آج تو مزا ہی آگیا، اپنے پسندیدہ بوتیک سے زبردست سوٹ خریدے۔ مہنگا پرس خریدا، میچنگ کی سینڈل اور جیولری لی۔ بچوں کے بھی دو دو، تین تین سوٹ اٹھا لیے، ساتھ ہی ساتھ ننھی نبیلہ کا ڈول ہاؤس اور فہد کی ریموٹ کنٹرول گاڑی بھی آگئی۔ بچے بے حد خوش اور مطمئن تھے۔ واپسی میں باہر کھانا بھی کھایا اور گھومتے گھماتے گھر آگئے۔ خاندان میں شادی ہو تو اتنی تیاری تو کرنی ہی پڑتی ہے۔
دیورانی، جیٹھانی کی آنکھوں میں رشک کے جذبات لانا بھی ایک فن ہے، اور تابندہ یہ فن خوب جانتی تھی۔ خالد نے جیب تنگ ہونے کے باوجود آفس سے بونس ملتے ہی پہلی فرصت میں بیوی بچوں کی خریداری کروا دی۔
اگلا دن سوٹ کے ڈیزائن سوچتے اور سہیلیوں سے فون پر لمبی لمبی باتیں کرتے گزر گیا۔ شام تک تابندہ شہر کے مہنگے ترین درزی کو اپنے سوٹ سلنے بھی دے آئی۔ رات جب خالد آفس سے گھر آیا تو آفس کے کام اور مسائل کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی طور پر بے حد تھکا ہوا تھا۔ سوچتا ہوا آیا تھا کہ فوراً کھانا کھا کر سو جائے گا۔ اگلے دن آفس میں میٹنگ بھی تھی اور پراجیکٹ کی فائل بھی جمع کروانی تھی، پَر گھر آتے ہی بد مزگی ہوگئی۔
کھانا تیار نہ تھا، روٹی بھی باہر سے لانا پڑی، نہ چاہتے ہوئے بھی تابندہ سے بحث ہوگئی ’’تم سمجھتے کیا ہو خود کو! بیوی بس غلام ہی بنی رہے، گھر آئیں تو بس آگے پیچھے پھرتی رہے! دن بھر بچے سنبھالے، گھر کے کام کرے! عورت کی اپنی کوئی زندگی ہی نہیں۔‘‘
گھنٹہ بھر ہنگامے کے بعد جھگڑے کا مشاہدہ کرتے بچوں کے کام جیسے تیسے نمٹا کر جب وہ فارغ ہوئی تو انتہائی دُکھی تھی، خالد سو چکا تھا۔
تابندہ نے اپنی دیرینہ سہیلی حرا کو فون ملایا اور شوہر کے ظلم و ستم کی داستان سنا ڈالی۔ حرا نے جوش میں آکر فیس بک پر پوسٹ ڈالی: ’’اپنا کھانا خود گرم کرو‘‘۔ اور جواب میں حمایتی خواتین کی لائن لگ گئی اور تابندہ کی کچھ داد رسی ہوئی۔
صبح خالد کے جانے کے بعد تابندہ نے ناشتا کیا۔ اتنے میں ماسی آچکی تھی۔ اس کے حوالے کام کیے تو اماں کی یاد آگئی۔ خیال آیا کہ اُن سے تو اس ظلم کا تذکرہ کرنا ہی بھول گئی۔
اماں نے بیٹی کی آواز سنی اور دو تین دن کی مصروفیات جانیں، پھر کہا تو صرف اتنا کہ ’’تابندہ! جانتی ہو ناشکری عورتیں کہیں کی نہیں رہتیں۔‘‘