الحاج ملک الشہباز
امریکا میں اشاعتِ اسلام کے حوالے سے میلکم ایکس کا نام اہم ترین حیثیت کا حامل ہے۔ مختلف اخلاقی خرابیوں میں لت پت اس ذہین و فطین نیگرو نے اسلام قبول کیا تو اس کی مسحور کن شخصیت اور دل میں اتر جانے والے خطبات نے بالخصوص امریکا کی سیاہ فام آبادی کو مسخر کرلیا اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے۔ افسوس باطل کی قوتیں اسے برداشت نہ کرسکیں اور عین چالیس سال کی عمر میں اسے ایک نسل پرست دہشت گرد کی گولی نے موت کی نیند سلا دیا۔ لیکن عجیب بات یہ دیکھنے میں آئی کہ اس کی موت نے اس کی تبلیغی تحریک کی رفتار کو تیز تر کردیا، اور آج نہ صرف اس کے دشمن بلکہ نسل پرستوں کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے اور میلکم ایکس کے خون سے نورِ ایمان پانے والے خوش نصیب حضرات کی تعداد کم از کم 45 لاکھ ہو چکی ہے۔
ذیل میں امریکا کے اس پہلے اولوالعزم شہید کی رودادِ حیات پیش کی جارہی ہے۔
…٭…
میلکم ایکس 1925ء میں امریکا کی ریاست مشی گن کے شہر میسن سٹی (Mason City) میں پیدا ہوئے۔ ان کا والد کٹر اور مخلص عیسائی پادری تھا۔ وہ خاموش طبع حقیقت پسند انسان تھا، اپنے فرائض نبھاتا، سب سے خیر خواہانہ برتائو رکھتا اور قناعت پسندی سے چرچ سے ملنے والے معمولی وظیفے پر گزارہ کرتا تھا، لیکن ان ساری خوبیوں کے باوجود سفید فام نسل پرست عیسائی اسے پریشان کرنے کا کوئی موقع ضائع نہ کرتے اور بہانے بنا بناکر اسے دہشت گردی کا نشانہ بناتے۔ میلکم کی یادداشتوں کے مطابق ’’میری والدہ نے مجھے بتایا کہ میلکم تم پیدا ہونے والے تھے کہ ایک رات دہشت گرد نسل پرستوں نے ہمارے گھر پر حملہ کردیا۔ وہ تمہارے باپ کی تلاش میں تھے جو خوش قسمتی سے گھر پر موجود نہ تھے اور کسی تبلیغی اجتماع میں گئے ہوئے تھے۔ دہشت گردوں کو جب شکار نہ ملا تو انہوں نے گھر کی ہر چیز توڑ پھوڑ دی، کار کو آگ لگادی اور دھمکیاں دیتے ہوئے گئے۔‘‘ میلکم کے مطابق میرے والد کا ایک قصور یہ تھا کہ وہ ایک ایسی تنظیم سے ہمدردی رکھتے تھے جو سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے کام کرتی تھی۔ بہرحال میلکم کی پیدائش کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ نسل پرست جنونیوں نے ان کے والد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
میلکم بچپن ہی میں یتیم ہوگئے۔ چرچ نے معمولی سی امداد کی لیکن وہ بہت ناکافی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خاندان مالی مشکلات کا شکار ہوکر بکھر گیا، جس کا جہاں سینگ سمایا، چلا گیا۔ صرف میلکم اور ان کی والدہ رہ گئیں۔ میلکم کہتے ہیں ’’میری والدہ ہی نے میری پرورش کی۔ میں اپنی والدہ کو سخت محنت کرتے ہوئے دیکھتا تو غم زدہ ہوجاتا۔‘‘
میلکم نے پرائمری تک تعلیم سفید فاموں کے ایک اسکول میں حاصل کی جہاں ہر لمحے انہیں سفید فام ساتھیوں کے تحقیر آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا اور ان کا ننھا سا دل کرچی کرچی ہو اتا، حالانکہ وہ ذہانت کے اعتبار سے کلاس کے تین نمایاں طالب علموں میں سے ایک تھے، لیکن اساتذہ کا رویہ حوصلہ شکنی پر مبنی ہوتا۔ مثال کے طور پر ایک روز ایک استاد نے میلکم سے پوچھا ’’تم بڑے ہو کر کیا پیشہ اختیار کرو گے؟‘‘
