اگر آپ کسی بڑی شخصیت سے عقیدت رکھتے ہوں، اس سے محبت کرتے ہوں تو آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ آپ کے اور اس کے درمیان کے فاصلے طویل سے طویل تر ہوتے جائیں کیوں کہ نزدیک سے دیکھی جانے والی تصویر میں کہیں رنگ، کہیں لکیر اور کبھی خیال کا نقص سامنے آہی جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملنےگرزیزاں تھا۔ وہ عالمِ اسلام کے ایسے عالمِ دین اور مفسر قرآن تھے، جن کی فکر کے اثرات پوری مسلم دنیا پر مرتب ہوئے تھے۔ ان کی عام فہیم، سادہ مگر دل نشیں اسلوب میں لکھی گئی کتابوں نے جدید ذہن کو شدت سے متاثر کیا تھا۔ انہوں نے عہدِ حاضر میں پردہ، سود، ضبطِ تولید، جہاد اور اس جیسے بے شمار مسائل پر احکامات دین کی حقانیت کو عقل سے ثابت کرکے یہ دکھادیا تھا کہ خدائی احکامات کی تعمیل ہی میں آج کی انسانیت کی نجات مضمر ہے۔ انہوں نے مذہب اور دین کے فرق کو واضح کیا تھا۔ انہوں نے دین اور شریعت کو ایک دوسرے سے الگ کیا تھا۔ یوں انہوں نے ایک مجدد کی طرح دین اسلام کو نیا کر دکھایا تھا وہ اولین اسلامی مفکر تھے، جو نفاذ شریعت اور اعلائے کلمتہ المحق کے لیے سیاسی اقتدار کو ضروری تصور کرتے تھے بلکہ ان کی رائے میں اسلامی ریاست کا قیام ہی مقصود دین ہے۔ انہوں نے دین کو ایک مکمل ضابطہ حیات بتلایا اور جدید مغربی دنیا جس نے ’’نظام (System)‘‘ پر اصرار کیا تھا، مولانا نے اپنی تصانیف میں اسلام کے سیاسی نظام، معاشی نظام، اخلاقی نظام کو اس طرح صراحت سے بیان کیا کہ دین کے خدوخال بہ حیثیت نظام کے واضح ہوگئے اور معترضین کا یہ اعتراض کہ اسلام جدید دنیا اور جدید مسائل کا حل اپنے دامن میں نہیں رکھتا، رفع ہوگیا۔
مولانا مودودی کے بہت سے عقیدت مندوں کی طرف مولانا سے میرے تعلق کی ابتدا بھی بیزاری و استہزا سے ہوئی تھی جب بھی دوستوں کی محفل میں ان کی ذات اور جماعت موضوع بحث بنتی، میں انہیں برا بھلا کہنے سے باز نہ آتاتھا۔ ایک دن میں یہ ’’اہم قومی فریضہ‘‘ انجام دے رہا تھا کہ میرے والد مرحوم، اللہ انہیں غریق رحمت کرے، نہایت امن پسند اور خاموش طبیعت آدمی تھے انہوں نے مجھے بڑی درد مندی سے روکا اور کہا کہ جس شخص کے بارے میں تمہاری معلومات صفر ہیں، اس کے متعلق کیا حق پہنچتا ہے کہ تمہیں کہ غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرو۔ وہ پہلا دن تھا میری زندگی کا، جب مجھے احساس ہوا کہ انسانوں کو سمجھنے، ان کے بارے میں رائے قائم کرنے اور اس کا بے ہنگم اظہار کرنے کے سلسلہ میں ہمیں محتاط اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ والد مرحوم کی تنبیہ سے یہ ہوا کہ میں نے مولانا کی کتابوں سے رجوع کیا، ان کی پہلی کتاب جو میرے ہاتھ لگی ’’دینیات‘‘ تھی۔ یہ واقعہ مئی 1971ء کا ہے، جب میں میٹرک کا طالب علم اور مرحوم مشرقی پاکستان کے شہر راج شاہی میں مقیم تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کتاب سے پہلی بار مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ بہ حیثیت دین، اسلام کیا ہے؟ اور یہ اپنے ماننے اور نہ ماننے والوں سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟ آج بھی میں اس کتاب کر اٹھاکر دیکھتا ہوں اور ان فقروں کو جنھیں دوران مطالعہ میں نے انڈر لائن (خط کشیدہ) کیا تھا تو مولانا کا ممنون احسان ہوتا ہوں جنھوں نے پہلی بار سادہ اور نہایت دل نشیں انداز میں مجھے میرے پیارے دین سے متعارف کرایا۔ اگر مولانا کا لٹریچر میں نے نہ پڑھا ہوتا تو کیا عجب کہ اپنے دین سے بے بہرہ ہوکر ماسکو یا پیکنگ کے انقلاب کو تاریخ عالم کا عظیم ترین انقلاب سمجھتا اور اس انقلاب سے واقف ہی نہ ہوپاتا جو میرے دین نے نبی آخر ﷺ کی بے پایاں رحمت و شفقت کے ذریعے انسانی قلوب اور انسانی کردار میں برپا کیا تھا۔ اس اللہ کو کبھی پہچان نہ پاتا جو سارے عالموں کا رب ہے اور جس کی محبت اور خوف ہی انسان کو اپنے محاسبے پر آمادہ کرکے اسے شرف انسانیت سے متصف کرتے ہیں۔ اس مطالعے سے یہ ہوا کہ مولانا کے علم اور ان کی اسلوب نثرنگاری کا دل فریب نقش قلب و ذہن پر جم گئے۔ پھر ان کی بابت معلوم کیا تو پتاچلا کہ مولانا مودودی ایک بڑے آدمی ہیں۔ معاف کردینے والے، پلٹ کر جواب نہ دینے والے، انسانوں کو احترام کرنے والے، بڑے ظرف کے عالی دماغ اور حوصلہ مند آدمی!۔ ان کے عالی حوصلہ ہونے کا ایک مشاہدہ جماعت کے ایک سابق ہمدرد لیق انصاری نے بیان کیا کہ 1970ء کے قومی انتخابات میں توقع کے برخلاف جماعت اسلامی کی بدترین شکست کے بعد کارکنان اور وابستگان جماعت اچھرہ میں مولانا کے مکان کے کشادہ لان میں جمع تھے اور احساس شکست سے نڈھال۔ لیق انصاری کے بیان کے مطابق جب مولانا اندر سے نکل کر باہر آئے تو نہایت نارمل تھے ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ بتارہی تھی کہ شکست نے انہیں اندر سے اور پرعزم اور توانا کردیا تھا۔
میں جامعہ کراچی میں شعبۂ صحافت کا طالب علم ہوا اور اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی اختیار کی تو جمعیت کی مجلس شوریٰ کے رکن اور میرے سینئر دوست جناب محمود فاروقی نے جمعیت کے اخبار ’’تحریک‘‘ کا مجھے ایڈیٹر بنادیا۔ اگلے ہی برس جمعیت کی یونین کے رسالے ’’الجامعہ‘‘ کی ذمہ داری بھی مجھے سونپی گئی۔ یہ بھی فاروقی صاحب کی مہربانی تھی کہ ان کی سعٔی مبارک سے اپنی زندگی کا اولین انٹرویو مولانا مودودی کا میں نے کیا۔ مولانا داڑھ کی تکلیف میں مبتلا تھے اور انہیں شاید ڈینٹسٹ کے ہاتھوں اپنے کسی دانت کو داغ مفارقت بھی دینا تھا اس لیے بہ ذریعہ خط انہوں نے ایک ہفتے بعد ملاقات کا وقت عطا کیا تھا۔
محمود فاروقی صاحب کی قیادت میں ہم تین دوست میں، اظہر نیاز اور یوسف سعید لاہور پہنچے تھے۔ مولانا عصر کی نماز کے بعد اچھرہ میں اپنے مکان کے لان میں عام آدمیوں کے ساتھ بیٹھتے تھے، دور دراز سے آنے والے ان سے مختلف مسائل پر سوال کرتے اور وہ جواب دیتے۔ ہمیں وہاں پہنچنے کے بعد ایسی ہی دو ایک نشستوں میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ مجھے ذاتی طور پر یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ اتنے بڑے اسکالر کے سامنے کتنے ناسمجھ اور واجبی علم رکھنے والے لوگ بیٹھے تھے۔ وہ انتہایہ بچکانہ نوعیت کے سوال کررہے تھے اور دو ایک تو محض مولانا کو اپنی آواز سنانے کے لیے مستقل بولے چلے جارہے تھے جب کہ مولانا اپنے مخصوص دھیمے پن اور صبر و تحمل سے ان کی باتیں سن رہے تھے اور ان کی پیشانی پر اکتاہٹ کا کوئی تاثر نہ تھا۔
میرے ایک ساتھی نے مولانا سے اسلامی آرٹ اور شاعری کے متعلق چند باتیں پوچھیں جن کا جواب مولانا نے اپنے مخصوص اور مدلل انداز میں دیا۔ ایک بات انہوں نے کہی کہ میں اپنے لکھنے کے ابتدائی دور میں اپنے مضامین کے اندر اشعار کے حاضر حوالے دیا کرتا تھا لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ جیسے جیسے دن گزرتے گئے، میرے مضامین خالص تجزیاتی نوعیت کے ہوتے گئے اب بھی اگر لکھنے کے دوران بے ساختہ کوئی شعر یاد آجائے تو درج کردیتا ہوں ورنہ باقاعدہ ارادے اور شعوری کوشش کے تحت ایسا نہیں کرتا۔
غالباً فیصل آباد سے نوجوانوں کی کوئی جماعت مولانا سے ملنے آئی تھی۔ وہ ساٹھ ستر کی تعداد میں تھے، گفتگو ختم ہونے والی تھی کہ ایک لڑکا جو، اب تک خاموش تھا، اٹھ کھڑا ہوا، کہنے لگا:
میں اپنے ایک گناہ کا آپ کے سامنے اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ اتنے عظیم آدمی ہوں گے، میں نے آپ کے خلاف اتنی شدید اور نفرت آمیز باتیں کی ہیں کہ بیان نہیں کرسکتا۔ براہ کرام آپ مجھے معاف کردیں!‘‘۔ مولانا نے جذبات سے عاری لب و لہجہ میں جواباً فرمایا: ’’آپ پریشان نہ ہوں، جو لوگ میری مخالفت کرنے اور مجھے برا بھلا کہنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرچکے ہیں، میں انہیں بھی معاف کرچکا ہوں‘‘۔
جب ہم مولانا سے ملنے کے لیے ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو میری آنکھوں نے دیواروں کے ساتھ قطار سے سجی ہوئی الماریوں میں ضخیم مجلّد کتابیں دیکھیں، ٹیوب لائیٹ کی روشنی کی سنجیدہ فضا میں مولانا اپنی دیرینہ ساتھی کرسی پر اپنے مخصوص باوقار انداز میں بیٹھے تھے، یہیں بیٹھ کر نصف صدی تک تلخ و سنگین حالات اور ذہنی دبائو کے ماحول میں انہوں نے اپنی زندگی کے تیس سال پڑھتے، لکھتے اور سوچے ہوئے گزاردیے تھے۔
انٹرویو ریکارڈنگ کے لیے ٹیپ آن کیا گیا تو مولانا نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا ’’اس کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’اصل میں ہم اس لمحے کو آواز کی صورت میں محفوظ کرنا چاہتے ہیں‘‘ میں نے وضاحتاً عرض کیا۔
ان کی اجازت پر ٹیپ آن ہوگیا اور گفتگو شروع ہوئی۔ جو بات میں نے استعجاب کے ساتھ نوٹ کی، وہ مولانا کا مرتب و منظم ذہن تھا۔ دوران گفتگو کوئی فون آجاتا تو وہ ٹیلی فون سنتے اور پھر پہ کہنے کے بجائے کہ ’’ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا‘‘ سلسلۂ کلام کو بنا کسی استفسار کے وہیں سے جوڑ دیتے تھے جہاں سے وہ منقطع ہوا تھا۔ میرا پہلا سوال مولانا کا اوائل عمر میں دینی رجحان کی بابت تھا۔ چوں کہ یہ میری صحافتی زندگی کا پہلا انٹرویو تھا، اس لیے مجھے معلوم نہ تھا کہ معاشرے میں جن شخصیات کو برگزیدہ سمجھا جاتا ہے، ان سے کچھ پوچھنے کے آداب کیا ہیں، اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے الفاظ کے چنائو میں کتنی احتیاط درکار ہوتی ہے۔ لہٰذا میں نے نہایت بے تکلفانہ انداز میں میں آغاز کیا:
…٭…
حواشی:
1 مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی 25ستمبر 1903ء کو اورنگ آباد، حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ والد سید احمد حسن نے گھر پر ہی آپ کی عربی، فارسی اور انگریزی کی ابتدائی تعلیم کا انتظام کیا۔ پھر مدرسہ فرقانیہ کی جماعت رشدیہ میں داخلہ لیا۔ پہلا مضمون 1914ء میں سیرت پاک ﷺ پر لکھا۔ 1916ء میں میٹرک کے بعد دارالعلوم حیدرآباد دکن کی جماعت ’’مولوی عالم‘‘ (انٹر میڈیٹ) میں داخلہ لیا لیکن والد کی بیماری کے سبب تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ 1918ء میں بڑے بھائی سید ابوالخیر مودودی کے ساتھ ڈیڑھ ماہ تک اخبار مدینہ بجنور میں کام کیا۔ تحریک خلافت میں حصہ لیا۔ تاج جبل پور اور اخبار مسلم دہلی کی ادارت کے بعد اخبار ’’الجمیتہ کے مدیر مقرر ہوئے۔ 1926ء میں مولانا محمد شریف اللہ خان سواتی مدرس دارالعلوم فتح پوری دہلی سے علوم عقلیہ و ادبیہ و بلاغت اور علوم اصلیہ و فرعیہ میں سند حاصل کی۔ مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی سے حدیث، فقہ اور ادب میں سند فراغت مولانا محمد علی جوہر کی ایک تقریر سے متاثر ہوکر 1930ء میں ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ جیسی معرکہ آرا کتاب لکھی۔ 1933ء میں ماہنامہ ترجمان القرآن کا اجراء کیا جو آج بھی جاری ہے۔ 1936ء میں علامہ اقبال نے فقہ اسلامی کی تدوین نو کے لیے پنجاب آنے کی دعوت دی۔ جس کے دو سال بعد جمال پور، پٹھان کوٹ (پنجاب) منتقل ہوگئے۔ 1939ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں اعزازی پروفیسر کے طور پر تقرر ہوگیا۔ 1941ء میں قرآن حکیم کی جدید اسلوب میں تفسیر لکھنے کا آغاز کیا جو بعد میں چھ جلدوں میں شائع ہوا اور آج بھی اس کا شمار اردو کی مقبول ترین تفاسیر میں ہوتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد آپ پٹھان کوٹ سے لاہور آگئے۔ 1948ء سے اسلام کے مختلف پہلوئوں پر ریڈیو سے تقاریر نشر ہوئیں۔ پہلی تقریر کا موضوع تھا: ’’اسلام کا سیاسی نظام۔‘‘ ساتھ ہی آپ نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریک بھی شروع کردی۔ چناں چہ 14اکتوبر کو گرفتار کرلیے گئے۔ بیس ماہ بعد رہائی ملی۔ 1953ء میں پنجاب میں قادیانی تحریک کے نتیجے میں لاہور میں مارشل لاء لگا تو آپ کو ’’قادیانی مسئلہ‘‘ لکھنے کے الزام میں فوجی عدالت نے سزائے موت کا حکم سنادیا۔ 1954ء میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں رہا کردیے گئے۔ صدر جنرل محمد ایوب خاں کے دور حکومت میں مولانا مودودی کو ایک بار پھر گرفتار کرکے جماعت اسلامی کو کریمنل لا ایکٹ 1908ء کے تحت خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے پابندی کے فیصلے کو کالعدم کردیا۔ مولانا بھی رہا کردیے گئے۔ 31مئی 1970ء کو آپ کی اپیل پر ملک بھر میں جوش و خروش سے یوم شوکت اسلام منایا گیا۔ 1971ء میں علالت کے باعث جماعت کی امارت سے مستعفی ہوگئے۔ 1979ء میں آپ کی علمی و دینی خدمات کے اعتراف میں حکومت سعودی عرب نے پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا۔ اسی سال 26 مئی کو علاج کے لیے اپنے بیٹے ڈاکٹر احمد فاروق کے ساتھ بفیلو (امریکا) روانہ ہوئے جہاں دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے 22 ستمبر کو خالق حقیقی سے جاملے۔ آپ کو جگر کا عارضہ بھی لاحق تھا۔ امریکا اور برطانیہ کے مختلف مقامات کے علاوہ کراچی ایئرپورٹ اسٹیڈیم میں بھی جسدخاکی پہنچنے پر نماز جنازہ ادا کی گئی۔ 26 ستمبر کو عالم اسلام کے معروف اسکالر علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں نماز جنازہ کی امامت کی اور اپنے ہی مکان ذیلدار پارک، اچھرہ میں مدفون ہوئے۔ آپ کی جملہ تصانیف کی تعداد تقریباً پچاس ہے جس میں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ (جسے پروفیسر خورشید احمد نے بہ قول ان کے چند جملوں کو حذف کرکے اور غیر متعلق حصوں کو ’’کچھ تبدیلی‘‘ کے ساتھ ’’تحریک آزادیٔ ہند اور مسلمان‘‘ (دو جلدیں) کے عنوان سے مرتب کرکے شائع کیا۔) ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ ’’پردہ‘‘ ’’سود‘‘ ’’اسلام اور ضبط ولادت‘‘ ’’اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی‘‘ ’’خلافت و ملوکیت‘‘ ’’اسلامی ریاست‘‘ ’’تجدید و احیائے دین‘‘ ’’تفہیمات‘‘ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ دینی موضوعات پر تحریر کردہ کتابچے اس کے علاوہ ہیں۔
(جاری ہے)