8 مارچ کو ’’عالمی یوم خواتین‘‘ منایا جاتا ہے۔ خواتین کے حقوق اور تحفظ کے نام پر بڑی بڑی تقریبات، ریلیاں اور کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ اعلیٰ حکومتی شخصیات کی طرف سے خواتین کے حقوق پر کوئی سمجھوتا نہ کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے جلد سے جلد اہم اقدامات کی سفارش ہوتی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ہماری خواتین بہت محنتی اور جفاکش ہیں، خاص طور سے گائوں دیہات کی خواتین۔ یہ واحد موقع ہوتا ہے جب بڑے بڑے بااختیار جاگیردار، سردار اور وڈیروں کی طرف سے ببانگِ دُہل اس بات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ وجہ خواہ اخبار کی سرخی کی تمنا ہی کیوں نہ ہو، سچائی کا اعتراف بہرحال قابلِ تعریف ہے۔
کہا جاتا ہے کہ محنتی اور جفاکش ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دیانت دار بھی ہیں۔ دن رات کام کرتی ہیں لیکن ان کو اپنی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا۔ اس سلسلے میں خواتین میں شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر مؤثر اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔
یہ تو ہوگئیں وہ ساری اچھی اچھی باتیں جو اس دن کے حوالے سے ہر سال کی جاتی ہیں، لیکن پھر پورے سال انہیں طاقِ نسیاں پر رکھ دیا جاتا ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہی ہورہا ہے، کیوں کہ خواتین پر ہونے والے مظالم کی روک تھام کے لیے بنائے گئے قوانین انہیں مشکلات سے نجات دلانے میں کامیاب نہیں ہوئے، عورتوںکی حالت بہتر نہیں ہوئی۔ قبائلی دشمنیوں کے تصفیے کے لیے بچیوں اور عورتوں کا لین دین ہو، جائداد ہتھیانے کے لیے قرآن سے شادی کرانے کی رسم ہو، یا کاروکاری جیسی قبیح روایت… یہ سب کچھ اسی طرح جاری ہے۔
گھریلو تشدد کے خلاف بھی بل بنائے گئے۔ لیکن کیا عورت اس سے بچ پائی؟ چلیے یہ توایک ترقی پذیر ملک کی بات ہے جہاں عورتوں کے حقوق کے لیے آواز دیر سے اٹھائی گئی۔ یورپ میں تو 1908ء میں تحریک اٹھائی گئی، خواتین کو شانہ بشانہ مساوات کے ساتھ مردوں کی برابری کا حق دلانے کے لیے جدوجہد کی گئی۔ پھر یہ جدوجہد کوئی سو سال چلی، لیکن اس کے بعد بھی مردوں کا یہ معاشرہ عورتوں کے لیے اسی طرح پُرتشدد رہا۔
مارچ 2014ء کے پہلے ہفتے میں یورپی یونین کے انسانی حقوق کے ادارے کی جانب سے شائع ہونے والی جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ یورپ میں خواتین پر جسمانی، جنسی اور نفسیاتی تشدد کی بدترین کارروائیاں ہوتی ہیں۔ برطانیہ میں 15 برس کی عمر کے بعد تشدد اور زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکیوںکی تعداد 44 فیصد ہے، جب کہ ڈنمارک میں 52 فیصد، فن لینڈ میں 47 فیصد، سوئیڈن میں 46 فیصد اورنیدرلینڈ میں 45 فیصد ہے۔
ایف آر اے کی ڈائریکٹر ’’مورٹن کیٹروم‘‘ کہتی ہیں کہ یورپ بھر میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ انتہائی افسوس ناک صورتِ حال کو بیان کرتا ہے۔ یہ یورپ کے رکن ممالک میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا بھی اظہار ہے۔ اس سے خواتین کی زندگی متاثر ہوتی ہے، جب کہ اس قسم کے واقعات حکام کی جانب سے منظم طریقے سے رپورٹ نہیں کیے جاتے۔
یورپ سے یہ رپورٹ، پھر یہ اعتراف کہ واقعات اب بھی پورے رپورٹ نہیں ہوتے، حیران کن ہے۔ پاکستان میں جب بھی کسی ایسے سروے کا بیان ہوتا ہے تو ساتھ ہی بتایا جاتا ہے کہ واقعات تو سروے میں موجود اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں لیکن رپورٹ نہیں کرائے جاتے۔ لہٰذا سروے کے نتائج (جو یورپ کے ہم پلہ نہیں ہوتے) کے ساتھ اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ واقعات تو پورے رپورٹ ہوتے ہی نہیں ہیں۔
یورپ کی انسانی حقوق کی تنظیم کی طرف سے تازہ ترین موصول ہونے والی رپورٹ اس بات کی خوب اچھی طرح وضاحت کرتی ہے کہ سو سال سے زائد جاری رہنے والی تحریکِ نسواں نے خواتین کی مشکلات کس قدر کم کی ہیں؟
اقبالؒ نے کہا کہ:
ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
مگر یہ مسئلہِ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بے چارہ زن شناس نہیں
یعنی اقبالؒ کہتے ہیں کہ عورت کے مقام کو سمجھنے میں دنیا نے ہمیشہ افراط و تفریط کی راہ اختیار کی، ہزار بار حکیم اور دانا لوگوں نے یہ مسئلہ سلجھانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں، خرابی کی وجہ اور ہے۔ عورت کی شرافت پر تو چاند تارے گواہی دے رہے ہیں البتہ فرنگی معاشرت میں اور رہنے بسنے میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یورپ کے مرد کی سادگی اور کم فہمی ہے۔ وہ عورت کو پہچانتا نہیں، نہ اس کے مقام کا اسے ادراک ہے، نہ اس کی فطرت کوجانتا ہے۔
لہٰذا عورت کی مشکلات کا حل بھی اس کے پاس نہیں ہے۔ اسلام عورت کے مقام اور مرتبے کا درست تعین کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثالی معاشرے میں عورت کو بنیاد قرار دیا۔ آپؐ نے عورت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے زندگی کی راحتوں، مسرتوں اور رحمتوں سے ہم کنارکیا۔ عورت کو ہر معاشرتی کام کی آزادی دی۔ عورت کے حقوق اور معاملات کی ایسی اصلاح کی کہ صدیوں سے ظلم و ستم کا شکار عورت کی قدر و منزلت بے پناہ بڑھی۔ آج بھی عورت کے لیے اسلام کے دامن میں ہی پناہ ہے۔
قرآن جس طرح عورتوں کے حقوق بیان کرتا ہے، نومسلم ایوان ریڈلے اسے خواتین کا ’’میگنا کارٹا‘‘ قرار دیتی ہیں کہ مردوں کو عورتوں کی حفاظت اور پناہ کا ذمے دار بنایا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کی اسمبلیوں میں 33 فیصد نمائندگی، دفاتر اور بازاروں میں ان کا سجاوٹی اشیا کی طرح استعمال، حقوقِ نسواں پر نئی قانون سازیاں خواتین کے حالات میں تبدیلی نہیں لاسکتیں۔ اصل تبدیلی خاندان، خصوصاً مردوں کی قرآن کے احکامات سے واقفیت سے آئے گی جس کے لیے ہر ماں کو حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اسوہ کے مطابق عمل کرنا ہوگا، تب ہی تربیت کا فیض مردوں کو نگہبانیِ نسوانیت کے آداب و رموز سکھائے گا۔ اقبال برسوں پہلے کیا خوب کہہ گئے ہیں:
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میںہے لہو سرد
نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد