ایک پاکستانی روزگار کے سلسلے میں جاپان چلا گیا۔ وہاں اسے کسی فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔ قیام کا ابتدائی زمانہ تھا، اسی لیے ملازمت پر اکتفا کرنا پڑا۔ ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ اس نے وہاں 80 سالہ خاتون کو صفائی کے کام پر مامور پایا۔ یہ دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا اور اس کی مجبوری کے ہزارہا خیالات در آئے۔ بلآخر اس نے مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی خیال کے پیش نظر اس نے اجتماعی طور پہ مدد کرنے کا سوچا اور اپنے پیشہ ور ساتھی سے خیالات کا اظہار کیا۔
ساتھی ورکر اظہار ہمدردی سن کر ہنس دیا اور مسکراتے ہوئے انکشاف کیا کہ یہ خاتون صفائی کرنے والی نہیں بلکہ اس فیکٹری کی مالکن ہیں۔ محض اچھی صحت اور خود کو فٹ رکھنے کے لیے کام کرتی ہیں۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو محض تین دہائی قبل پاکستان میں بھاری تنخواہ دار یا اچھی آمدن رکھنے والے گھرانوں کی اکثر خواتین گھروں کا کام خود کرتی تھیں۔ پھر دیکھا دیکھی کام والیوں کے سپرد کرنے لگیں اور آج یہ حال ہے کہ متوسط اور نچلا طبقات بھی کپڑے دھونے یا صفائی کرنے کے لیے ملازمہ رکھنے پر مصر ہیں۔ ضرورت ہو یا نہ ہو‘ کام والی کا ہونا اسٹیٹس بن کر رہ گیا ہے۔ دیہات یا شہروں میں بہت سی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ محنت مزدوری یا دیگر کام کرتی ہیں مگر اِن خواتین کا تناسب صرف 5 فیصد ہے‘ باقی 95 فیصد امور خانہ داری میں مصروف رہتی ہیں یا ملازمین سے کام کروانے میں ہی تھکن کا شکار ہوجاتی ہیں۔
نوکر چاکر رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن سہل پسندی کو عادت بنا لینا سراسر بیماریوں کو دعوت عام دینے کے مترادف ہے۔ خوراک تن درست مانند اور آرام بیماروں جیسا نتیجتاً جسم بیماریوں کی پوٹلی بن جاتا ہے۔ اسی لیے میانہ روی کی تاکید میں حکمت پوشیدہ ہے جوکہ سنت نبویؐ اور جدید طب سے ملتی ہے۔
سہل پسندی مومن کا طرز عمل نہیں ہوسکتا کہ اگر اونٹ پر سوار شخص کی چھڑی نیچے گر جائے تو سوار پیدل کو چھڑی تھمانے کا نہ کہے بلکہ خود نیچے اترے اور اپنی چھڑی اٹھائے۔ اسی طرح سُستی کو سخت ناپسند کیا گیا۔ پاؤں گھسیٹتے ہوئے ایک شخص کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ڈانٹ کر کہا کہ ’’مومن ایسی سُستی کی چال نہیں چلتا۔‘‘
تاریخ کی ورق گردانی کرلیں یا حالات حاضرہ کا مشاہدہ ، جن قوموں نے سُستی چھوڑ کر محنت کو اپنایا وہ ترقی کی طرف گامزن ہوئیں اور جنہوں نے محنت سے جی چرایا اور اسے اپنی شان کے خلاف سمجھا تنزلی ان کا مقدر ٹھہری۔ محلے ہوں یا کالونی علی الصبح اتنی تعداد میں چہل پہل مکینوں کی نہیں ہوتی جتنی کہ کام والیوں کی ہوتی ہے۔
جو خواتین اُمور خانہ داری میں خود کو مشغول رکھتی ہیں وہ نہ صرف طویل عرصے تک چست و توانا رہتی ہیں بلکہ ایسے گھرانے سلیقہ مندی کا آئینہ دار بھی ہوتے ہیں۔ خواتین تنِ آسانی کے لیے نہیں بلکہ مددگار کے طور پر کام والیوں کا انتخاب کریں۔ کسی بیماری یا ملازمت پیشہ خواتین کی مجبوری ہے کہ وہ امور خانہ داری میں کسی کو حصہ دار بنائے۔ ایک بار کسی دانا خاتون سے یہ جملہ سننے کو ملا کہ ’’اب ہماری خواتین کی کثیر تعداد اُن خواتین پر مشتمل ہے جو کام کاج چھوڑ کر اپنی صحت اور جسمانی ساخت بہ خوشی تباہ کررہی ہیں اور پھر کام والیوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتی اور کہتی ہیں کہ یہ اتنی صحت مند اور دبلی پتلی کیسے ہے؟