’’میں قانون دان بنوں گا۔‘‘ میلکم نے جواب دیا۔
’’ہوں…!‘‘ استاد نے بھنویں سیکڑتے ہوئے حقارت سے کہا ’’تم قانون دان کیسے بن سکتے ہو! بہتر ہے تم لکڑی کا کام سیکھ لو۔ فرنیچر اچھا بنا سکو گے۔‘‘
دل شکنی اور دیگر مسائل کے اس ماحول میں میلکم نے ابتدائی ضروری تعلیم مکمل کی اور 1940ء میں جب کہ ان کی عمر پندرہ سال تھی، وہ مشی گن سے بوسٹن آگئے جہاں ان کی بڑی بہن رہتی تھی۔ یہاں وہ بالکل ہی نئے ماحول سے آشنا ہوئے۔ موصوف لکھتے ہیں:
’’میں نے ایک نائٹ کلب میں نوکری کرلی۔ لیکن یہ کام مجھے پسند نہ آیا تو کلب کے باہر ہی بوٹ پالش کرنے کا دھندا شروع کردیا اور اس طرح یہاں میں نے امریکی معاشرے کو بہت ہی قریب سے دیکھا جو شراب، جوئے، منشیات اور جرائم کی بے شمار قسموں میں سرتاپا ڈوبا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے میں بھی اپنے دامن کو ان آلودگیوں سے محفوظ نہ رکھ سکا اور غیر شعوری طور پر ان میں ملوث ہوتا چلا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری کی پوری امریکی معاشرت جنگل کے قانون کی عکاسی کرتی ہے جہاں فریب کاری اور عیاری انسان کا اصل جوہر قرار پاتا ہے۔ توجہ سے دیکھیں تو قانون اور اصول وہاں قدم قدم پر رسوا ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘‘
بہرحال میلکم اس زمانے میں منشیات اور جرائم کی دنیا میں ڈوب گئے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اُس زمانے میں میرا عقیدہ تھا کہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کا جھوٹ، فریب، مکاری اور زیادتی جائز ہے۔ عورت کی حیثیت میرے نزدیک حصولِ لذت کے سوا کچھ بھی نہ تھی۔ پھر ایک دن میں ایک ایسے جرم میں گرفتار کرلیا گیا جو میں نے کیا ہی نہ تھا اور دس سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔ یہاں میں نے دیکھا کہ جیل تو گویا جرائم کی تربیت گاہ ہے۔ وہاں کیا کچھ نہیں ہوتا! غنڈہ گردی، نشہ بازی اور ہر طرح کے اخلاقی جرائم۔ لیکن اللہ کو میری بہتری منظور تھی۔ وہاں کچھ لوگ اصلاح و خیر کا کام بھی کررہے تھے۔ انہی میں سے کسی شخص نے مجھے عالی جاہ محمد کی تحریک ’’نیشن آف اسلام‘‘ کا تعارفی لٹریچر دیا اور یہ لٹریچر میری زندگی میں انقلاب کا باعث بن گیا۔ میں نے اس سے قبل اسلام کا نام تک نہ سنا تھا، نہ کسی مسلمان سے میرا کبھی تعارف ہوا تھا۔ لہٰذا خدا (God) کا نام بھی میں نے بعض فلموں کے مکالموں میں سنا تھا اور بس۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ فرصت کے اس طویل دور میں مَیں نے اسلامی تہذیب و تاریخ کے بارے میں متعدد کتابیں پڑھ ڈالیں اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور شخصیت کا بھی خوب مطالعہ کرلیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام نے میری بری حرکتیں ترک کرادیں۔ میں نے شراب نوشی سے توبہ کرلی، حتیٰ کہ سگریٹ تک پینا چھوڑ دی اور جیل ہی میں اسلام قبول کرلیا اور ملک الشہباز کا نام اختیار کیا۔‘‘
