مجید لاہوری وطنِ عزیز کے نامور مزاح نگار، حاشیہ نویس، کالم نویس، صحافی اور ادبی رسالے نمک دان کے مدیر تھے۔ اردو کی ظریفانہ تاریخ میں مجید لاہوری کا رنگ جداگانہ اور نمایاں ہے۔ ہماری نسل میں بہت کم ہوں گے جو اپنے وقت کے بے حد مقبول پندرہ روزہ نمک دان اور مجید لاہوری سے واقف ہوں گے۔ وہ کسی حد تک ایک گمنام ادیب ہیں۔
اردو کے طنز و مزاح میں بڑے بڑے شعرا کے اشعار اور لفظوں کی پیروڈی (تحریف) کرنا بھی ایک صنف ہے اور مجید لاہوری نے یہ کام خوب جم کر اور بلا خوف کیا ہے۔ مجید لاہوری کی مزاح نگاری ان کے عہد کے سیاسی، سماجی، اخلاقی اور تہذیبی شعور اور زندگی کی تصویر ہے۔ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ وہ نظیر اکبر آبادی اور اکبر الٰہ آبادی کی مزاح نگاری کا تسلسل ہیں اور انہوں نے ان کے رنگ ظرافت کو آگے بڑھایا ہے۔ نظیر اکبر آبادی کے اثرات کے حوالے سے احمد جمال پاشا نے اپنی کتاب ’اردو کے چار مزاحیہ شاعر‘ میں لکھا ہے کہ ’نظیر اکبر آبادی کی طرح مجید لاہوری بھی عوامی شاعر ہیں اور نظیر کی طرح ان کے ہاں بھی گرمی، بازار اور نت نئے موضوعات ملتے ہیں‘۔
بقول وزیر آغا ’طنز و مزاح کے لیے زمانہ سازگار بھی وہی ہوتا ہے جب معاشرے کی منجمد فضا میں کسی انقلابی تبدیلی کے باعث بعض ایسے نئے رجحانات جنم لے لیتے ہیں جو معاشرے کی اقدار سے ہم آہنگ نہیں ہوتے۔ 1857ء کے بعد رونما ہونے والی ایسی کیفیت نے اکبر الٰہ آبادی کی طنزیہ شاعری کو جنم دیا تھا اور دوسری جنگِ عظیم اور 1947ء میں تقسیمِ ہند کے بعد ایک ایسی ہی صورتحال نے مجید لاہوری، سید محمد ضمیر جعفری، ظریف جبلپوری اور حاجی لق لق کو ایک خاص انداز میں طنزیہ اشعار کہنے پر مجبور کیا ہے‘۔
مجید لاہوری کا اصل نام عبدالمجید چوہان تھا۔ وہ 1913ء میں گجرات میں پیدا ہوئے۔ عمر کا زیادہ حصہ لاہور ہی میں گزرا اس لیے لاہوری کہلائے۔ 1938ء میں روزنامہ انقلاب لاہور سے صحافت کا آغاز کیا اور اس کے بعد کئی اخبارات اور پھر سرکاری محکمہ پبلسٹی سے وابستہ رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد آپ کراچی آگئے۔ آپ کا تعلق لیاری سے بھی رہا، ان کے اہلِ خانہ کلری احمد شاہ بخاری روڈ پر رہتے تھے۔ ’انصاف‘، ’انجام‘ اور ’خورشید‘ میں قلمی خدمات انجام دینے کے بعد روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوئے اور آخر دم تک منسلک رہے۔ آپ کا پہلا کالم روزنامہ جنگ میں 22 اکتوبر 1948ء کو ’تنگ آمد بجنگ آمد‘ کے نام سے شائع ہوا۔
جس طرح آج کورونا کی وبا نے ہم سے کتنے ہی ادیبوں اور شاعروں کو چھین لیا ہے اسی طرح کی ایک وبا ’ایشین انفلوئنزا‘ بھی آئی تھی۔ یہ کورونا جتنی مہلک تو نہ تھی لیکن کچھ کم بھی نہ تھِی اور 1957ء میں اس وبا سے 20 لاکھ اموات ہوئیں تھیں۔ اس نے پوری دنیا میں محض 2 دہائیوں میں 3 سے 5 کروڑ افراد کو متاثر کیا تھا۔ ہمارے پاس یہ اعداد و شمار تو نہیں کہ اس دور میں کتنے ادیب اور شاعر اس بیماری سے متاثر ہوئے لیکن مجید لاہوری ضرور وفات سے چند روز پہلے انفلوئنزا کاشکار ہوگئے تھے اور اسی میں محض چند دنوں کے اندر ہی زندگی کی صرف 44 بہاریں دیکھ کر اس فانی دنیا سے 26 جون 1957ء کو رخصت ہوگئے۔
کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں وائرس کا شکار بننے والے پہلے بڑے اہلِ قلم مجید لاہوری تھے۔ لیکن کمال کے آدمی تھے مہلک مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود کالم نگاری جاری رہی۔ آپ کے آخری دونوں کالموں کا عنوان بھی ’انفلوئنزا کی نذر‘ تھا۔ آخری کالموں میں سے ایک میں جس میں چند سطریں ہی تھیں لکھا کہ ’میں بھی انفلوئنزا کی لپیٹ میں آگیا ہوں اس لیے نہیں چاہتا کہ اس حالت میں کالم لکھ کر جراثیم آپ تک پہنچاؤں‘۔ جبکہ آخری کالم میں جو ان کی وفات کے دن شائع ہوا اس میں اتنا ہی لکھا تھا ’آج دوسرا دن ہے‘۔
مجید لاہوری لحیم شحیم، فربہی ڈیل ڈول کے انسان تھے اور شاعر کم اور پہلوان زیادہ نظر آتے تھے۔ آپ نے جناب شورش کاشمیری کے ساتھ بھی کام کیا۔ انہوں نے ایک مرتبہ مجید کا ادبی حلیہ جس طرح بیان کیا وہ اپنی جگہ ایک شاہ کار ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’قددو جلدوں میں۔ ضخامت کے اعتبار سے طلسم ہوشربا۔ بال کبھی مختلف الجر مصرعے ہوتے کبھی اشعار غزل کی طرح مربوط۔ آنکھیں شرابی تھیں اور گلابی بھی۔ لیکن انہیں خوبصورت نہیں کہا جاسکتا تھا۔ چہرہ کتابی تھا۔ ناک ستواں۔ ماتھا کھلا لیکن اتنا کشادہ بھی نہیں کہ ذہانت کا غماز ہو۔ مسکراتے بہت تھے معلوم ہوتا لالہ زار کھلا ہوا ہے یا پھر رم جھم بارش ہورہی ہے۔ اچکن پہن کر نکلتے تو معلوم ہوتا کہ گرد پوش چڑھا ہوا ہے۔ ورنہ سیدھے سادے اور موٹے جھوٹے کپڑوں میں اکبر منڈی لاہور کے بیوپاری معلوم ہوتے تھے۔ عمر بھر اپنی ہی ذات میں مگن رہے۔ کسی انجمن ستائش باہمی سے رابطہ پیدا کیا نہ ایسی کسی انجمن کے رکن رہے۔ وہ ان جھمیلوں سے بے نیاز تھے۔ ان کا اپنا وجود ایک انجمن تھا‘۔
شورش کاشمیری نے مجید لاہوری کے بارے میں لکھا کہ ’اچکن پہن کے نکلتے تو لگتا گردپوش چڑھا ہوا ہے۔
مجید لاہوری سے کسی نے پوچھا کہ ’مجید صاحب! آپ دنیا بھر کے لوگوں کا تمسخر اڑاتے ہیں، کبھی آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا؟‘ جواب میں فرمایا ’ہاں، ایک بار۔ ہوا یوں کہ میں دفتر سے نکلا سڑک پر آیا، ایک رکشہ والے کو ہاتھ کے اشارے سے روکا اور کہا کیماڑی لے چلو گے؟‘ رکشہ والے نے میرے تن و توش کو غور سے دیکھا، یوں جیسے وزن کررہا ہو اور پھر بولا ’لے چلوں گا مگر دو پھیروں میں‘۔
