قیصرو کسریٰ قسط(39)

280

طلوع آفتاب کے ایک ساعت بعد ایک سنگلاخ زمین پر عاصم اور اُس کے ساتھی سفر کررہے تھے۔ اُن کے بائیں ہاتھ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اور ٹیلوں کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ عاصم کا سخت جان گھوڑا بھوک اور تھکاوٹ کے باوجود گردن اُٹھا کر چل رہا تھا اور فسطینہ کا گھوڑا بھی اُس کا ساتھ دینے کی کوشش کررہا تھا، لیکن یوسیبیا چند قدم پیچھے تھی اور اُس کے گھوڑے کی رفتار ہر آن سست ہوتی جارہی تھی۔ عاصم نے ایک پہاڑی کے دامن میں پہنچ کر اپنے ساتھیوں کو رُکنے کا اشارہ کیا اور گھوڑے سے اُتر کر بھاگتا ہوا پہاڑی پر چڑھ گیا۔ چوٹی پر سے تھوڑی دیر دوسری طرف جھانکنے کے بعد وہ مڑا اور اپنے گھوڑے پر دوبارہ سوار ہوکر بولا ’’ہم راستے سے زیادہ دور نہیں، تھوڑی دیر اور چلنے کے بعد ہم ایک بستی میں پہنچ جائیں گے‘‘۔
یوسیبیا نے کہا ’’میرا گھوڑا جواب دے چکا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم تھوڑی دیر یہاں رُک جائیں‘‘۔
’’نہیں‘‘۔ عاصم نے جواب دیا۔ ’’یہاں رُک کر ہم گھوڑوں کی بھوک کا علاج نہیں کرسکتے‘‘۔
وہ کچھ دیر خاموشی سے چلتے رہے۔ بالآخر یوسیبیا نے پوچھا ’’ابھی ہم بستی کے قریب نہیں آئے؟‘‘
عاصم نے جواب دیا ’’ہم بستی سے آگے نکل چکے ہیں، لیکن آپ کو چند قدم اور چلنا پڑے گا‘‘۔
یوسیبیا نے پوچھا ’’آپ نے بستی میں رُکنے کا ارادہ بدل دیا ہے؟‘‘
عاصم نے جواب دیا ’’نہیں! ارادہ تو نہیں بدلا ہے، لیکن آپ کے لیے بستی سے دُور رہنا ہی بہتر ہوگا۔ میں پہلے اکیلا وہاں جائوں گا‘‘۔
فسطینہ بولی ’’لیکن آپ تو کہتے ہیں کہ ہم بستی سے آگے نکل آئے ہیں؟‘‘
’’اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں، میں بستی والوں کو یہ تاثر دینا چاہتا ہوں کہ میں یروشلم سے نہیں بلکہ دمشق سے آرہا ہوں، تاکہ اگر وہاں ہماری تلاش ہورہی ہو تو مجھ پرکوئی شبہ نہ کرے۔‘‘
تھوڑی دور چل کر عاصم اپنے گھوڑے سے اُترا اور اُسے ایک جھاڑی سے باندھنے کے بعد بولا ’’اب آپ اپنے گھوڑے یہاں باندھ دیں اور اطمینان سے بیٹھ جائیں۔ میں بہت جلد واپس آنے کی کوشش کروں گا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو تنہا چھوڑ کر جارہا ہوں، لیکن آپ کو ساتھ لے جانا زیادہ خطرناک ہے۔ اگر میں کسی وجہ سے نہ آئوں تو آپ کچھ دیر میرا انتظار کرنے کے بعد کسی اگلی بستی میں پہنچنے کی کوشش کریں۔ اگر میں زندہ ہوا تو وہاں پہنچ جائوں گا۔ میں اپنا گھوڑا یہاں اس لیے چھوڑے جارہا ہوں کہ آپ کا گھوڑا جواب دے چکا ہے۔ اگر دوسرا گھوڑا بھی ہمت ہار دے تو آپ دونوں اس پر سوار ہوسکتی ہیں۔ اِس نے عرب کی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ آپ کو دھوکا نہیں دے گا۔ میری خرجین سے آپ کو کچھ بچا ہوا کھانا بھی مل جائے گا اور مشکیزے میں تھوڑا سا پانی بھی ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ میری واپسی تک آئندہ سفر کے لیے تیار ہوجائیں۔ اگر بستی سے تازہ دم گھوڑے مل گئے تو ہم دوپہر سے پہلے آرام نہیں کریں گے‘‘۔
یوسیبیا اور اُس کی ماں گھوڑوں سے اُتر پڑیں اور عاصم بھاگتا ہوا ٹیلے کی طرف بڑھا، پھر اچانک اُس کے دل میں کوئی خیال آیا اور اُس نے مُڑ کر اپنی کمان اور ترکش یوسیبیا کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا ’’آپ نے کہا تھا کہ آپ بچپن میں تیر اندازی سیکھا کرتی تھیں۔ میں احتیاطاً اپنی کمان اور ترکش آپ کے پاس چھوڑے جارہا ہوں، ہم عرب اگر چاروں طرف سے مایوس ہوجائیں تو ہماری آخری خواہش یہ ہوتی ہے کہ مرنے سے پہلے کم از کم اپنے ایک دشمن کو اپنے ساتھ لیتے جائیں‘‘۔
یوسیبیا کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن عاصم بھاگتا ہوا ٹیلے پر چڑھا اور اُن کی نگاہوں سے روپوش ہوگیا۔
O
سڑک کے کنارے ایک قدیم سرائے کے کھلے احاطے میں تقریباً سو مرد، عورتیں اور بچے جمع تھے جن میں سے چند ایک طرف چٹائی پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور باقی سرائے کے مالک سے جھگڑ رہے تھے۔ ایک طرف ایک چھپر کے نیچے سات گھوڑے بندھے ہوئے تھے اور دوسری طرف چند اونٹ بیٹھے جگالی کررہے تھے۔ عاصم سڑک سے اُتر کر احاطے میں داخل ہوا۔ لوگ اُسے ایک رومی سمجھ کر اُس کے گرد جمع ہوگئے اور ایک مسافر نے شکایت کی ’’جناب ہمارے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں اور سرائے کا مالک ہمیں کھانا نہیں دیتا۔ یہ یہودی ہے، آپ اسے سمجھائیے!‘‘
سرائے کا مالک اپنی بھاری توند ہلاتا ہوا آگے بڑھ کر چلاّیا ’’حضور! میں یہودی نہیں، عیسائی ہوں، میں انہیں سمجھا رہا ہوں کہ آج دو قافلے یہاں سے گزرے ہیں اور وہ باسی ٹکڑے تک ہڑپ کرگئے ہیں۔ اگر یہ تھوڑی دیر صبر کریں تو میں انہیں سوکھی روٹیاں دے سکتا ہوں، لیکن یہ میری بات نہیں سنتے‘‘۔
عاصم نے شور مچانے والوں کی طرف متوجہ ہوکر کہا ’’تم تھوڑی دیر صبر کیوں نہیں کرتے؟ تم چاہتے ہو کہ یہ شخص اپنا کاروبار بند کرکے بھاگ جائے؟‘‘
لوگ جو عاصم کے الفاظ سے زیادہ اُس کے رومی لباس سے مرعوب تھے، اِدھر اُدھر ہٹ گئے۔
سرائے کے مالک نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا ’’جناب! ایرانی جاسوسوں کا کوئی پتا چلا؟‘‘
’’کون سے ایرانی جاسوس؟‘‘ عاصم نے اپنی بدحواسی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔
سرائے کے مالک نے غور سے عاصم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’معاف کیجیے میں سمجھا تھا کہ آپ اُن لوگوں کے ساتھی ہیں جو صبح سے ہماری بستی کے ایک ایک گھر کی تلاشی لے رہے ہیں‘‘۔
عاصم نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے پوچھا ’’یہ تلاشی لینے والے کون ہیں؟‘‘ سرائے کے مالک نے جواب دیا ’’جناب وہ یروشلم سے آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ دو عورتیں جو وہاں ایرانیوں کی جاسوسی کررہی تھیں فرار ہوکر اِس طرف آئی ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی رومی افسر اُن کے ساتھ سفر کررہا ہے‘‘۔
