دریائے کرشنا کے کنارے ایک چھوٹی سی ریاست تھی ۔ اس کا راجا اپنی رعایا کا بہت خیال رکھتا تھا۔ راجا کو گھوڑے پالنے کا بڑا شوق تھا ۔ وہ اچھی قسم کے گھوڑے بڑی بڑی رقم دے کر خریدتا تھا اورپھر اپنے اصطبل میں بڑے چاؤ سے رکھتا ۔
ایک دن کچھ لوگ اس کے پاس ایک سفید رنگ کا نہایت خو ب صورت اور صحت مند گھوڑا لے کر آئے ۔ راجا کو وہ گھوڑا بہت پسند آیا ۔اس نے اس کے دام پوچھے تو انھوں نے اس کی قیمت ایک لاکھ روپے بتائی ۔ راجا نے فوراً یہ رقم ادا کرنے کا حکم دیا۔ پرانے زمانے میں ایک لاکھ روپے بہت بڑی رقم ہوتی تھی ۔ گھوڑے کو اصطبل میں باند ھ دیا گیا اور اس کے سامنے قسم قسم کی تازہ گھاس اور عمدہ چارہ رکھ دیا گیا ، لیکن گھوڑے نے کسی کو منہ نہ لگایا ۔ اسی 2۔3 دن گزر گئے ۔راجا کو بھی فکر ہو گئی ۔ وہ صبح و شام اسے دیکھنے آتا تھا ۔ سالوتری یعنی جانوروں کے ڈاکٹر نے بھی جتن کر ڈالے ، مگر گھوڑے نے تنکا بھی منہ میں نہیں پکڑا ۔
اس اصطبل میں ایک کوا صبح و شام پابندی سے آکر اپنا پیٹ بھر جاتا تھا ۔ ایک دن اس نے اس گھوڑے سے گھاس دانا نہ کھانے کی وجہ پوچھی تو گھوڑے نے بتایا کہ اسے دریا پار کے جنگل سے پکڑا گیا ہے ۔جنگل میں اس کے اندھے ماں باپ رہتے ہیں ۔ ہی ان کا سہارا تھا ۔ان کی فکر اور یاد نے اسکی بھوک اڑادی ہے ۔ کوے کو یہ سن کر بڑا دکھ ہوا اور وہ اسکی مدد کا وعدہ کر کے اڑ گیا ۔
کو جس در خت پر رہتا تھا اسی پر ایک بندر بھی بسیرا کرتا تھا ۔بندر سے کوے نے سارا قصہ بیان کیا تو اس نے اگلی صبح اس کے ساتھ چل کر گھوڑے کی رسیاں کھولنے کا وعدہ کیا ۔ اگلی صبح دونوں اصطبل پہنچ گئے ۔ بند ر نے گھوڑے سے ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ وہ رات آکر اس کی رسیاں اور دروازے کھول دے گا ۔اس طرح اسے بھاگ نکلنے کا موقع مل جائے گا۔ گھوڑے نےکہا کہ وہ اس طر ح نہیں بھاگے گا ، کیوں کہ راجا نے اس کے دام ادا کیئے ہیں۔ جب تک ایک لاکھ روپے کا بندو بست نہ ہو وہ یہاں سے ہلے گا بھی نہیں۔ وہ راجا کو دھوکا نہیں دے گا۔
گھوڑے کی بات سن کر بندر حیران رہ گیا اور اس کے دل میں گھوڑے کی عزت کا جذبہ پیدا ہوا ۔ اس نے گھوڑے سے وعدہ کر لیا کہ وہ ایک لاکھ روپے لے آئے گا ۔یہ کہہ کر بندر فوراًغائب ہو گیا۔ بندر وہاں سے نکل کر راجا کے محل میں پہنچا اورایک چھت پر بیٹھ گیا ۔ اتنے میں رانی اپنے کمرے سے نکلی ، وہ نہانے جا رہی تھی ۔ اسنے اپنا سب قیمتی اور خوب صورت ہار نکال کر ایک میز کی دراز میں رکھ دیا اور حمام میں چلی گئی ۔
بندر نے کچھ سوچ کر وہ ہار چپکے سے اٹھا لیا اوراپنے گلے میں پہن لیا اور پھرچھت پر آبیٹھا ۔رانی نہاکر نکلی اور ہا رکو غائب پا کر سخت پریشان ہو گئی ۔ سارا محل چھان مارا گیا، لیکن ہار نہ ملا ۔ رانی کو وہ ہار بہت پسند تھا ۔ اس نے رونا دھونا شروع کر دیا ۔بات راجا تک پہنچ گئی ۔ رانی کو سمجھانے کی کو شش کی ، لیکن وہ نہ مانی ۔آخر راجا نے اعلان کروا دیا جو ہار لادے گا اسے ایک لاکھ روپے انعام دیا جائے گا۔
بندر نےجب یہ اعلان سنا تو کو د کر صحن میں آگیا ۔ ہار اس کے گلے میں تھا ۔ راجا کے سپاہیوں نے اسے تیر سے مارنا چاہا تو وہ بھا گ گیا،۔راجا بھی یہ تما شا دیکھ رہا تھا ۔ اس سپاہیوں کو منع کرتے ہوئے ایک لاکھ روپے کی تھیلی منگوائی اور چھت پر رکھوا دی ، بندر چھپ کر یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا۔ وہ تھیلی کے قریب پہنچا ،تھیلی اٹھائی اور ہار کو وہاں رکھ کر غائب ہو گیا ۔
اگلی صبح گھوڑا اصطبل سے غائب تھا ۔ اس کی جگہ ایک لاکھ روپے کی تھیلی رکھی ہوئی تھی ۔گھوڑے کے ساتھ بندر اور کوا بھی ہو لیا۔ تینوں نے مل جل کر رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔تینوں دوست گھوڑے کے گھر پہنچے ۔گھوڑے کےماں باپ کا براحال تھا ۔پھر سب ان کی خدمت میں لگ گئے اور ہنسی خو شی مل جل کر رہنے لگے۔