موجودہ دور میں جہاں ہر طرف الیکٹرانک میڈیا کی دھوم ہے ۔ بچے، جوان، بزرگ کے لئے اسکا استعمال لازمی ہوگیا ہے ، لیکن پرنٹ میڈیا کی بھی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے اور جہاں پرنٹ میڈیا کی بات آئے وہاں ہر خاص و عام ، شاگرد و استاد ، تعلیمی اداروں سے لے کر عوامی مراکز میں رسائل و جرائد اور کتب فراہم کرنے والا ادارہ ، لائبریری/ کتب خانہ ہے ۔
لائبریری یا کتب خانہ کا تصور انتہائی قدیم ہےجو اب وقت کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اسکے مفہوم میں آہستہ آہستہ وسعت بھی آتی رہی – مثلا 1374 عیسوی میں آکسفورڈ ڈکشنری میں کتب خانہ سے مراد ایسی جگہ تھی جہاں کتب برائے مطالعہ و حوالہ رکھی جاتی تھی ۔جبکہ یہی لفظ (کتب خانہ) انیسویں صدی تک ایسی عمارت کے لئے استعمال کیا گیا جہاں عوام الناس کی لئے کتب انکی دلچسپی، ضرورت اور حالات حاضرہ کی معلومات کا سامان کرے ۔اب حصول علم کے لئے پڑھا، لکھا اور دیکھا جانے والا موادکتب خانوں کا مواد کہلاتا ہے ۔
“ضرورت ضرورت واہمیت:
“ضرورت
تعلیم اور کتب خانہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ۔ ہرکامیاب ادارے کے پیچھے کتب خانوں کا کردار بڑا اہم ہے۔ جس میں نہ صرف اس شعبہ سے متعلق کتب ہوتی ہیں بلکہ رسائل و جرائد کا انتظام رکھا جاتا ہے تاکہ انکا اسٹاف حالات حاضرہ کے ساتھ ساتھ شعبہ کے متعلق آنے والی نئی معلومات سے آگاہ ہوسکے۔
ایلزبتھ ایچ تھامسن کے مطابق وہ کتاب جو مسلسل حصوں میں ایک خاص وقفہ سے یا غیر معینہ وقفہ سے شائع ہو اس میں رسائل، سالنامے، رپورٹ، یادداشتیں، رودادیں اور قراردادیں وغیرہ شامل ہیں۔موجودہ ملکی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ کتب خانوں کو فروغ دیا جائے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں ہر دوسرا فرد ذہنی مریض ہوچکا ہے اور اس میں سدھار کا بہترین ذریعہ کتاب ہے ۔
بیلیو تھراپی(کتابوں کے ذریعے علاج):
ببلیو تھراپی(کتابوں سے علاج)جس کا آغاز تو 1272 میں ہوا لیکن اسکو باقاعدہ نام 1916 میں Survivual Crother نے دیا اور اس کو باقاعدہ تحقیق کا حصہ اور اسکے facts کو چیک 20اگست2021میں کیاگیا ۔اس ہی علاج کے بارے میں مزید معلومات کے لئے کچھ ذہنی امراض کے ماہر افراد نے ملاقات کی اور ان سے اس علاج کے متعلق معلومات لی۔ جس میں میں انہوں نے بتایا کہ ذہنی امراض کے مریضوں کو مختلف عنوانات کی کتب کا مطالعہ کروایا جاتا ہے۔ جس میں ناول، کہانایاں اور نظمیں شامل ہوتی ہیں۔
کتب خانوں کا فروغ:
ہمارے ملک کے حالات جس طرف جا رہے ہیں۔ بےروزگاری، ناخواندگی میں اضافہ، مہنگائی میں روز بروز اضافہ اور بنیادی ضروریات کا پورا نا ہونا لوگوں کو نفسیاتی مسائل کا شکار کرتا جا رہا ہے- اس میں ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ عوامی کتب خانوں کو فروغ دیا جائے اور اس میں نصاب کے علاوہ اصلاحی کتب کا اضافہ بھی یقینی بنایا جائے اور پیشہ وارانہ عملے کے ساتھ ساتھ انکو وہ سارے وسائل بھی دئیے جائیں جس سے وہ اپنے ادارے کی کارکردگی کو بلندی تک پہنچانے میں اپنا کردار بھی ادا کرسکیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ علم اورکتب خانوں کے بغیر ملک و قوم کی ترقی نا گزیر ہے۔
ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ترقی پذیر ممالک بھی ہر محلے گلی میں نہ صحیح لیکن کم از کم ہر علاقے میں کتب خانے قیام کریں اور جو کتب خانے خستہ حالی کا شکار رہیں اس پر توجہ دیں ۔کتب خانوں میں مختلف قسم کے پروگرامات کا انعقاد کریں ۔مثلاًمضمون نویسی کا انعقاد، آرٹ(مصوری)کے مقابلے وغیرہ وغیرہ۔
عوامی کتب خانوں میں موجودہ کتب کا انتخاب وہاں کے لوگوں کی ضرورت کے حساب سے کیا جائے کیونکہ بڑھتی مہنگائی میں کتابوں تک رسائی ہر فرد تک ممکن نہیں۔تعلیمی اداروں کے کتب خانوں میں نصاب کے علاوہ غیر نصابی کتب کو شامل کیا جائے تاکہ طلبہ کتب خانوں کا رخ کریں ۔اساتذہ خود کتب کی اہمیت کو سمجھیں۔ کیونکہ طلبہ کے کردار کی تعمیر میں ایک اہم حصہ اساتذہ کا ہوتا ہے اور اس کردار سازی کے لئے ضروری ہےکہ نصاب کے علاوہ بھی مطالعہ کاذخیرہ بھی انکےپاس موجود ہونا چاہیئے ۔کتب خانہ ہی وہ ادارہ ہے جس کے ذریعے اسلاف کے تجربات اور خیالات کو تحریری صورت میں محفوظ کرکے آنے والی نسل تک پہنچایا جاتاہے۔سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں رسائل و جرائد کی اہمیت بہت ذیادہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس میں 80 فیصد رسائل استعمال ہوتے ہیں یعنی نئی آنے والی تحقیق چھپتی ہے اور رسائل و جرائد کی صورت میں محققین کو کتب خانہ فراہم کرتا ہے ۔