عاصم نے پوچھا ’’میں حیران ہوں کہ اِس بستی کے لوگوں نے ایران کے جاسوسوں کو پناہ دینے کی جرأت کیسے کی؟‘‘
’’جناب! بستی کے لوگ روم کے غدار نہیں ہوسکتے لیکن انہیں ہماری باتوں پر یقین نہیں آتا۔ وہ پہلے میری سرائے میں آئے تھے اور سرائے کی تلاشی لینے کے بعد لوگوں کے گھروں میں گھس گئے ہیں‘‘۔
’’وہ کتنے آدمی ہیں؟‘‘
’’پانچ ہیں جناب! اور انہوں نے یہ دھمکی دی ہے کہ اگر یہاں سے وہ جاسوس عورتیں برآمد نہ ہوئیں تو بستی کو آگ لگادی جائے گی۔ آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘
’’میں دمشق سے آرہا ہوں اور کسی تاخیر کے بغیر یروشلم پہنچنا چاہتا ہوں، میرے گھوڑے نے یہاں سے کچھ دور دم توڑ دیا ہے اور میں پیدل یہاں پہنچا ہوں… اب مجھے ایک تازہ دم گھوڑے کی ضرورت ہے‘‘۔
’’جناب! میرے پاس صرف دو گھوڑے تھے اور وہ یروشلم کے سپاہیوں نے اپنے لیے رُکوا لیے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں تازہ دم گھوڑوں کی ضرورت ہے۔ اگر آپ اُن کے افسر کو رضامند کرلیں تو مجھے آپ کو اپنا بہترین گھوڑا دینے میں کوئی تکلف نہ ہوگا۔ وہ دیکھیے میرا ابلق گھوڑا کتنا خوبصورت ہے۔‘‘
عاصم نے جواب دیا ’’اگر وہ ایرانی جاسوسوں کا پیچھا کررہے ہیں تو مجھے اُن کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ تم میرے لیے اگر ایک اونٹ کا بندوبست کردو تو میں اسے بھی غنیمت سمجھوں گا۔ میں یروشلم کے حاکم کے پاس ایک نہایت ضروری پیغام لے کر جارہا ہوں، اگر آگے کسی بستی سے مجھے گھوڑا مل گیا تو میں تمہارا اونٹ وہاں چھوڑ دوں گا۔ اس خدمت کے لیے تمہیں معقول انعام دیا جائے گا‘‘۔
سرائے کے مالک نے کہا ’’جناب یہ اونٹ ان مسافروں کے تھے اور یروشلم کے سپاہیوں نے یہ بھی چھین لیے ہیں۔ آپ کو اُن سے بات کرنی چاہیے۔ وہ تھوڑی دیر میں آجائیں گے۔ اور اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں آپ سے دمشق کے متعلق کچھ پوچھوں، کیا یہ درست ہے کہ دمشق پر ایرانیوں نے حملہ کردیا ہے؟‘‘
ایک بوڑھے نے آگے بڑھ کر کہا ’’ہاں، جناب! خدا کے لیے ہمیں سچ سچ بتائیے، کیا رومی فوج دمشق کی حفاظت کرسکے گی؟‘‘
’’دمشق کی حفاظت بہرقیمت ہوگی۔ تمہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے، ایرانی لشکر کو دمشق سے کوسوں دور رکھنے کی کوشش کی جائے گی‘‘۔
ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر کہا ’’جناب! دمشق پر حملہ ہوچکا ہے، میں وہیں سے آرہا ہوں۔ آپ ہمیں کب تک جھوٹی تسلیاں دیں گے؟‘‘
پریشان لوگ اب عاصم کے گرد جمع ہورہے تھے اور وہ کہہ رہا تھا ’’تم کو یہ معلوم نہیں کہ لوگوں میں سراسیمگی پھیلانا کتنا بڑا جرم ہے‘‘۔
