اگلے ماہ ثروت کی کزن کی شادی تھی، وہ اس پر ہونے والے اخراجات کا سوچ سوچ کر ہول رہی تھی۔ نئے عروسی کپڑوں کا انتظام، تحائف، سلامی اور امد و رفت کے اخراجات۔ کوئی ایک مسئلہ تھا… کم سے کم بھی کر لو تو سات آٹھ ہزار کہیں نہیں گئے۔ دونوں بچوں کے کپڑوں کا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا ابھی کئی نئے جوڑے بنے تھے۔ ددھیال، ننھیال سے آئے کئی جوڑے بھی موجود تھے اس کے شوہر کے پاس بھی سسرالی گفٹ میں آئے کچھ سوٹ تھے، تھوڑا جمع جمایا جوڑا اور اخراجات میں کٹوتی کر کے تحفے کا انتظام شوہر نامدار ترلوں منتوں سے کر ہی دیتے بہ مشکل کہ لاج رہ جاتی، اس سے آگے کی کوئی توقع بہت مشکل تھی ان سے۔
مگر اس کے اپنے کپڑوں کا خاصا مسئلہ یوں ہوا کہ ایک تو اس نے عروسی کپڑے عرصہ ہوا نہیں بنائے تھے کہ استعمال میں آتے ہی کب ہیں، ایمبرائیڈڈ لان اور کاٹن کے سوٹ رکھے تھے جو وہ تقریبات میں چلا ہی لیتی تھی۔ تقریبات میں ایک دن کا گیپ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ خاندان کی شادی ہے اور گیٹ اپ بھی ذرا اچھا دکھنا تھا۔
وہ عجیب الجھن میں تھی کہ کرے تو آخر کیا کرے۔ اچانک اس کو سکینہ باجی کا خیال آیا جو اسی اپارٹمنٹ میں تھوڑا آگے رہتی تھیں۔ کیوں نہ ان سے سات آٹھ ہزار قرض لے لوں آہستہ آہستہ لوٹا دوں گی۔ وہ زیرلب بولی۔
اب تک اسے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑی تھی مگر کبھی تو پہلی بار ہوتی ہے اور اب یہ ہو جانی چاہیے۔ وہ ان کے گھر پہنچ گئی اور مدعا سامنے رکھ ہی دیا کہ اب اسکولوں کی فیس اور یوٹیلیٹی بلز کچھ بچانے ہی نہیں دیتے اور شادی اتنے قریبی لوگوں کی ہے۔ کچھ قرض مل جائے تو…
سکینہ باجی نے ساری بات سن کر قرضہ تو نہیں دیا۔ مگر کچھ گٹھر لا کر سامنے رکھ دئیے۔
’’لو یہ کلیکشن ہے…‘‘ انھوں نے کھولتے ہوئے کہا۔
’’اس میں سے جو اچھا لگے لے جاؤ احتیاط سے استعمال کر کے لوٹا دینا یہی ہے قرض۔‘‘
’’واہ کمال ہے کتنی پیاری چیز۔‘‘ وہ پسندیدگی سے پیازی کامدار ساڑھی دیکھنے لگی۔
’’کپڑا تو دیکھو خالص کتان سلک ہے۔ چاندنی اس میں سے گزر جائے۔‘‘ وہ دکھاتے ہوئے بولیں۔
اس پر ثروت کو بھولا بسرا ایک شعر کا مصرع یاد آگیا۔
’’پر تو مہ سے وہی حال کتاں ہے کہ جو تھا‘‘
کپڑا واقعی دبیز اور اعلیٰ تھا اور زرتار کڑھائی کتنی نفیس اور عمدہ۔
’’اور یہ فیروزی جارجٹ کا کامدار دوپٹہ کسی سادے سلکی سوٹ پہ لگالو تو ایک اور تقریب نمٹ جائے گی کیوں بیٹاؓ۔‘‘ وہ بہت محبت سے بولیں۔
’’ارے اس کلر کا سادہ سوٹ تو میرے پاس ہے۔ بالکل میچ کرے گا سکینہ باجی بہت زبردست آپ نے میرا مسئلہ تو منٹوں میں حل کردیا۔‘‘ وہ بہت شکر گزار ہو رہی تھی۔
’’ارے اس میں ایسی کیا بات ہے اصل میں اتنی جلدی پیسے کا انتظام ممکن نہیں اور میں خود شادیوں کے جھمیلے سے نمٹ کر بیٹھی ہوں دینے دلانے میں رقم اٹھ گئی ورنہ ضرور کچھ کرتی اور یہ کپڑے دو چار بار سے زیادہ کون استعمال کرتا ہے، تمھاری ضرورت پوری ہو جائے تو خوشی ہوگی مجھ کو۔‘‘وہ پریم سے بولیں۔