چنانچہ میلکم جیل سے باہر نکلے تو مکمل طور پر ایک بدلے ہوئے انسان تھے۔ لیکن عقائد کی حد تک وہ عالی جاہ محمد کے پیروکار تھے۔ یہ نسل پرست سیاہ فام رہنما ’’نیشن آف اسلام‘‘ کے نام سے صرف سیاہ فاموں میں ایک تحریک چلا رہا تھا جس کے عقائد خودساختہ اور گمراہ کن تھے۔ یعنی خدا کالے رنگ کا ہے، جنت میں صرف کالے جائیں گے اور سفید فاموں پر جنت حرام ہے۔ اسی طرح ’’نیشن آف اسلام‘‘ نے یہ بات بھی پھیلائی تھی کہ شیطان سفید فام ہے اور کالے خدا کے محبوب بندے ہیں، اور عالی جاہ محمد اللہ کا پیغمبر ہے جو براہِ راست خدا سے ملاقات کرتا ہے۔ خدا اس کے پاس ایک شخص W.Fard کے روپ میں آتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
دراصل یہ تحریک سفید فام امریکیوں کی اُس نفرت اور دہشت گردی کے خلاف ایک ردعمل اور جوابی تحریک تھی جس کا نشانہ سیاہ فام آبادی بنتی رہتی تھی۔ چنانچہ بیس ملین (دو کروڑ) سیاہ فاموں نے ’’نیشن آف اسلام‘‘ کی رکنیت اختیار کرکے سفید فاموں سے کٹ کر اپنی الگ معاشرت قائم کرلی۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام یہودیوں کی طرف اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام عیسائیوں کی جانب مبعوث ہوئے تھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے اسی طرح عالی جاہ محمد امریکا کے افریقی باشندوں کے لیے باقاعدہ پیغمبر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
میلکم لکھتے ہیں ’’یہ تھا وہ اسلام جس پر میں ایمان لایا تھا۔‘‘ لیکن خوش قسمتی سے ان کی ملاقات سعودی سفارت خانے کے ایک اعلیٰ افسر سے ہوگئی جس نے انہیں قرآنِ حکیم کا انگریزی ترجمہ اور بعض اسلامی کتب پیش کیں۔ ان کے مطالعے سے میلکم پر انکشاف ہوا کہ عالی جاہ محمد کی تعلیمات کا اسلام یا قرآن کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں، اور نہ اس کی ذاتی زندگی میں اسلام کا کوئی عمل دخل ہے۔ خوش قسمتی سے انہیں سعودی عرب کی دعوت پر حج کی سعادت حاصل ہوگئی جہاں انہوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ایک نئی دنیا کا مشاہدہ کیا۔ پورے کرئۂ ارض سے آئے ہوئے ہر ملک اور ہر زبان اور رنگ و نسل کے مسلمان بے حد اپنائیت، اخوت، یگانگت اور یک رنگی کے ماحول میں اپنے رب کو پکار رہے تھے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور شیفتگی کا اظہار کررہے تھے۔ تب میلکم کو اسلام کی عالمگیریت اور ہمہ جہتی کا اندازہ ہوگیا۔ انہوں نے عالی جاہ محمد کی ’’نیشن آف اسلام‘‘سے ناتا توڑ کر صحیح اور خالص اسلام اختیار کرلیا اور امریکا واپس آکر ایک جانب نسلی تعصب کے خلاف جہاد شروع کردیا اور دوسری طرف رنگ و نسل کے امتیار کے بغیر سب امریکیوں تک قرآن و سنت کا فطری اور بے میل پیغام پہنچانے لگے۔
میلکم شعلہ بیان مقرر تھے، وہ دینِ اسلام کے لیے غیر معمولی اخلاص اور جوش و جذبہ رکھتے تھے۔ چنانچہ جب وہ خطاب فرماتے اور قرآنی تعلیمات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور اسوۂ حسنہ کی مثالیں بیان کرتے تو سننے والے مسحور ہوجاتے، ان پر عالی جاہ محمد کا کھوکھلا پن عیاں ہوجاتا اور وہ ’’نیشن آف اسلام‘‘ سے تائب ہوکر مخلص مسلمان بن جاتے۔ عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن محمد علی کلے بھی میلکم کی ترغیب سے مسلمان ہوئے اور جس پریس کانفرنس میں انہوں نے اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کیا اُس میں میلکم بھی موجود تھے۔