ایک اور آدمی نے آگے بڑھ کر کہا ’’جناب! ہمیں معلوم ہے، لیکن لوگوں سے صحیح حالات چھپانے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ غلط افواہوں پر بھی یقین کرلیتے ہیں۔‘‘
عاصم وہاں سے کھسکنے کا ارادہ کررہا تھا کہ پانچ مسلح سپاہی وہاں آپہنچے اور عاصم اپنے دل میں ناخوشگوار دھڑکنیں محسوس کرنے لگا۔ لیکن خوش قسمتی سے یہ پانچوں شامی تھے۔ اُن میں سے ایک نے جو اپنے لباس سے کوئی افسر معلوم ہوتا تھا، عاصم کو دیکھتے ہی آگے بڑھ کر سلام کیا اور پوچھا ’’آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘
’’میں دمشق سے آرہا ہوں‘‘۔
’’یہاں کب پہنچے تھے؟‘‘
’’ابھی پہنچا ہوں‘‘۔
’’آپ نے راستے میں ایک رومی افسر اور دو عورتیں دیکھی ہیں؟‘‘
’’رات کے وقت میں نے اِس طرف آنے والے کئی قافلے دیکھے ہیں۔ لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جن عورتوں اور رومی افسر کے متعلق آپ پوچھ رہے ہیں وہ اُن کے ساتھ تھے یا نہیں‘‘۔
’’میں جن لوگوں کے متعلق پوچھ رہا ہوں وہ یروشلم سے دمشق کی طرف جارہے ہیں‘‘۔
عاصم نے کہا ’’رات کے وقت مجھے دمشق کی طرف جانے والا کوئی مسافر نہیں ملا۔ اور طلوع سحر کے بعد بھی میں نے کسی عورت کو اُس طرف جاتے نہیں دیکھا۔ میرے گھوڑے نے پچھلے پہر راستے میں دم توڑ دیا تھا اور میں پیدل چل کر یہاں پہنچا ہوں۔ مجھے دمشق کے سپہ سالار نے ضروری ہدایات دے کر یروشلم بھیجا ہے اور مجھے ایک تازہ دم گھوڑے کی ضرورت ہے‘‘۔
شامی افسر نے مشکوک نگاہوں سے عاصم کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’آپ دمشق سے تنہا سفر کررہے ہیں؟‘‘
’’ہاں…‘‘
’’راستے میں آپ نے کسی جگہ قیام نہیں کیا؟‘‘
’’نہیں…‘‘
شامی افسر نے عاصم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا ’’یہ عجیب بات ہے کہ یہاں سے چار کوس کے فاصلے پر ہماری چوکی ہے جہاں آٹھ دس گھوڑے ہر وقت موجود رہتے ہیں، لیکن آپ وہاں سے مدد لینے کے بجائے یہاں پہنچ گئے ہیں‘‘۔
عاصم کی حالت اُس شخص کی سی تھی جس کی گردن میں اچانک پھندا ڈال دیا گیا ہو، تاہم اس نے اپنے اضطراب پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’’شاید آپ کو معلوم نہیں کہ چوکی کے محافظوں کو دمشق بلالیا گیا ہے‘‘۔ ایک آدمی نے آگے بڑھ کر کہا ’’جناب! جب گزشتہ شام ہمارا قافلہ وہاں سے گزرا تھا تو چوکی کے سپاہی وہیں تھے‘‘۔
شامی افسر اور اُس کے ساتھی جواب طلب نگاہوں سے عاصم کی طرف دیکھنے لگے، لیکن اُس نے انتہائی پریشانی کے باوجود مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ’’چوکی کے سپاہی مجھے آدھی رات گزرنے کے تھوڑی دیر بعد راستے میں ملے تھے۔ اگر اُس وقت مجھے معلوم ہوتا کہ میرا گھوڑا آگے چل کر جواب دے جائے گا تو میں یقیناً اُن میں سے کسی کا گھوڑا چھین لیتا۔ اُس وقت میں نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ چوکی کے تمام گھوڑے اپنے ساتھ لے آئے ہیں‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