اب تو بے موسم ہی سورج بادشاہ کو غصہ آجایا کرتا تھا۔ شاید کھربوں سال کی لمبی عمر نے اسے نسیان میں مبتلا کررکھا تھا، یا افراد کی بے دید و بے لحاظ باطل پرستی نے اسے غصیلا کردیا تھا کہ مارچ کے اوائل ہی میں آگ اُگلنے کو تیار تھا۔ تپتی ہوئی دوپہر میں گلاس وال سے باہر اور اندر کے منظر کا تفاوت اپنے ہونے اور نہ ہونے کے بیچ کا فاصلہ طے کررہا تھا۔ ٹھنڈے ٹھار پُرتعیش کمرے کے اندر بیش قیمت فرنیچر،کٹلری،کراکری کو استعمال کرتے ہوئے نفیس ڈیزائنر ویئر ملبوسات میں ملبوس امپورٹڈ کاسمیٹکس اور پرفیومز کی مسحور کن مہک سے مہکے ہوئے وجود ’’عورت‘‘ کی ’’زبوں حالی‘‘ پر نوحہ کناں تھے۔
شمسی آنٹی نے فریش اورنج جوس کا گلاس رکھ کر اپنے نیچرل شیڈ سے آراستہ گلابی لبوں کے کناروں کو نزاکت سے ٹشو کے ساتھ تھپتھپایا اور دل سوزی کے ساتھ گویا ہوئیں: ’’اپنے ملک میں عورتوں پر مظالم کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف ہم سب کو مل کر کام کرنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ حقوقِ نسواں بل پر عمل درآمد کرایا جائے۔‘‘
بین الاقوامی فرنچائز کے کریمی پزا کے ٹکڑے کو اسٹرابیری شیک کے ذریعے حلق سے نیچے اتارتے ہوئے آنٹی مزاری نے بھی حصہ لیا:
’’بالکل، یہ لاتوں کے بھوت ہیں، باتوں سے نہیں مانیں گے۔ ہمیں ہر صورت ان مردوں کی غلامی سے عورتوں کو آزاد کرانا ہوگا، وگرنہ انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کا امیج اور زیادہ ڈاؤن ہوجائے گا۔‘‘
کیمرے کے فلیش بار بار بیان دینے والی خواتین پر پڑتے رہے، رپورٹنگ بہترین ہوگئی تھی، اور کیوں نہ ہوتی! سارے رپورٹرز کے لیے ایک شان دار ’’ہائی ٹی‘‘ جو موجود تھی، جو جذبات کو مستقل لذتِ کام و دہن کے ذریعے مہمیز دے رہی تھی۔ ایک جیسی بوگس اور بودی مرصع و مصنع گفتگو کے ہلکے پن کو بھاری بھاری برانڈڈ بیکرز اور ریسٹورنٹس کے لذیذ ذائقوں نے سہارا دے دیا تھا۔ گلاس وال کے اندر کمرے میں پاکستان وومن امپاورمنٹ کی کریم فگر اشرافیہ کی ایک بہترین میٹنگ برخواست ہوچکی تھی۔
گلاس وال سے باہر زندگی قطرہ قطرہ پگھل کر جان دینے کو تیار بیٹھی تھی۔ عفت ماسی اس بھری دوپہر میں اپنے تین سالہ بیٹے کو بڑے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لیے لان میں مالی کے حصے کا کام کرکے ’’اوورٹائم‘‘ کررہی تھی۔ صبح اس نے اپنی مالکن مسز لغاری سے اضافی رقم مانگی تھی۔ انکار پر ایڈوانس کی درخواست کی، وہ بھی منظور نہ ہوئی۔
’’آج مالی چھٹی پر ہے، لان کا برا حال ہے، تم لوگ تو بیٹھ کر کھانے کے عادی ہوچکے ہو، ذرا ہاتھ ہلا کر گھر کے کام نمٹا کر لان کا کام ہی کردو تو اضافی رقم مانگتے ہوئے بھی اچھی لگو۔ یوں مفت میں بیٹھ کر کھانے کی عادت ہی پڑ گئی ہے تم لوگوں کو تو۔‘‘
سو تب سے گھر کے اندر کے کام نمٹاکر ایک کنال پر پھیلے اس لان کی ’’دیکھ بھال‘‘ کرتے ہوئے عفت ماسی سورج کی بے رحم تپش کو پامردی سے جھیل رہی تھی۔ اس کے سر کا سائیں و سائبان اس کا شوہر گل خان جو رکشا چلاتا تھا، وہ آج اسی رکشا پر اپنے بیٹے کو بڑے ڈاکٹر کے پاس چیک کرانے لے کر گیا ہوا تھا۔ اسے یقین تھا کہ عفت ماسی کی مالکن ’’حقوقِ نسواں‘‘ کی علَم بردار ہے، وہ یقینا عفت ماسی کی، اس مشکل وقت میں عورت ہونے کے ناتے مدد کرے گی۔ مگر وہاں جاکر بڑے ڈاکٹر صاحب کی صورت بڑی ڈاکٹرنی موجود تھیں جو گل خان کو دیکھ کر پہچان گئیں۔ دورانِ تعلیم بچپن میں گل خان کے ابا اُن کے رکشا ڈرائیور تھے۔ دس سال تک اسکول سے لانے، لے جانے کا فریضہ انجام دینے والے کے بیٹے سے بھی وہ اچھی طرح واقف تھیں۔ ایسے میں اس کے بیٹے کی فیس لیتیں، یہ کیسے ممکن تھا؟ انہوں نے نہ صرف فیس لینے سے انکار کردیا بلکہ دواؤں کے پیسے بھی پاس سے دے کر آئندہ رابطے میں رہنے کی تاکید کے ساتھ رخصت کیا۔