وہ عوامی آدمی تھے، عام آدمی کے لیے سوچتے اور لکھتے تھے اور بہت مقبول بھی تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے استاد مربی، ادیب اور انٹرویو نگار ڈاکٹر طاہر مسعود جب یونیورسٹی کی کلاس میں سلیبس سے ہٹ کر بات کرتے تھے تو انہوں نے ایک بار مجید لاہوری پر بھی گفتگو کی تھی۔ اسی پس منظر کے ساتھ ہم نے ان سے رابطہ کیا اور کہا کچھ ان کی ظرافت کی چاٹ پر روشنی ڈالیں تو آپ نے فرمایا ’مجید لاہوری صحیح معنوں میں اردو صحافت کے اوّلین عوامی کالم نگار تھے۔ ان کے لکھنے کا انداز و اسلوب بھی عوامی تھا اور کالموں کے لیے جو موضوعات وہ چنتے تھے وہ بھی عوامی موضوعات ہوتے تھے‘۔
ڈاکٹر طاہر مسعود نے مزید بتایا کہ ’ان سے پہلے جو کالم نگار مقبول ہوئے مثلاً عبدالمجید سالک اور چراغ حسن حسرت ان کے طنز و مزاح میں ادبیت پائی جاتی تھی لیکن مجید لاہوری ایک کھلے ڈلے قسم کے کالم نگار تھے جنہوں نے اپنے کالموں میں مستقل قسم کے کردار وضع کر رکھے تھے۔ مثلاً سیٹھ ٹائر جی ٹیوب جی وغیرہ۔ اور جو سیاسی اور معاشی مسائل ہوتے تھے ان پر انہی کرداروں کی زبان سے رواں تبصرے کیے جاتے تھے جن میں رنگارنگی کے ساتھ شوخی اور طنز و مزاح کی چاشنی بھی ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کالموں میں عوامیت کا رنگ اس طرح ابھر آتا تھا کہ کراچی کے کوچوان اور ٹیکسی ڈرائیور بھی ان کے کالم مزے لے لے کر پڑھا کرتے تھے۔ مجید لاہوری کالموں کے ساتھ ساتھ سیاسی مزاحیہ نظمیں بھی لکھتے تھے۔ وہ بھی خاصے کی چیز ہوتے تھے اور بہت مقبول تھے‘۔
آپ اپنے کالم ’حرف و حکایت‘ میں 8 جنوری 1950ء کو بہ عنوان ’ٹمپریچر‘ لکھتے ہیں کہ ’ایک محکمہ کے نچلے اسٹاف نے جو رات کے وقت باہر ڈیوٹی پر جاتا ہے جب یہ مطالبہ کیا کہ اسے گرم وردیاں دی جائیں تو ایک بڑے افسر نے کہا کہ ہمارے قواعد کی رو سے اس مقام پر جہاں ’ٹمپریچر نارمل‘ ہو گرم وردیاں سپلائی نہیں ہو سکتیں۔ اگرچہ چند دنوں سے سردی اس قدر شدید ہے کہ بغیر گرم کپڑوں کے باہر گھومنا ’نمونیا‘ کو دعوت دینا ہے۔ مگر کاغذوں میں تو ’ٹمپریچر نارمل‘ ہے۔ حقیقت چاہے کچھ ہو لیکن ’کاغذوں‘ کی بات جھوٹی نہیں ہوسکتی۔ ایک شخص کی جائیداد پر قبضہ کرنے کے لیے اس کے عزیزوں نے اسے ’کاغذوں‘ میں ’مرحوم‘ بنا دیا۔ وہ شخص عدالتوں میں پیش ہوا اور ’بقائمی ہوش و حواس‘ خود کو ’زندہ‘ ثابت کرنے لگا۔ لیکن عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد کہا۔ ہم اگرچہ دیکھ رہے ہیں کہ آپ اس وقت زندہ ہیں مگر ’کاغذوں‘ میں چونکہ آپ مرچکے ہیں، لہٰذا آپ کو زندہ تصور نہیں کیا جا سکتا‘۔
طنز و مزاح چاہے شاعری میں ہو یا نثر میں اس کے لیے غیر معمولی سنجیدگی درکار ہوتی ہے۔ آپ کی سنجیدہ تحریریں بھی مقبول رہیں۔ ان میں متانت، علم کی رونق اور صداقت و دیانت اور صاف گوئی جابجا نظر آتی ہے۔ 16 مئی 1951ء کو جنگ میں کالم لکھا جس میں انہوں نے برِصغیر کے ممتاز شاعر اور ادیب، مولانا حسرت موہانی کے انتقال پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ ایک مزاح نگار جب سنجیدہ معاملے پر اظہار خیال کرتا ہے تو اس کی تحریر کا رنگ کیا ہوتا ہے۔
’داغ حسرت‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں مجید لاہوری تحریر کرتے ہیں کہ ’اقبال نے جس شاہین اور جس مرد مومن کا تصور پیش کیا تھا، مولانا حسرت اس کی زندہ تصویر تھے۔ انہوں نے کوئی کوٹھی، کوئی مل، کوئی کار، کوئی بینک بیلنس نہیں چھوڑا۔ اقبال کے اس مرد قلندر نے ٹاٹ پر آنکھیں کھولیں اور ٹاٹ پر دم توڑا۔ آزاد منش انسانوں کے دنیا میں دو ٹھکانے ہیں یا تخت جگہ آزادی کی یا تختہ مقام آزادی کا، یہ سب سے پہلا سپاہی تختے پر جیا اور تختے پر مرا۔ اس نے تخت کو ٹھکرا دیا۔ جلال و جاہِ سلطانی نے اس کی راہ میں آنکھیں بچھائیں، وہ گزر گیا۔ سیم و زر کی چمک نے اسے روکنا چاہا، وہ آگے بڑھتا رہا۔ بہاروں نے بہت چاہا کہ وہ رنگ و بو کی وادیوں میں کھو جائے لیکن وہ خارزار میں قدم رکھ چکا تھا۔ اس راہ پر وہ بڑھا اور بڑھتا چلا گیا۔ اسے نہ اقتدار کی خواہش تھی، نہ حصول جاہ کا سودا۔ اس نے ایک مجاہد کی طرح آزادی کی جنگ لڑی اور اس دور میں جب لوگ جیل جانے کی ’قیمت‘ وصول کررہے تھے، کھدر پہننے کا ’معاوضہ‘ حاصل کررہے تھے، چرخہ چلانے کے دام کھرے کررہے تھے، اس نے اپنی خدمت کے صلے میں ایک پھوٹی کوڑی بھی وصول نہ کی‘۔
ندیم صدیقی بھارت کے شہر ممبئی کے ممتاز صحافی ہیں، شاعر کے طور پر بھی معروف ہیں۔ ان کے کالموں اور تذکروں کی ایک کتاب ’پُرسہ‘ شائع ہوچکی ہے۔ ان سے جب مجید لاہوری کے طنز و مزاح پر اظہارِ خیال کا کہا تو انہوں نے پہلے تو فرمایا کہ ’مجید لاہوری نہیں بلکہ ’لاہوری نمک‘ کہیے!‘ پھر تمہید کے ساتھ ’لاہوری نمک‘ کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے بہت خوبصورت انداز میں فرمایا کہ ’معاشرہ یوں تو بہت مہذب دکھایا یا بتایا جاتا ہے مگر کیا واقعی یہ مہذب ہے؟ اس سوال کا جواب ہمارے طنز و مزاح میں بھرا پڑا ہے۔ لیکن ہم اپنی ’پریشانی‘ کے جسم پر ’شیروانی‘ چڑھائے ملتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کا تو یہ فرمان بھی ہے کہ ’بغیر کثافت، ظرافت ممکن نہیں‘ یعنی پریشانی پر شیروانی!! اور ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے زمانے کے زخم بھی دکھلائے بلکہ انہیں آبِ نمک سے پاک کرنے کی سعی لطیف بھی کی، یہ جو ہمارے ادب میں عبدالمجید چوہان بعرفِ عام مجید لاہوری گزرے ہیں وہ تو کھلے عام ’نمک دان‘ لیے بیٹھے تھے بلکہ ان کا نمک اب تک اپنی کیفیت و صفت کے ساتھ موجود ہے۔ بس ذرا آپ ’نمک دان‘ کو کھولنے کی زحمت گوارا کرلیں:
زر دے کے انجمن کی صدارت خرید لی
پگڑی جو، دی تو شہرت و عزت خرید لی
سٹّے میں جو کمایا تھا اس کی زکوٰۃ دی
اب شاد باد ہیں کہ ’شفاعت‘ خرید لی
اْف! لفظِ شفاعت سے مجید لاہوری نے جس قدر اور جیسے کام لیا ہے اس کی داد کوئی دے۔
ہر روز ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائیں گے
راگ اپنا اور اپنی ہی ڈفلی بجائیں گے
ملّت میں انتشار اگر ہے تو کیا ہوا
تنظیم بے وقار اگر ہے تو کیا ہوا
مجید لاہوری کی بزرگی ان کے اشعار میں ایک وجود کی طرح محسوس ہوتی ہے، کسی بھی فن میں یہ وصف پیدا ہوجانا ہی منزلِ کمال کی علامت ہے۔ ان کے کئی مصرعے عام ہی نہیں بلکہ ان کی نثر کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ اساتذہ نے شاعری میں اسی وصف کو سہلِ ممتنع کہا ہے۔
مثلا چند مصرعوں کو آموختے ہی کے لیے دیکھیں۔
رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا
o
میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا؟
یہ مصرعے صرف اردو زبان ہی میں نہیں بلکہ پورے برِصغیر میں عام ہیں اور لطف کی بات تو یہ ہے کہ ان کے دوسرے مصرعوں کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی یعنی اپنی معنویت میں کامل و اکمل ہیں۔ ایسا کمالِ ظرافت رکھنے والا شخص ہمارے ادب کا امجد و مجید کیوں نہ ہو؟ اور یہ بزرگی ایسی نہیں کہ زمانے کے تغیر و تبدل اسے کوئی زک پہنچا سکے، یہ اپنے کردار میں لازوال نہ سہی مگر اپنی مثال آپ تو ہے کہ مجید کے ’نمک دان‘ کے بغیر ہماری ظرافتی شاعری کے دسترخوان کا ذائقہ چہ معنٰی؟ اور ہاں نمک کا وجود اپنی جگہ مگر اس کا استعمال کہاں اور کتنا کیا جانا چاہیے یہ بھی ایک ہُنر ہے ورنہ تو نمک کی زیادتی بھی کھانے کو کس قدر خراب کرتی ہے یہ سب جانتے ہیں۔ نمک تو ہر جگہ دستیاب ہے مگر لاہوری نمک کا جواب نہیں، مجید کے جو معنیٰ ہیں سو ہیں مگر لاہوری مجید کا ایک ہی معنیٰ ہے، وہ ہے ’لاہوری نمک‘۔ مجید صاحب نے اپنے نام کے ساتھ ’لاہوری‘ کا لاحقہ یوں ہی نہیں لگایا ہوگا۔ ہماری طنزیہ شاعری لاہور کے اس نمک کے بغیر پھیکی نہ کہی جائے تو پھر کیا کہی جائے‘۔
آپ عبد المجید سالک کے شاگرد تھے۔ بقول شورش کاشمیری ’مجید انہیں اپنا استاد مانتے تھے اور وہ انہیں کراچی میں اپنا خلیفہ کہتے اور گردانتے تھے۔ سالک ان کے بارے میں لکھتے ہیں روف پاریکھ نے آکسفورڈ پریس کے زیرِ اہتمام انتخاب، جو مجید لاہوری کے فلیپ میں شائع ہوا وہ لکھتے ہیں ’اب وہ زمانہ نہیں رہا جب ادب میں ’اشرافیہ‘ کی ذہنیت عوامی ادیبوں اور شاعروں کے نتائج فکر پر ناک بھوں چڑھایا کرتی تھی، مثلاً نظیر اکبر آبادی کے معاصرین کرام نے اسی ذہنیت کے ماتحت نظیر کی مجددانہ تحریک ادب کا گلا گھونٹ دیا۔ اب تو دیکھنا یہ ہے کہ کون سا شاعر عوام کے قلوب پر زیادہ نفوذ رکھتا ہے اور ان کے مسائل کو انہی کی زبان میں پیش کرکے احساس و شعور اور بیداری کی نعمت کو عام کرتا ہے۔ میرے نزدیک مجید لاہوری موجودہ ادب میں پہلا عوامی شاعر کہلانے کا مستحق ہے‘۔
’نمک دان‘ کے فلیپ کے مطابق ان کی طنزیہ و فکاہیہ شاعری کا مجموعہ پہلی بار ارشاد محمد خان نے کان نمک کے نام سے مرتب کیا تھا۔ شفیع عقیل مرحوم نے مجید لاہوری کی شخصیت اور فن پر بھی کتاب لکھی اور مجید لاہوری کے کالم بھی ’حرف و حکایت‘ کے نام سے مرتب کیے جو فروری 2000ء میں کتابی صورت میں شائع ہوئی۔ انہوں نے مجید لاہوری کے کلام کی شاعرانہ خوبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’مجید نے اپنے مضامین، نظم و نثر میں بیشتر جگہ مختلف زبانوں سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ اپنے مضامین اور نظموں میں دوسری زبانوں کے الفاظ اکثر اس خوبصورتی سے کھپا جاتے تھے کہ وہ اس زبان میں اپنے مروجہ معنوں سے بھی زیادہ لطف دینے لگتے تھے۔ انگریزی الفاظ تو وہ عام طور پر استعمال کرتے ہی تھے لیکن مقامی زبانوں اور مختلف طبقوں کی زبان سے انہوں نے خصوصی فائدہ حاصل کیا۔
مجید لاہوری کی طنزیہ شاعری کا مجموعہ پہل بار ارشاد محمد خان نے کان نمک کے نام سے مرتب کیا۔ شفیع عقیل نے بھی مجید لاہوری کے کالم ’حرف و حکایت‘ کے نام سے مرتب کیے۔
جیسا کہ عیاں ہے کہ مجید لاہوری کے کلام کی خصوصیت و انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں موضوعات کی رنگا رنگی کے ساتھ ظرافت کی رنگا رنگی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ آپ نے عمومی طور پر زندگی کی ناہمواریوں، سماجی برائیوں، کجیوں، تضادات مغرب اور اس کی تہذیب کو طنز و مزاح کے پیکر میں ڈال کر شاعری کا موضوع بنایا ہے جس میں آپ کا ہمدردانہ شعور اسلوب کا نمایاں وصف ہے۔ نمونہ کلام پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کی ایک مزاحیہ غزل کے یہ چند اشعار آج ہی کہ دور میں لکھے گئے ہیں۔
چیختے ہیں مفلس و نادار آٹا چاہیے
لکھ رہے ہیں ملک کے اخبار آٹا چاہیے
از کلفٹن تابہ مٹروپول حاجت ہو نہ ہو
کھارا در سے تابہ گولی مار آٹا چاہیے
مرغیاں کھا کر گزارہ آپ کا ہوجائے گا
ہم غریبوں کو تو اے سرکار، آٹا چاہیے
ہم نے پاؤڈر کا تقاضا سن کے بیگم سے کہا
کیا کرو گی غازہ رخسار، آٹا چاہیے
یہ بھی دیکھیے!
عہدہ و منصب دلا جمہوریت کے نام پر
تخت پر مجھ کو بٹھا جمہوریت کے نام پر
’آیت الکرسی‘ کا کرتا ہوں وظیفہ رات دن
بخش کرسی اے خدا جمہوریت کے نام پر
فاقہ کش لٹتے رہیں، پِٹتے رہیں، مٹتے رہیں
مجھ کو ڈکٹیٹر بنا جمہوریت کے نام پر
بھولی بھالی قوم کوئی اور مل سکتی نہیں
قوم کو الّو بنا جمہوریت کے نام پر
حفیظ جالندھری کی ایک نظم کی پیروڈی میں فرماتے ہیں:
نیو یارک جانے والے
ڈالر کے آسمان پر۔۔۔ سونے کے آستان پر
پہنچا ترا غبارہ
یو این او میں حاضری کا۔۔۔ تجھ کو ہوا اشارہ
ہماری روایت میں مجید لاہوری اردو طنز و مزاح کی تاریخ کا ایک بڑا اور معتبر نام ہے جن کی ادب کے لیے گراں قدر خدمات ہیں انہیں یاد رکھنے اور ان کے کام کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کی ضرورت ہے۔