ظہیر خان کی رہائش گاہ پر خالد عرفان کے اعزاز میں ایک شعری نشست ہوئی جس کی صدارت پروفیسر خواجہ حسن نے کی۔ خالد عرفان مہمان خصوصی تھے جب کہ صفدر علی انشاء نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ صدر مشاعرہ نے کہا کہ وہ شعبہ تعلیم کے فرد ہیں‘ میرے ہزاروں شاگرد ہیں ان میں ایک خالد عرفان بھی ہیں جنہوں نے مجھے آج شاندار مشاعرے میں شریک ہونے کا موقع فراہم کیا۔ خالد عرفان ایک قابل فخر پاکستانی شاعر ہیں جو کہ دیارِ غیر میں بھی پاکستانی ادب و ثقافت کا پرچار کر رہے ہیں ان کے یہاں پھکڑ پن نہیں ہے‘ ان کی شاعری میں ایسے مضامین شامل ہیں جو طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ سبق دے رہے ہیں کہ ہم اپنی زندگی میں اچھائیوں کو فروغ دیں۔ خالد عرفان نے کہا کہ وہ کراچی کے احسان مند ہیں کہ اس شہر نے مجھے پروموٹ کیا۔ خدا کا شکر ہے کہ کراچی میں امن وامان کی صورت حال بہتر ہے اور ہر طرف شعر و سخن کی محفلیں منعقد ہو رہی ہیں۔ ایک دن میں یہاں کئی کئی مشاعرے ہو رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی والے اردو ادب کے شیدائی ہیں۔ ظہیر خان نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ خالد عرفان سے مل کر بہت خوشی ہوئی ان کا کلام زندگی کے مختلف شعبوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے زمانے کے سردوگرم دیکھے ہیں۔ یہ معاشرے کے مسائل پر کھل کر بولتے ہیں۔ یہ ایک قادرالکلام شاعرہیں۔ اس موقع پر خالد عرفان‘ مسلم شمیم‘ اختر سعیدی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ ابن عظیم فاطمی‘ صفدر علی انشاء‘ سعید آغا‘ نورالدین‘ فخراللہ شاد‘ شاعر علی شاعر‘ احمد سعید خان‘ مہدی عباس اور مقصود شاہ نے اپنے کلام سے نوازا۔