کو کھانا کھلانے اور ’’دینے‘‘ کی تلقین فرمائی گئی ہے اور یہ میرا تجزیہ ہے کہ جس گھر میں بہن بیٹیوں کی عزت کی جاتی ہے ان کی مہمان نوازی کی جاتی ہے انہیں ہدیہ و تحفے دیے جاتے ہیں اللہ رب العزت ان کی تنگ دستی دور کرکے ان کے لیے غیب سے رزق کے دروازے کھولتا ہے (سبحان اللہ) میرے رب کو بندے کی یہ ادا پسند ہے کہ وہ اس کے دوسرے بندوں کی مدد کرے حالانکہ خدا چاہتے تو وہ قدرت رکھتا ہے کہ وہ ضرورت مندوں کی خود مدد کرے لیکن بندوں کے درمیان محبت الفت باہمی امداد کے ذریعے لینے والے اور دینے والے دونوں کو آزماتا ہے اور صبر و شکر کرنے والے اور دوسروں کی ’’ان کا حصہ‘‘ ان تک پہنچانے پر انہیں اجر سے نوازتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اللہ کے بندوں سے حسن سلوک کرنے والے اور مدد کرنے والے لوگوں کی دنیاوی تکلیفوں کو بھی دور کرتا ہے انہیں ذہنی سکون و راحت سے نوازتا ہے۔ جیساکہ میں نے تحریر کی ابتدا میں حقیقی واقعہ کے بارے میں لکھا ہے۔
لہٰذا احکامات الٰہی اور حدیث نبوی کے ارشادات کے مطابق ہم سب کو اپنی زندگی میں اپنے آس پاس رہنے والوں کے ساتھ نہ صرف حسن سلوک روا رکھنا چاہیے بلکہ ان کی حیثیت کے مطابق ہدیہ تحفے صدقات خیرات و زکوٰۃ سے انہیں نوازنا بھی چاہیے تاکہ معاشرے میں نہ صرف خوبصورت تعلقات استوار ہوں بلکہ توازن بھی پیدا ہو یہی میرے رب اور اس کے حبیب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔(سبحان اللہ)