’’ہاں یہ پرل کی میچنگ جیولری بھی ساتھ لے جاؤ ساڑھی پہ یہ ست لڑا سیٹ بہت اٹھے گا بس ذرا دھیان سے۔‘‘ وہ مزید خوش کرگئیں۔
ثروت کے دماغ کی الجھن یک بیک کافور ہوگئی قرض کے بوجھ میں پڑے بنا قرض مل گیا۔ ’’واہ سکینہ باجی خوش رہیں جزاک اللہ۔‘‘وہ بے ساختہ بولی۔
’’واقعی اچھی ہمسایہ بھی اللہ کی بڑی نعمت ہے کتنی الجھن سے نکال دیا۔‘‘
………
رافعہ بچوں کو اسکول اور شوہر کو آفس بھیجنے کے بعد گھر کے کام اور دوپہر کے کھانے کی تیاری شروع کر ہی رہی تھی کہ بچے کے اسکول سے فون آگیا کہ حماد کو سر میں چوٹ لگی ہے۔
وہ بدحواس ہو کر سوچ رہی تھی کہ کیا کروں ماسی بھی جاچکی تھی اور ساس دوسرے بیٹے کے گھر گئی ہوئی تھیں۔ شوہر کا فون مسلسل اینگیج جا رہا تھا۔ اس نے روتے ہوئے اپنی کزن اسریٰ کو فون کیا کہ وہ اس کے ساتھ اسکول چلے اللہ جانے بچہ کس حال میں ہے۔
وہ فوراً آ گئی اور اس کو لے کر اسکول پہنچی اسکول سے فوری ٹریٹمنٹ دلوا کر گھر پہنچایا شکر ہے زیادہ چوٹ نہیں آئی تھی۔
اسریٰ نے راستے سے پھل اور اسنیک بھی لے لیے کہ ابھی اس افراتفری میں کھانا بھی نہیں بنا تھا ایسے میں اسریٰ رافعہ کے لیے رحمت کا فرشتہ ثابت ہوئی۔
………
میرے میجر آپریشن کو دس روز ہی ہوئے تھے‘ ابھی ٹانکے کٹنے میں ایک دن باقی تھا مگر رات سے ہی درد سے براحال تھا امی کی خود ایسی حالت نہیں تھی کہ لے جاتیں‘ شوہر شہر سے باہر تھے رابطہ بھی نہیں ہوپا رہا تھا کہ تسلی اور تدبیر ہی کرلیتے۔
میں نے نئی شناسا خاتون زاہدہ باجی کو کال کی وہ فوری دوڑی آئیں ٹیکسی کر واکر اسپتال لے گئیں‘ ٹریٹمنٹ دلوائی‘ ٹانکے کاٹے گئے پھر ٹیکسی میں گھر تک پہنچایا۔
کتنی اذیت تھی اور کیسی بے چارگی مگر اللہ وسیلے بناتا ہے ایسے وقت میں جب سب گھر سے باہر ہوں عورت ہی عورت کے کام آسکتی ہے۔
بہرحال خوشی غمی کے مواقع ہوں یا دکھ درد کے‘ ماں‘ بہن جیسی دوست یا اس پاس کی شناسا خاتون کی ضرورت کل کی طرح آج بھی رہتی ہے مگر کیا کیجیے کہ ایک نعرہ اور اس کا عملی اظہار چاروں طرف سنائی اور دکھائی دے رہا ہے کہ ’’عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔‘‘
بہت ساری کہانیوں اور ڈراموں میں عورت ہی عورت کی تباہی کا باعث بتائی جا رہی ہے اور اس حقیقت کو آپ جھٹلا بھی نہیں سکتے کہ واقعی ایسا ہے مگر زمینی حقائق کو ذرا غور سے دیکھیں تو دو عورتوں کے مابین دشمنی کے پیچھے کوئی مرد ہے جس پر حق جتانے کے چکر میں حسد اور رقابت پنپ رہی ہے اور ایک دن بالاخر دھماکہ ہوجاتا ہے۔
یوں عورتیں باھم متنفر ہو جاتی ہیں‘ ایک عجیب خوف اور شک طبقئہ نسواں میں پھیل جاتا ہے یا بعض دفعہ کچھ مرد divid and rule پہ عمل کر کے بےچارہ بننے کی کوششوں میں رہتے ہیں مگر فائدہ ان کو بھی کچھ نہیں ہوتا۔
مختاری میں مجبوری کے یہ المیے بڑے مصنوعی ہیں ماسوا چند استثنیٰ کی صورتوں کے مرد صنف آہن بہرحال ہیں‘ ان کو بڑے پن کا مظاہرہ لچک کے ساتھ کرنا ہوگا اس لیے کہ اصل نعرہ تو اس سے زیادہ شدید ہے کہ ’’انسان انسان کا دشمن ہے۔‘‘
