السر(زخم معدہ)

641

زخمِ معدہ ایک عام بیماری ہے اور دن بہ دن اس کے مریض بڑھتے جارہے ہیں، خاص طور پر بڑے شہروں کے مصروف لوگوں میں یہ بیماری کثرت سے پائی جاتی ہے۔ یہ زخم یا تو معدے میں ہوتے ہیں، معدے کے فوراً بعد جو آنت شروع ہوتی ہے جسے ڈیوڈینم یا اثنا عشری کہا جاتا ہے، اس میں ہوا کرتے ہیں۔ انگریزی میں معدے کے ایسے زخم کو گیسٹرک السر اور اثنا عشری کے زخم کو ڈیوڈینل السر کہا جاتا ہے اور دونوں کے لیے مشترک اصطلاح جو استعمال ہوتی ہے وی پیپٹک السر ہے۔
عام طور پر اس مرض میں معدے کی پچھلی دیوار پر زخم ہوجاتے ہیں جن کی لمبائی ایک سے چار انچ تک ہوتی ہے، اور بعض اوقات معدے کی اگلی دیوار بھی متاثر ہوجاتی ہے، مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
ابتدا میں زخم بہت چھوٹا ہوتا ہے جس کے کنارے اس طرح نمایاں ہوتے ہیں جیسے کسی تیز دھار چیز سے کاٹ کر بنایا گیا ہو۔ دیکھنے میں سطح صاف اور ہموار نظر آتی ہے۔ جب یہ زخم پرانے ہوجاتے ہیں تو ان کی جسامت بڑھ جاتی ہے اور کنارے موٹے اور ناہموار ہوتے جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زخم کی گہرائی بڑھ جاتی ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات معدے کی دیوار میں چھید ہوکر خون اور غذا پیٹ میں چلی جاتی ہے جو کہ ایک خطرناک صورت ہے۔
اس مرض کے پیدا ہونے کی وجوہات ہیں۔ کبھی معدے کی دیواروں میں پائی جانے والی خون کی رگوں میں سدہ پھنس جانے کی وجہ سے تھوڑے حصے کو خون نہیں مل پاتا اور وہ مُردہ ہوکر زخم میں تبدیل ہوجاتا ہے، کبھی معدے میں پیدا ہونے والے ہاضم تیزاب کی پیدائش بڑھ جانے کی وجہ سے یہ صورت ہوتی ہے، جس کی تیزی معدے کی دیواروں میں خراش پیدا کردیتی ہے۔ کبھی بہت تیز غذائوں یا دوائوں کے استعمال سے یہ صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ کبھی معدے کے عضلات میں تشنج ہوکر اس کی اندرونی سطح کا معمولی حصہ بے حس ہوجاتا ہے اور وہ معدے کے تیزاب و جراثیم سے مل کر زخم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
معدے کا السر بیس پچیس سال کی عمر میں شروع ہوا کرتا ہے، جنس کے لحاظ سے عورتیں زیادہ مبتلائے مرض ہوتی ہیں۔ پرانی بدہضمی اور معدے کا ورم بھی زخمِ معدہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ جو بہت تیز مسالہ استعمال کرتے ہیں یا بہت دیر تک خالی پیٹ رہتے ہیں خواہ یہ مصروفیت و لاپروائی کی وجہ سے ہو یا مجبوری کی وجہ سے، معدے میں زخم پال لیتے ہیں۔ آج کل عورتوں یا نوجوان لڑکیوں میں وزن کم کرنے کے لیے فاقہ کشی کا رجحان ہے، ان میں سے اکثر جو بغیر کسی معالج کے مشورے یا نگرانی کے، کئی کئی وقت غذا نہیں لیتیں یا بہت کم لیتی ہیں، ان کے معدے میں یا تو زخم ہوجاتے ہیں یا وہ تیزابیت بڑھ جانے کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ان خواتین میں بھی اس مرض کو قبول کرنے کی استعداد زیادہ ہوا کرتی ہے جن کے ایام یا تو وقت سے پہلے بند ہوجائیں یا صحیح طریقے پر نہ آئیں۔
اس مرض کی پیدائش میں اُن تمام باتوں کا بڑا دخل ہے جن سے معدے میں ہیجان یا جلن پیدا ہو، اور معدے کے ہاضم تیزاب (گیسٹرک جوس) کی افزائش بڑھ جائے۔ معدے میں جلن و ہیجان عام طور پر تیز مرچ مسالے والی غذائوں کے استعمال یا ایسی چیزوں سے بڑھ جاتا ہے جو کہ معدے میں حدت و تیزابیت بڑھاتی ہیں، مثلاً زیادہ گوشت کھانا۔ گیسٹرک جوس کی افزائش کئی چیزوں سے بڑھ جاتی ہے۔ یہ تیزاب چونکہ غذا کو ہضم کرنے کے لیے معدے میں بنا کرتے ہیں اور جوں جوں کھانے کا وقت قریب آتا ہے ان کی پیدائش میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور جب خاصی مقدار میں اکٹھے ہو جاتے ہیں تو بھوک خوب چمک اٹھتی ہے۔ اگر اُس وقت کھا لیا جائے تو یہ غذا کے ساتھ مل کر اسے گلانے اور ہضم کرنے میں استعمال ہوجاتے ہیں، اور اگر غذا کے استعمال میں دیر کردی جائے یا غذا نہ لی جائے تو ان کی تندہی و تیزی معدے کی دیواروں پر اثرانداز ہونے لگتی ہے، حالانکہ معدے کی دیواریں بہت مضبوط اور تیزاب سے متاثر نہ ہونے والے پٹھوں سے مل کر بنتی ہیں مگر تیزاب کے بار بار بننے، بہت دیر تک رہنے کی وجہ سے پہلے ان میں خراش پیدا ہوتی ہے، اور پھر یہی خراش بڑھتے بڑھتے زخم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ گیسٹرک جوس کو اگر اصلی حالت میں حاصل کرکے کچھ دیر ہتھیلی میں رکھا جائے تو یہ آبلہ ڈالنے کے لیے کافی ہوتا ہے، مگر معدے کی دیواریں عام حالات میں اس سے متاثر نہیں ہوتیں۔
جن چیزوں سے گیسٹرک جوس کی پیدائش بڑھ جاتی ہے ان میں سرفہرست اعصابی دبائو اور دماغی ہیجان ہے۔ دونوں صورتوں میں تیزابِِ معدہ زیادہ بنا کرتا ہے۔ عام طور پر وہ لوگ جو اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ مصروف کرلیتے ہیں اور ہر وقت ان کے ذہن پر کسی نہ کسی کام کا بوجھ سوار رہتا ہے، یا وہ لوگ جو تفکرات اور پریشانیوں میں گھر جاتے ہیں اور ذہن کو ان سے باہر نہیں نکال پاتے، آگے چل کر زخمِ معدہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ شب بیداری بھی اس کی افزائش کو بڑھا دیتی ہے۔ عام طور پر دن کے مقابلے میں رات کو تیزابِ معدہ زیادہ بنتا ہے، لیکن اگر جاگ کر وقت گزارا جائے تو یہ کئی گنا زیادہ بننے لگتا ہے جس کی وجہ سے جلد ہی تیزابیتِ معدہ پیدا ہوجاتی ہے جو آہستہ آہستہ زخمِِ معدہ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ کثرت سے سگریٹ نوشی بھی افزائشِ تیزاب کو بڑھا دیتی ہے۔ عادی شراب نوش جو کہ غذا کا خیال نہیں رکھتے، معدے کے بہت سے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان میں زخمِ معدہ بھی ہے۔ اور چائے اور کافی کے رسیا جو کئی پیالیاں دن رات اپنے معدے میں انڈیل لیتے ہیں، تیزابیتِ معدہ کو دعوت دیتے ہیں۔
غذا کا غیر مناسب انتخاب یا متوازن غذا سے لاعلمی بھی تیزابیتِ معدہ بڑھ جانے کا باعث بنتی ہے۔ دالوں اور اناج کے چھلکے، موٹے اناج مثلاً جوار، جو، باجرہ وغیرہ، سبزیاں و ترکاریاں، نیز کچھ پھلوںکے چھلکے مثلاً سیب، ناشپاتی، امرود، چیکو… یہ سب دورانِ ہضم معدے میں مخصوص قسم کے خمیر پیدا کرتے ہیں جو ہضم کے بعد باقی رہ جانے والی تیزابیت کو اعتدال پر لے آتے ہیں۔ اس لیے بہت باریک اور چھنے ہوئے آٹے کی روٹی، پالش کیے ہوئے چاول اور بغیر چھلکے کی دالیں اگر متواتر استعمال کی جائیں تو ایک طرف معدے کی تیزابیت اعتدال پر نہیں آپاتی، دوسرے قبض پیدا ہوجانے کے باعث پیٹ میں حدت و گرمی بھی بڑھ جاتی ہے جو مرض کو پیدا کرنے میں معاون و مددگار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہات میں جہاں موٹے اناج، چکی سے پسے ہوئے آٹے اور سبزیوں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے اور جہاں زندگی میں اس درجہ مصروفیت جو ذہنی سکون سے محروم کردے، ابھی نہیں بڑھی ہے وہاں تیزابیت اور زخمِ معدہ کے مریض شاذو نادر ہی ملتے ہیں، اس کے برخلاف بڑے بڑے شہروں میں یہ ایک عام بیماری ہے۔
بہت زیادہ گرم غذائوں کا استعمال بھی زخمِ معدہ پیدا کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ مثلاً بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ گرم گرم روٹی توے سے اترتے ہی فوراً کھا لیتے ہیں۔ سالن بھی تیز گرم استعمال کرتے ہیں، یا چائے، کافی اور سوپ تیز گرم پیتے ہیں۔ اسی طرح بہت ٹھنڈا پانی بھی معدے کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ غذا تازہ اور گرم کھانا اچھی بات ہے، مگر بالکل ہاتھ جلتی ہوئی نہ ہو۔ اس سے منہ کے وہ اعصاب بھی متاثر ہوتے ہیں جو ذائقے میں تمیز کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کا یہ احساس بہت کمزور پڑ جاتا ہے۔
زخمِ معدہ کی ابتدا عام طور پر تیزابیت سے ہوتی ہے۔ تیزاب معدے میں زیادہ پیدا ہونے لگتے ہیں جو بھوک بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ اگر کسی بھی وجہ سے کھانے میں دیر ہوجائے تو پیٹ میں بے چینی اور جلن کا احساس ہونے لگتا ہے۔ ریاح زیادہ بنتے ہیں جس کی وجہ سے پیٹ پھول جاتا ہے۔ اعصابی مزاج کے لوگوں میں یہی کیفیت فکر و پریشانی یا جاگنے کی صورت میں ہونے لگتی ہے ۔ درد کی تیزی اور کمی کا دارومدار زخم کی جسامت اور مقام پر ہوا کرتا ہے۔ اگر زخم بہت بڑا یا گہرا ہے اور جس جگہ واقع ہے وہاں حس زیادہ ہے تو درد بھی شدید ہوا کرتا ہے، اور اگر اس درمیان میں خون کی رگ بھی آجائے تو پھر خون بھی خارج ہونے لگتا ہے۔
زخمِ معدہ کی مخصوص پہچان یہ ہے کہ کچھ کھا لینے یا کھاری ادویہ کے استعمال سے درد اور جلن کی شکایت فوراً ختم ہوجاتی ہے یا اس میں کمی آجاتی ہے۔ کوڑی کے مقام پر، اس کے بالمقابل پشت پر ایک جکڑن اور درد کا احساس ہر وقت رہتا ہے۔ کوڑی کا مقام عام بول چال میں اُس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سینے کے سامنے والی ہڈی ختم ہوتی ہے اور اس کے نیچے ایک محراب کی شکل کا حصہ بن جاتا ہے، اسے یوں سمجھیں کہ اگر ہم سینے پر سامنے اور بالکل درمیان میں انگلی رکھ کر اسے نیچے پیٹ کی طرف لے جائیں تو ایک مقام پر ہڈی ختم ہوجائے گی اور پیٹ کا حصہ شروع ہوجائے گا، یہی کوڑی کا مقام کہلاتا ہے۔ زخم جب بڑھ جاتا ہے تو غذا کھانے کے بعد بھی درد میں اضافہ ہوجاتا ہے، چونکہ جو کچھ کھایا جاتا ہے وہ زخم سے لگتا ہے اور معدہ اسے پیسنے کے لیے حرکت کرتا ہے جو کہ درد میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے۔ اگر غذا میں گرم مسالے و مرچ ہوں، یا غذا بہت سخت ہو تو تکلیف زیادہ ہوا کرتی ہے۔
یہ درد عموماً نصف گھنٹے تک رہتا ہے اور کبھی کھائی ہوئی غذا قے کے ذریعے خارج بھی ہوجاتی ہے۔ قے کا ذائقہ بہت ترش یا کڑوا ہوتا ہے۔ اگر خون کی رگ کا منہ کھل جائے تو قے میں خون بھی خارج ہوتا ہے اور اجابت کا رنگ سرمئی یا سیاہ ہوجاتا ہے، اگر معدے کے مقام کو دبا کر دیکھا جائے تب بھی درد بڑھ جاتا ہے۔ اس کی تشویش ناک صورت یہ ہوا کرتی ہے کہ زخم گہرا ہوتے ہوتے معدے کی دیوار میں سوراخ کردے اور غذا پیٹ کے جوف میں چلی جائے۔
اس مرض سے بچائو کے لیے ضروری ہے کہ کھانا صحیح وقت پر کھایا جائے۔ پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ غذا کو اچھی طرح چبا کر نگلا جائے۔ کھانے کے دوران جذباتی گفتگو یا بحث مباحثے سے بچا جائے۔ کھانے کے دوران ذہن کو غذا یا ہلکی پھلکی دل چسپ گفتگو کی طرف مائل رکھنا چاہیے۔
غذا نہ بہت سخت ہو اور نہ بہت تیز گرم ہو۔ مرچ مسالے بھی اس میں اوسط درجے کے ہونے چاہئیں۔ ذہنی دبائو اور تفکرات کو کم کیا جائے، نیند پوری کی جائے، سگریٹ و شراب نوشی سے بچا جائے۔ اگر زخمِ معدہ ہوجائے تو مرچ مسالے بالکل بند کردینے چاہئیں۔ غذا نیم سیال استعمال کی جائے۔ دونوں کھانوں کے درمیان بھی کچھ لے لیا جائے، مثلاً صبح ناشتے اور دوپہر کے کھانے کے درمیان کوئی پھل یا دودھ لے لیا جائے، اسی طرح دوپہر اور رات کھانے کے درمیان بسکٹ، دودھ یا پھل لے لیے جائیں۔ اگر وزن بڑھنے کا اندیشہ ہو تو اصل کھانوں کی مقدار کم کردی جائے۔ کیلا اور دودھ دونوں تیزابیت کم کرتے ہیں۔ کچے کیلے پر تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ تیزابیت کم کرنے کے ساتھ ساتھ زخم کو بھرنے کی صفت رکھتا ہے، اس لیے اس کی ترکاریاں بنا کر کھائی جائے۔ پھلوں میں خوبانی، بہدانہ انار اور سبز کشمش بھی مفید ہیں۔ شہد کی جہاں بے شمار خوبیاں ہیں وہاں زخموںکو بھرنے کی خاصیت بھی اس میں موجود ہے۔ یہ زخموں کو صاف بھی کرتا ہے اور ان کو بھرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ اس لیے شہد کو دودھ، جو کے پانی یا سادہ پانی میں ملا کر پینا چاہیے۔ گوشت کا استعمال کم کردیا جائے۔ نیم برشت انڈا، دلیہ، سبزیاں اور ترکاریاں زیادہ مناسب ہوا کرتی ہیں۔ خشخاش پیس کر یا حریرہ بناکر صبح یا سوتے وقت کھا لیا جائے۔ یہ درد میں بھی کمی کرتے ہیں اور اعصابی کھچائو و تنائو کو بھی رفع کرکے اچھی نیند لاتے ہیں۔
ایک پودے کی جڑ جسے اصل السوس یا ملیٹھی کہا جاتا ہے اس مرض میں کافی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ اس کا بہت باریک سفوف کرلیا جائے اور ایک کھانے کا چمچہ سفوف صبح، دوپہر اور رات کھانے سے پانچ منٹ قبل پانی میں ملا کر نوش کیا جائے۔ اس سے اکثر بہت پرانے زخم بھی بھر جاتے ہیں۔ اسپغول کی بھوسی ایک ایک کھانے کا چمچہ صبح نہار منہ اور رات سوتے وقت پانی میں ملا کر پینا بھی سوزش اور تیزابیت کو رفع کرتا ہے۔اگر درد شدید ہوجائے یا قے و اجابت میں خون محسوس ہو تو فوراً معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔

حصہ