’’مان‘‘

276

سنو! یہ جو تم ہو نا… بہت قیمتی ہو، نازک آبگینہ ہو، رنگِ کائنات ہو، سیپ میں بند موتی ہو، شرم و حیا کا پیکر ہو، ماں باپ کی آنکھوں کا نور ہو، بھائیوں کے دل کا سرور ہو۔
سنو! وہ جو خالقِ کائنات ہے نا… اس نے تمہیں وقار بخشا ہے، تمہیں بہت خاص بنایا ہے، اسی لیے تو تمہیں مستور رہنے کا حکم دیا ہے کہ تم بہت خاص ہو… کہ ہر خاص اور قیمتی شے کو محفوظ رکھا جاتا ہے جیسے نایاب نگینوں کو مخمل کی ڈبیا میں، نایاب قیمتی موتی سیپ میں بند ہوتا ہے۔
تو اپنے وقار کو، اپنی پہچان کو سنبھال رکھنا… سنبھل کے چلنا… تمہیں آگے بڑھنے سے روکا نہیں گیا مگر حدود بتادی گئیں جو تمہاری حفاظت کے لیے ہیں کہ کہیں شیطان اپنی چال نہ چل جائے۔ شیطان جس کا کام ہی بے حیائی کے راستے کو خوب صورت بناکر پیش کرنا ہے، جو تم سے تمہارا وقار چھین لینا چاہتا ہے، تم سے تمھارا اپنا آپ چھین لینا چاہتا ہے… تمہیں نت نئے سپنے دکھاتا ہے، وہ تمہیں پھانسنے کے لیے مکڑی کا جالا بُنتا ہے۔ تم جو انمول ہو، وقار ہو اُمتِ مسلمہ کا… آنے والی نسلوں کی امین ہو۔ تم سے تمہارا رتبہ جو ربِ کائنات نے تمہیں تفویض کیا ہے، چھین لینا چاہتا ہے۔ مگر تمہیں بہادر بننا ہے… شیطان کے جال میں پھنسنا نہیں بلکہ دامن بچا کر چلنا ہے۔ جو تمہارے محرم ہیں وہ تمہارے سائبان ہیں، اُن سے گریز نہیں کرنا، ان کا مان رکھنا ہے… ان کی چھتری کی چھاؤں ہی میں حیات ہے… باقی سب مات ہے… سنو! مان رکھنا۔

حصہ