جب ایک انسان دوسرئ انسان کے ہاتھوں بے قصور مارا جائے‘ برباد ہو‘ لٹ جائے تو عورت بھی انسانیت کا نصف ہے، وہ کیوں نہ اس نعرے کی زد میں آئے‘ بےشک یہ مخلوط ماحول کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔
مرد کی قوامیت کو تسلیم کرنا اس کے برعکس نظام کا سلسلہ ہے اس میں عورتیں ہمیشہ اپنی ایک دنیا بناتی ہیں‘ اپنے معاملات سمیٹتی ہیں‘ مردوں کی مداخلت پسند نہیں کرتیں۔ اس کا اپنا رنگ ڈھنگ اور اپنا ہی ماحول ہوتا ہے۔ دکھ سکھ میں سانجھی اپنا الگ گروپ ہے نظم و ضبط کے ساتھ۔
خیر کے کام ہوتے جاتے ہیں‘ نوک جھونک شکوے شکایت بھی چلتے ہیں‘ صلح صفائی کروانے والی بھی کوئی عورت ہی ہوتی ہے یہ باہمی تعلقات نسواں کے حقوق ہیں۔ مگر جوں جوں مخلوط سوسائٹی کا اثر بڑھتا جا رہا ہے عورت عورت سے دور کی جا رہی ہے۔ وہ دوسری عورت کو حقارت سے دیکھ کر سوچتی ہے یہ ہے کیا؟ میری جیسی ایک عورت بس! (گویا آپ خود بےقیمت ہیں)
کبھی دوپٹہ بدل بہنوں کی کہانی پڑھی تھی کبھی پڑوسن ہفتے بعد ہی سالن بدلی کرتی تھی‘ کبھی کیا آج بھی ساس بیٹے کو بہو کے لیے سمجھاتی ہے‘ کبھی نند بھابی ایک دوسرے کے لیے بھائی اور شوہر کو خیال دلاتی ہیں اس لیے کہ بہرحال دونوں کو سارا دن ساتھ رہنا ہے‘ ان کے اپنے باہمی تعلقات اور آپس داریاں ہیں۔
مگر اب عورتیں اپنے ہی سائے سے محروم ہیں گویا اپنے خانگی مسائل سے عاجز آکر نامحرم مردوں کو راز داں بنانے یا کم از کم مشورہ کرنے پر مجبور ہیں خواہ مفتیان کرام سے پوچھیں یا مارننگ شو میں اپنی کتھا سنائیں۔ کیا عورت کی خیر خواہ عورت کہیں گم ہو گئی ہے؟ کوئی مشیر، کوئی راہنما‘ کوئی استاد… مگر کہاں ؟
8 مارچ کو یوم خواتین کے موقع پر سیمینار، واک اور ٹاک شوز سمیت اور بھی نہ جانے کیا کچھ ہوں گے مگر عورتوں کے حالات بدل کے نہیں دیں گے۔ واقعی وہ بنیادی حقوق کی پامالی کا عذاب بھگت رہی ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ فقدان بھی ہے۔
عورتوں میں باہمی تعلقات کی خرابی یا قطع تعلقی پھر لامحالہ مرد عورت کی دوستی کا آغاز ہونے لگتا ہے نہ چاہتے ہوئے بھی جو قطعی غیر فطری ہے یہ جو خالق ارض و سما نے گواہی میں دو عورتوں کا ساتھ ضروری قرار دیا ہے وہ اس بات کا احساس دلانا ہے کہ اکیلی مت رہو ساتھ مل کر چلو معاون رہو
کسی نجی یا دینی محفل، میں جائیں‘ کسی پارلر میں یا بوتیک میں یا مینا بازار چلی جائیں جہاں خواتین ہی دکان دار اور خریدار ہوں وہاں ایک الگ ڈھنگ میں اپنائیت کا رنگ ملے گا۔ الگ دائرئہ کار کا حسن واضح نظر آئے گا جو کہ مخلوط سوسائٹی میں بالکل ناپید ہے۔
عورت چاہے گھریلو ہو یا ملازمت پیشہ، ایک تلاش میں ہے مگر زبان حال سے ’’سنو میری جیسی، میرا سایہ،تم کہاں ہو… آئو نا ہاتھ ملاؤ… مت روٹھو‘ مان جاؤ… دیکھو ہم دشمن تو نہیں۔
آئو سالن بدل کر ذائقے میں شریک ہوتے ہیں۔
آئو میں تمھارا فیشل کروں تم میرا،
آئو دوست کتاب شئیر کرتے ہیں…
آؤ ناں چائے پیو ساتھ اپنا حال سناتے سنتے ہیں… میری جیسی واپس آجاؤ … یار کچھ نہیں کہاجائے گا۔