میلکم کی کوششیں رنگ لانے لگیں۔ عالی جاہ محمد کے لاکھوں پیروکار راسخ العقیدہ مسلمان ہوگئے۔ بے شمار نیگرو عیسائی بھی حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے اور میلکم کا دائرئہ اثر تیزی سے بڑھنے لگا تو عالی جاہ محمد سخت برافروختہ ہوا۔ وہ نام نہاد اسلام اور نسل پرستی کا ڈھونگ رچا کر اپنے پیروکاروں سے بھاری نذرانے اور چندے اکٹھے کرتا اور خوب دادِ عیش دیتا، لیکن اب اسے ایک روایتی دنیا دار لیڈر کی طرح اپنا سارا کاروبار ڈوبتا ہوا نظر آنے لگا تو اس ظالم نے ایک مکروہ سازش تیار کی اور 21 فروری 1965ء کو جب میلکم ایک تبلیغی جلسے سے خطاب کررہے تھے، کسی دہشت گرد نے گولی مار کر انہیں شہید کردیا، اور یوں لگتا ہے کہ چونکہ یہود نواز امریکی انتظامیہ بھی میلکم کی زبردست تبلیغی سرگرمیوں سے خوفزدہ تھی اس لیے نہ کوئی قاتل پکڑا گیا، نہ کسی کو سزا ہوئی۔
بظاہر یہ بہت بڑا سانحہ اور نقصانِ عظیم تھا جس سے امریکا میں اسلامی تبلیغ کو دوچار ہونا پڑا، چنانچہ ایک دردمند عرب سفارت کار نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم دس لاکھ ڈالر خرچ کرتے تب بھی وہ تبلیغی اثرات مرتب نہ ہوتے جو اس شخص کی کوشش سے مرتب ہوگئے۔ ایک دوسرے سفیر نے انہیں یوں خراج عقیدت پیش کیا کہ ’’میلکم کی زندگی سے مجھے عمرِ ثانیؓ یاد آتے تھے۔ عمرِ فاروقؓ کے قبولِ اسلام سے جو تقویت اسلام کو ملی تھی، ویسی ہی قوت میلکم کے مسلمان ہونے سے امریکا میں اسلام کو حاصل ہوئی۔ وہ عہدِ حاضر میں یقیناً امریکا کے عمر تھے۔‘‘
لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میلکم ایکس کا مقدس خون خوب رنگ لایا۔ عالی جاہ محمد سے خود اس کے پیروکار اور قریبی ساتھی متنفر ہوگئے، حتیٰ کہ اس کے اپنے بیٹے ویلس محمد نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ راسخ العقیدہ مسلمان بن کر میلکم کا عقیدت مند بن گیا۔ اس صدمے سے عالی جاہ محمد دم توڑ گیا اور اس کی تحریک اور عقائد میلکم ایکس کے خون میں ڈوب گئے۔
عالی جاہ کی موت کے بعد ویلس محمد اس کے جانشین بنے اور انہوں نے اپنے باپ کے خودساختہ نظریات کو باطل قرار دے کر قران و سنت پر مبنی تعلیمات کی پیروی کا اعلان کردیا، اور آج صورتِ حال یہ ہے کہ 1994ء کی رپورٹ کے مطابق میلکم کی تنظیم میں 45 لاکھ سے زائد نیگرو شامل ہوچکے ہیں اور یہ سب پختہ عقائد کے مسلمان ہیں، خصوصاً جیلوں میں دینی تبلیغ کا کام بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور روزانہ بیسیوں جرائم پیشہ افراد مسلمان ہوجاتے ہیں اور اسلام قبول کرتے ہیں۔ ان کے کردار اور رویّے میں یکسر انقلاب آجاتا ہے۔ گزشتہ دنوں سابق ہیوی ویٹ چیمپئن مائیک ٹائسن بھی مسلمان ہوگئے ہیں اور انہوں نے میلکم کے اسلامی نام پر اپنا نام ملک شہباز عبدالعزیز رکھا ہے۔
الحاج ملک الشہباز نے اسلام کے لیے اپنی زندگی قربان کردی لیکن ان کے پاکیزہ خون کا ایک ایک قطرہ روشنی کا مینار بن گیا اور یہ روشنی امریکا کے ظلمت کدے میں ایک نئے باب کا اضافہ کررہی ہے۔ درست فرمایا ہے مولانا محمدعلی جوہر نے کہ:
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد