ـ23مارچ 1940برصغیر کی ملت اسلامیہ کی تاریخ کا سنگ میل

484

مسلمانوں کی تاریخ کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کو نہیں بلکہ اسلام نے مسلمانوں کو عظمت عطا کی ہے۔ اس تاریخ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہر مشکل وقت میں اسلام نے مسلمانوں کو بچایا ہے، مسلمانوں نے اسلام کو تحفظ فراہم نہیں کیا۔ اس صورت حال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں جو توانائی‘ روشنی اور تحرّک ہے وہ انہیں اسلام کے ’’بجلی گھر‘‘ سے فراہم ہوا ہے۔ محمد بن قاسم 712ء میں سندھ آئے تھے تو یہاں مسلمانوں کی موجودگی ’’علامتی‘‘ تھی، لیکن آج برصغیر میں مسلمانوں کی آبادی پچاس سے پچپن کروڑ کے درمیان ہے۔ اسلام کا یہ فروغ تلوار کا کرشمہ نہیں۔ مسلمانوں نے تلوار استعمال کی ہوتی تو آج پورا برصغیر مسلمان ہوتا۔ اسلام کی یہ پیش رفت دلوں اور اذہان کو فتح کرنے کا حاصل ہے۔ اسلام کی عظمت اور قوت کا ایک پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک اقلیت ہونے کے باوجود ایک ہزار سال تک برصغیر پر حکومت کی۔ برصغیر کی تاریخ کا ایک بنیادی زاویہ یہ ہے کہ ہندو اکثریت کے ہندوستان میں جو مذہب آیا وہ یا تو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوگیا یا ہندو ازم میں جذب ہوگیا۔ ’’بدھ ازم‘‘ ہندوستان ہی کی چیز تھا لیکن اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے بدھ ازم کو بھارت کے مرکز میں داخل نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے بدھسٹوں کو مار مار کر ہندوستان کے مضافات میں بلکہ اس سے بھی آگے دھکیل دیا۔ چنانچہ بدھ ازم یوپی‘ بہار اور سی پی میں نہیں اُن علاقوں میں پھیلا جو آج کے پاکستان میں گندھارا تہذیب کا مرکز کہلاتے ہیں۔ بدھ ازم افغانستان میں داخل ہوا۔ مشرقِ بعید میں پھیلا، مگر بھارت کے مرکز میں وہ معمولی قوت بھی نہ بن سکا۔ حالانکہ بدھ ازم اختیار کرنے والے اشوک کی حکومت پورے ہندوستان پر تھی اور بدھ ازم بہار سے نمودار ہوا تھا۔ اسی طرح سکھ ازم بھی ہندوستان کی پیداوار ہے اور اپنے تصورات اور فکری میراث کے اعتبار سے وہ اسلام کے زیادہ قریب تھا۔ لیکن دو ڈھائی سو سال کے تجربے نے سکھ ازم کی یہ حالت کردی ہے کہ سکھ صرف اپنے گردواروں اور پگڑیوں سے سکھ معلوم ہوتے ہیں، ورنہ ان کی پوری معاشرت پر ہندو ازم کی چھاپ لگ چکی ہے۔ لیکن اسلام کی عظمت‘ قوت اور حسن وجمال ایسا ہے کہ مسلمانوں نے ہندوئوں کے سمندر میں ایک جزیرہ ہونے کے باوجود ایک ہزار سال تک اپنے مذہبی اور تہذیبی تشخص کو نہ صرف یہ کہ باقی رکھا بلکہ اسے فروغ بھی دیا۔ مسلمانوں نے اسپین کے ایک وسیع علاقے پر چھ سو سال تک حکومت کی اور ایک بڑا تہذیبی اور فکری تجربہ خلق کیا، مگر چھ سو سال کے بعد مسلمانوں کو اس طرح اسپین چھوڑنا پڑا جیسے وہ وہاں کبھی آئے ہی نہیں تھے۔ لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام سے اس طرح معنی‘ قوت‘ تحرّک اور حسن و جمال کشید کیا کہ وہ اسلام کی بنیاد پر برصغیر کی تقدیر متعین کرنے والی حقیقت بن گئے۔
اس حقیقت کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن مرحلہ برصغیر میں مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کے قیام کا مطالبہ تھا۔ اس مطالبے کی پشت پر بھی اسلام کے جلال و جمال کو پوری شدت کے ساتھ کلام کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل دلچسپ‘ معنی خیز اور بجائے خود تاریخی نوعیت کی حامل ہے۔ جس وقت برصغیر کی ملت ِاسلامیہ نے الگ ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا اُس وقت قوموں کی تعریف نسل‘ جغرافیے اور زبان کی بنیاد پر متعین ہورہی تھی۔ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ اسلام کا سہارا نہ لیتی تو وہ ایک الگ قوم ہونے کی بنیاد پر جداگانہ ریاست کا مطالبہ کر ہی نہیں سکتی تھی، اور کرتی تو ہندو کہہ دیتے کہ قوم کی تعریف کی رُو سے ہندوئوں اور مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن اسلام نے بڑھ کر مسلمانوں کی دستگیری کی اور انہیں بتایا کہ مسلمان نسل‘ جغرافیے اور زبان کی بنیاد پر نہیں کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر ایک قوم ہیں۔
