اللہ تعالیٰ رمضان کو ہم سب کے لیے مبارک بنائے اور ہم سب کو خوب برکتیں‘ رحمتیں اور بخشس عطا فرمائے۔ رمضان المبارک کو قیمتی بنانے کے لیے اسے کیسے گزارا جائے؟ کن اعمال کی کثرت کی جائے؟ کن چیزوں سے بچا جائے؟ کا تذکرہ ضروری ہے۔
ادب‘ احتیاط اور عاجزی سے رہیں:
رمضان المبارک کے دن بھی بابرکت ہیں اور اس کی راتیں بھی پُر نور ہیں اور اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ اس لیے اس مہینے میں داخل ہوتے ہی ایمان والوں پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ادب‘ عاجزی اور احتیاط کی کیفیت۔ ایسا نہیں ہوتا کہ روزہ افطار کرتے ہی نفس کا جن بوتل سے باہر آجائے اور گناہ کی زندگی شروع ہو جائے۔
انسان کا نفسِ امارہ اور شیطان اس کو الٹی راہ پر ڈالتا ہے۔ رمضان المبارک کا اصل مقصد ہے قربانی‘ یعنی کم کھانا‘ کم پینا‘ کم سونا‘ زیادہ مال خرچ کرنا‘ اللہ کی راہ میں خوب جدوجہد کرنا۔ اب شیطان نے انسانوںکو سکھا دیا ہے کہ رمضان المبارک کا مطلب ہے خوب کھانا کہ پیٹ پھول جائے‘ خوب پینا کہ پیٹ پھٹنے لگے‘ خوب سونا کہ بستر بھی تنگ آجائے۔
کچھ کام بڑھا دیں:
رمضان المبارک میں عام دنوں سے زیادہ عبادات میں محنت کرنی چاہیے اور محنت وہ ہوتی ہے جو انسان کو تھکاتی ہے۔ رمضان المبارک کے پہلے لمحے سے لے کر آخری دن سورج غروب ہونے تک محنت کا یہ سلسلہ جاری رہے۔ چنانچہ فوراً یہ کام بڑھادینے چاہئیں:
٭نماز: یعنی فرائض و واجبات کا خوب اہتمام اور نوافل کی کثرت۔ رمضان المبارک میں تراویح بہت بڑی نعمت ہے۔ تہجد کا بھرپور اہتمام کیا جائے۔
٭ تلاوت: روزانہ کم از کم تین پارے اور زیادہ جس قدر ممکن ہو نیز قران کا فہم اور اس سے ہدایت حاصل کی جائے۔
٭صدقات: خوب سخاوت کی جائے‘ خوب مال خرچ کیا جائے بالخصوص ان مسلمانوں تک افطاراور کھانا پہنچایا جائے جو اپنے گھروں سے محروم ہجرت پر مجبور ہیں۔
٭ جہاد: رمضان المبارک جہاد کا مہینہ ہے۔ غزوۂ بدر اسی مہینے میں پیش آیا۔ اس لیے غزوۂ بدر کی ہر یاد تازہ کرنی چاہیے۔ جان کی قربانی‘ مال کی قربانی‘ جہاد کی دعوت۔
٭آخرت کی فکر: اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ یہ فکر اور عقیدہ انسان کی اصلاح کے لیے لازمی ہے۔ اس کا زیادہ سے زیادہ محاسبہ اور تذکرہ کیا جائے توفضول کام کرنے‘ مال جمع کرنے اور اس دنیا کی خاطر ذلیل ہونے کے عذاب سے نجات مل جائے گی۔
کچھ کام ترک کردیں:
٭ بدنظری: اپنی آنکھوںکی خوب خوب حفاظت کرنی چاہیے‘ ورنہ رمضان المبارک کا نور حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔
٭ لغویات: کوشش کرکے ٹی وی کو مہینہ بھر بند کر دینے کی مشق کریں اور دیگر لغو کاموں سے بچیں۔
٭ مذموم مجلسیں: جن مجالس میں بے حیائی‘ غیبت اور جھوٹ کا چلن ہو‘ ان کو ترک کر دیں۔
چند کام کم کر دیں:
٭ کھانا‘ پینا‘ سونا‘ جائز لذت حاصل کرنا گفتگو کرنا کم کردیں۔
روزانہ کا سوال روزانہ بلا ناغہ: دو رکعت نماز صلوٰۃ الحاجات پڑھ کردعا کریں ’’یا اللہ اس رمضان المبارک کو ہمارے لیے رحمت‘ مغفرت‘ جہنم سے نجات اور عافیت والا مہینہ بنا دے۔ ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جن پر تیرا فضل ہے اور جن کی بخشش ہوئی ہے اور ہمیں اُن لوگوں میں شامل ہونے سے بچا‘ جو رمضان تو پاتے ہیں مگر ان کی بخشش نہیںہوتی۔
آخری عشرے کی حفاظت:
رمضان المبارک کا آخری عشرہ بہت قیمتی ہوتا ہے‘ عید کے لیے نیا جوڑا ضروری نہیں اور نئے جوتے کے بغیر بھی عید کی خوشیاں پوری طرح سے مل جاتی ہیں۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بازاروں میں ضائع کرنا افسوس ناک ہے اس لیے جس طرح بھی ممکن ہو آخری عشرے کو ضائع ہونے سے بچایا جائے اور اس عشرے کے دن اور رات قیمتی بنائے جائیں۔ افسوس کہ عید کی خریداری کے نام پر اپنی اصل خوشیوں کو برباد کرنے کا رواج مسلمانوں میں عام ہو چکا ہے۔ ممکن ہے یہ رمضان المبارک ہمارا آخری رمضان ہو اس لیے اسے قیمتی بنا لیں اور اسے پالیں۔ یا ارحم الراحمین ہمیں توفیق عطا فرما۔
چار اعمال کی کثرت:
بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں چار کاموں کی کثرت سے ترغیب دلائی ہے۔ اس ماہ میں چار کاموں کی کثرت کرو‘ ان میں سے دو کام ایسے ہیں کہ ان کے ذریعے تم اپنے پروردگار کو راضی کرو گے اور دو کام ایسے ہیں جن سے تم بے نیاز نہیں ہو سکتے ہو۔ وہ دو کام جن سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوگی:
-1 لا الہ الا اللہ کا ورد رکھنا۔
-2 اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے رہنا۔
وہ دو چیزیں جن سے تم بے نیاز رہ سکتے ہو یہ ہیں:
-1 جنت کا سوال کرنا۔
-2 جہنم سے پناہ مانگنا۔
رمضان المبارک میں تو ہر عمل کا اجر ویسے ہی 70 گنا بڑھ جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ باقاعدہ مصلے پر بیٹھ کر ذکر کریں۔ چلتے پھرتے‘ کھانا پکاتے‘ کپڑے دھوتے‘ ہر وقت زبان پر ذکر اور درود شریف جاری رکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اسی طرح روزانہ استغفار کا معمول بنانا چاہیے۔
کوئی شخص اسی وقت حقیقی روزہ در ہوگا جب وہ اپنے پیٹ کو کھانے سے بچائے اور اپنی آنکھ کو شہوت کی نظر سے‘ کان کو غیبت کے سننے سے‘ زبان کو بے ہودہ اور ففضول گفتگو کرنے سے اور جسم کو دنیا کی تابعداری اور شریعت کی مخالفت سے محفوظ رکھے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا تھا کہ جب تو روزہ رکھے تو ضروری ہے کہ تیرا کان‘ تیری آنکھ‘ تیری زبان‘ تیرا ہاتھ اور تیرا ہرعضو روزہ رکھے۔ نیز فرمایا بہت سے روزے دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے بھوکا اور پیاسا رہنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
روایتی افطار پارٹیاں:
رمضان میں شیطان کا ایک پھندا غفلت زدہ افطار پارٹیاں ہیں۔ ان پارٹیوں میں کھانے کی حرص‘ گپ بازی اور قیمتی وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ ہائی کوئی اجتماع ہو تو اس میں شرکت کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ افطار کی دعوت بہت فضیلت والا عمل ہے۔ اس فیضیلت کو حاصل کرنے کی لیے غریبوں کے گھر‘ شہدائے کرام کے ورثا‘ دین کے خدمت گاروں اور مہاجرین کو رقم یا کھانا بھجوا دیں۔ اگر کسی کو افطار پر گھر بلائیں تو دین کی تعلیم کا اہتمام کریں۔ ایک دوسرے کے مقابلے پر دعوتیں نہ کریں‘ بلکہ اپنے وقت کو قیمتی بنائیں اور افطاری کا کھانا بھجوا دیا کریں۔جب کسی انسان کو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے تو اس انسان کو عجیب مزا آنے لگتا ہے۔ تب خطرہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی اجتماعی ذمہ داریوںسے غافل نہ ہو جائے اس لیے بھرپور عبادت اور تلاوت کے ساتھ ساتھ یہ بات یاد رہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔
ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود میدانوں میں نکل کر تلوار اٹھاتے اور جہاد فرماتے تھے اور دین کی سر بلندی کے لیے جدوجہد فرماتے تھے۔ اس عظیم اور بہترین امت کا فرد ہونے کی وجہ سے ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہیں اور ہم پرانی امتوں کے صوفیوں کی طرح صرف خلوت‘ عبادت اور تنہائی کے مزے نہیں لوٹ سکتے اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہمارا دل فلسطین‘ افغانستان‘ عراق‘ کشمیر اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے درد کو محسوس کرے۔
ہم ان مجاہدین کے لیے دعا کریں جو میدانوں میں لڑ رہے ہیں۔ ہم دشمنانِ انسانیت کی جیلوںمیں قید اسیرانِ اسلام کے لیے بلک بلک کر دعائیں مانگیں۔ ہم ان تمام اہلِ دین کے لیے دعائیں مانگیں جن پر دین کی خاطر زمین تنگ کر دی گئی ہے اور ہم اپنی دل کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے امتی کا دل بنائیں۔