گل خان خوشی خوشی بیٹے کو لے کر سیدھا اپنی بیوی کے پاس بنگلے آگیا، جہاں اس نے گیٹ کے باہر کھڑے ہوکر چوکیدار سے عفت کی بابت پوچھنا چاہا، مگر سامنے ہی لان کے کنارے پر بے جان سی حالت میں عفت ماسی نظر آگئی۔ وہ چوکیدار کو متوجہ کرتے ہوئے اسے اٹھانے چلا آیا۔ چوکیدار بھی اس کے پیچھے ہی تھا۔ پسینے میں شرابور ادھ موئی سی عفت ماسی کے منہ پر وہیں لان کے پائپ سے لے کر پانی کے چھینٹے مارے۔ گرمی کی شدت سے وہ بے ہوش تھی ، اسے لو لگی تھی شاید۔
اسے ہوش میں آتے دیکھ کر گل خان نے پوچھا ’’ہم، تم تو گرمی میں ہی کام کرتے ہیں، کبھی گرمی نے ہمیں کچھ نہ کہا، آج کیا ہوگیا کہ اتنی سی گرمی نے تمہیں یوں نڈھال کردیا؟‘‘
عفت ماسی کی آنکھوں میں وحشت ناک حد تک خاموشی تھی، اس نے اپنی بند مٹھی گل خان کے سامنے کھولی ’’بیگم صیب نے بس یہ دیے ہیں۔‘‘اس نے سو روپے کا مڑا ہوا نوٹ دکھایا۔
’’انہوں نے کہا لان کا اوورٹائم اتنا ہی بنتا ہے۔ گل خان! تین گھنٹے کا اوورٹائم ہے یہ، اس سے تو بڑے ڈاکٹر کی فیس نہیں پوری ہوگی۔‘‘ عفت ماسی بیٹے کی بیماری کی وجہ سے بے جان سی ہورہی تھی۔
’’وہ تو سارا چیک اَپ، دوا سب کچھ ہوگیا، تم فکر نہ کرو۔‘‘ گل خان نے اسے پانی پلاتے ہوئے تسلی دی۔ پھر وہیں لان میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر ساری تفصیل اس کے گوش گزار کی تو عفت کے مُردہ پڑتے چہرے پر زندگی کی رمق جاگ اٹھی۔
’’سن گل خان!وہ بڑی ڈاکٹر صاحبہ کیا عورتوں کے حقوق کی محافظ نہیں تھی جو اُس نے ایک مرد کے بیٹے کا مفت علاج کیا! ہماری مالکن تو کہتی ہے کہ ان مردوں کا تو کبھی کوئی کام نہیں کرنا چاہیے، یہ ہمارے حقوق پر ڈاکا ڈالے بیٹھے ہیں۔ اور گل خان! اگر وہ ڈاکٹرنی بھی ایسے ہی کہتی تو پھر ہم کہاں جاتے؟ یہ مالکن تو نہ عورتوں پر رحم کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی مردوں پر رحم کرتی ہے۔ یہ نہ مردوں کو انسان سمجھتی ہیں اور نہ عورتوں کو۔ یہ مردوں کے لیے تو بے رحم ہیں ہی، ان کو عورتوں کی بھی کوئی پروا نہیں، تو پھر یہ کس کی وفادار ہیں، یہ کس کے حق کے لیے لڑ رہی ہیں؟‘‘
عفت ماسی ہذیانی کیفیت میں بولتی چلی گئی۔ خوشی تھی یا خوشی سے زیادہ غم تھا یا دونوں کا سلسلہ مدغم تھا، یہ سمجھ میںنہیں آ رہا تھا، مگر گل خان اسے سہارا دیے ہوئے باہر کی طرف چلنے لگا۔
’’یہ تو پتا نہیں مجھے بھی، مگر وہ بڑی ڈاکٹرنی کہہ رہی تھیں کہ سارے انسان انسانیت کے رشتے سے جڑے ہیں اور انسانوں میں بہترین انسان وہ ہے جس سے کام پڑنے کے علاوہ بھی ملو تو وہ اپنے رب کی خاطر ہر انسان سے اچھا سلوک کرتا ہے، اور پھر وہ انسان اگر مسلمان بھی ہو تو اس کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، مجھے تو ان کی بات سے یہی سمجھ میں آیا کہ مرد، عورت، حق، فرض کچھ نہیں ہوتا۔ بندہ اگر انسان ہے نا، اور مسلمان بھی ہے تو اُسے اپنے رب سے حیا آنی چاہیے، پھر نہ وہ فرض میں ڈنڈی مارے گا، نہ کسی کا حق مارے گا، بلکہ احسان کرے گا جو میرے رب کو پسند ہے، جو اس ڈاکٹرنی نے ہم پر کیا۔‘‘
گل خان کا فلسفہ عفت ماسی سمجھی یا نہیں مگر اپنی مالکن کی سمجھ اسے آگئی تھی، اور اسے سمجھنے کے بعد اب اس سے یہاں رکا نہیں جا رہا تھا۔
’’چلو گل خان! گھر لے چلو، اب میں کسی ’’انسان‘‘ کے گھر کام ڈھونڈنے نکلوں گی۔‘‘