اسلام نے برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کی دوسری بڑی مدد یہ کی کہ اس نے تاریخ کے سفر میں سندھ‘ پنجاب‘ سرحد اور بلوچستان کو مسلم اکثریتی علاقہ بنادیا تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو مسلمان 7 کروڑ 70لاکھ کی آبادی رکھنے کے باوجود الگ ریاست کا مطالبہ نہیں کرسکتے تھے، اور کرتے تو ان کی بات میں صرف دعویٰ ہوتا، دعوے کی کوئی منطق ان کے پاس نہ ہوتی۔ مگر اسلام نے برصغیر کے مسلمانوں کو نظریہ بھی دیا، دعویٰ بھی مہیا کیا اور دعوے کی ناقابلِ تردید دلیل بھی فراہم کی۔ مسلمانوں نے اسلام پر اصرار کیا تو تاریخی عمل بھی ان کا مددگار بن گیا۔ کانگریس کی قیادت نے قائداعظم محمد علی جناح پر مذہبی سیاست کا الزام لگایا تو قائداعظم نے گاندھی کو ان کے ایک خط کے جواب میں یاد دلایا کہ وہ جب ایک بار مسٹر مانٹیگو سے ملنے گئے تھے تو مانٹیگو نے ان سے پوچھا تھا کہ زندگی میں آپ کا مقصد کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں گاندھی جی نے کہا کہ وہی چیز جو وہ کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے جو ہم کرتے ہیں۔ مانٹیگو نے پوچھا کہ وہ چیز مذہبی ہے یا معاشرتی یا سیاسی؟ تو گاندھی نے کہا کہ ’’خالص مذہبی‘‘۔ اس جواب پر مانٹیگو چونکا اور اس نے کہا کہ مگر آپ تو ایک معاشرتی مصلح ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے گاندھی نے کہا کہ یہ میری معاشرتی سرگرمیوں ہی کی توسیع ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اُس وقت تک مذہبی زندگی بسر نہیں کرسکتا جب تک تمام بنی نوع انسان کے ساتھ شریک نہ ہوجائوں، اور یہ اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک میں سیاست میں حصہ نہ لوں۔ قائداعظم نے گاندھی کو ان کی یہ تمام باتیں یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ایک ملک ہے، ایک قوم نہیں۔ اس کے برعکس ہندوستان میں دو قومیں آباد ہیں اور ان کے درمیان فرق کی بنیاد مذہب ہے۔ اس طرح قائداعظم نے کانگریس کی قیادت کے مذہب کی بنیاد پر سیاست کے الزام کو گاندھی جی کے اپنے اقوال سے غیر مؤثر کردیا۔ تاریخی عمل کے اعتبار سے یہ بات بھی اہم ہے کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ اسلامی تشخص اور برصغیر کی ملت اسلامیہ کے مفادات کا تحفظ تھا۔ چنانچہ انہوں نے سیاسی جدوجہد کے ایک مرحلے پر متحدہ ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی مخلصانہ کوششیں کیں۔ اس کا ایک ثبوت قائداعظم کے 14 نکات تھے جنہیں کانگریس نے یکسر مسترد کردیا اور 1935ء میں ایک ایسا آئین برصغیر پر مسلط کردیا گیا جو مسلمانوں کے تمام مفادات سے متصادم تھا۔ چنانچہ مسلمانوں نے تلخ تاریخی تجربات سے بھی یہی نتیجہ نکالا کہ برصغیر میں ایک اسلامی ریاست کا قیام ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال کے 1930ء کے خطبۂ الہٰ آباد کو تاریخی اہمیت حاصل ہے،کیونکہ اس خطبے میں پہلی بار مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک کا مطالبہ کیا گیا۔ لیکن ایک علیحدہ ریاست کے حوالے سے 23 مارچ 1940ء برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کی تاریخ کا سنگِ میل ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ 23مارچ 1940ء کو لاہور میں قراردادِ مقاصد منظور ہوئی، اور اس قرارداد کی منظوری سے پہلے ایک الگ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ برصغیر کے مسلمانوں کا محض ایک خواب تھا، قراردادِ مقاصد نے اس خواب کو حقیقت بنانے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ قراردادِ مقاصد سے پہلے الگ ریاست کا مطالبہ ایک سیاسی قیاس آرائی تھا، قراردادِ مقاصد کی منظوری نے سیاسی قیاس آرائی کو عملی تحریک میں ڈھال دیا۔ قراردادِ مقاصد میں اگرچہ لفظ پاکستان موجود نہیں تھا مگر ہندو پریس اور کانگریس کی قیادت نے اس قرارداد کو ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کا نام دیا۔ چنانچہ قراردادِ مقاصد حقیقی معنوں میں قراردادِ پاکستان بن گئی اور پاکستان کا لفظ مسلم برصغیرکے بچے بچے کی زبان پر آگیا۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ پاکستان کا لفظ پہلے سے موجود نہ تھا۔ پاکستان کا لفظ پہلے سے موجو دتھا مگر اسے عوامی مقبولیت قراردادِ مقاصد کی منظوری کے بعد حاصل ہوئی۔ 23 مارچ 1940ء کا اجتماع اگرچہ برصغیر کی پوری ملت ِاسلامیہ کا نمائندہ تھا، مگر اس اجتماع میں برصغیر کے مسلم اقلیتی علاقوں کے مسلمانوں کا کردار زیادہ تھا، اور ا س سے اِس حقیقت کی عکاسی ہورہی تھی کہ پاکستان حقیقی معنوں میں ایک نظریاتی ریاست ہوگا۔ایسا نہ ہوتا تو مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان قراردادِ مقاصد اور اس کے نتیجے میں برپاہونے والی تحریکِ پاکستان میں پیش پیش نہ ہوتے، کیونکہ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کے علاقے پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے اور انہیں پاکستان کے قیام سے کوئی معاشی یا مالی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ مگر انہیں معلوم تھا کہ پاکستان برصغیر میں اسلام کا قلعہ اور اس کی عظیم تجربہ گاہ ہوگا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 23مارچ 1940ء کے اجتماع سے جو خطاب کیا اس کے دو مرکزی نکتے تھے۔ ایک یہ کہ دو قومی نظریہ ہندوستان کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور مسلمان ہر اعتبار سے جداگانہ تشخیص کے حامل ہیں۔ ان کی تقریر کا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ اب پاکستان کی صورت میںایک واضح نصب العین مسلمانوں کے سامنے آگیا ہے، چنانچہ انہیں چاہیے کہ وہ متحد ہوکر اس نصب العین کو حقیقت بنانے کے لیے جدوجہد کریں۔ انہوں نے اس سلسلے میں جو زبان اور لب و لہجہ استعمال کیا وہ کوئی عالم دین ہی اختیار کرسکتا تھا ۔ انہوں نے کہا:
’’اسلام کے خادم بن کر آگے بڑھو اور اقتصادی‘ معاشرتی ‘ تعلیمی اور سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کی تنظیم کرو۔ مجھے یقین ہے کہ تم وہ طاقت بنو گے جسے ہر شخص تسلیم کرے گا۔‘‘
قراردادِ مقاصد اور قائداعظم کی تقریر نے ہندو پریس اور ہندو قیادت کے سینو ں میں آگ بھڑکادی۔ اس سلسلے میں ہندو رہنما سا ور کرنے یہ تک کہہ دیا کہ مسلمانوں کی ہندوستان میں وہی حیثیت ہے جو جرمنی میں یہودیوں کی تھی، چنانچہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہونا چاہیے جو یہودیوں کے ساتھ ہوا۔ لیکن ’’قراردادِ مقاصد‘‘ نے مسلمانوں کی جدوجہد کو جوقوت عطا کی تھی ایسی باتوں سے وہ قوت بڑھتی ہی چلی گئی اور برصغیر کے مسلمانوں نے صرف سات سال کی قلیل مدت میں پاکستان کے نام سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔قوموں کی زندگی میں سات سال کی مدت ایک مسکراہٹ کے برابر ہوتی ہے، لیکن اسلام کی قوت نے سات سال کو 70 سال سے بڑھا دیا۔ اسلام کی طاقت نے بھیڑ کو قوم میں تبدیل کردیا۔ اسلام کے سائے نے محمد علی جناح کو قائداعظم میں ڈھال دیا۔ اسلام کے جلال و جمال نے جغرافیے کو پاکستان بنادیا۔ اسلام کی یہ قوت 23 مارچ 1940ء میں بھی ہمارے پاس تھی اور 23مارچ 2013ء میں بھی ہمارے ساتھ ہے۔ چنانچہ معجزے کل بھی ممکن تھے اور آج بھی ممکن ہیں۔

حصہ