اشہد اور ارشد دو بھائی تھے ، دونوں کى عمروں میں ذيادہ فرق نہ تھا ۔اشہد تاريخى ڈراموں کا شوقين تھا اسى لئے اس نے اپنے پاپا سے ضد کرکے ایک نقلی تلوار بھی منگوائی ہوئى تھی ۔ جسے وہ اکثر بھرپور انداز میں چلانے کى کوشش کرتا۔۔ جبکہ ارشد ڈراموں سے ذيادہ تاريخى کتابوں میں دلچسپى رکھتا ۔ اسے مسلمانوں کی تاریخ کے بارے میں پڑھنا اسے اچھا لگتا ۔
ایک دن اشہد نے ارشد سے کہا کہ آج میں اور تم تلوار بازی کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ ارشد نے پہلے تو انکار کر دیا ۔ مگر اشہد کے مسلسل اصرار پر اسے مقابلے کے لیے تیار ہونا ہی پڑا۔ مگر اب مسئلہ یہ تھا کہ اس کے پاس نقلی تلوار نہیں تھی ۔ چار و ناچار اپنی جیب میں رکھی مسواک سے ہی لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ارشد کے ہاتھ میں مسواک دیکھ کر اشہد کی ہنسی چھوٹ گئی ۔
اس نے ارشد کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ یہ مسواک کبھی کوئی جنگ نہیں جتواسکتی – تلوار کا مسواک سے کیا مقابلہ ؟ ارشد نے اپنے بھائى کے گلے میں بانہيں ڈال کر اسے اپنے پاس بٹھایا اور تاريخى واقعہ سنانے لگا۔
’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مسلمانوں کی کسی غیر مسلم لشکر سے جنگ ہورہی تھی اور کئى دن کی محاذ آرائی کے باوجود جیت کا فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا ۔ غیر مسلم لشکر کے کچھ جاسوس رات کے وقت مسلمانوں کے لشکر میں گھس گئے تاکہ جنگی تیاریوں کا مشاہدہ کرسکیں – صبح ہوئى تو انہوں نے دیکھا کہ سارے مسلمان لکڑیوں (مسواک ) سے اپنے دانت رگڑ رہے ہیں – پورے مسلم لشکر کو زور و شور سے یہ کام کرتے دیکھ کر وہ جاسوس اپنے لشکریوں کے پاس بھاگے اور انہیں بتایا کہ مسلمان لشکر لکڑیوں سے دانت رگڑ رگڑ کر تیز کررہے ہیں – آج تو وہ یقیناً ہمیں کچا چبا جائیں گے ‘‘۔
یہ سن کر غیر مسلم لشکر کا سپہ سالار بہت گھبرایا ۔ اس کی پوری فوج کى ہمت پست ہونے لگى اور وہ اپنا پڑاؤ اٹھا کر الٹے قدموں واپس بھاگ گئے – یوں مسواک کی سنت کی وجہ سے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی ۔
یہ واقعہ سن کر اشہد لاجواب ہوگیا ۔ اس نے اپنے بھائی سے عہد کيا کہ باجماعت نماز کى ادائيگى کے بعد وہ بھی مسواک خريدے گا اور پابندی سے اس سنت پر عمل کرے گا۔ ارشد نے بھی کہا کہ وہ بھى تلوار خريدے گا تاکہ مل کر تلوار بازی سیکھ سکيں اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنتوں پر عمل بھی ہوسکے ۔
مسواک کے ساتھ ساتھ میدان جنگ کے لیے عملی تیاری بھی تو ہمارے نبی ص کی سنت ہے نا ۔