میں نے کہا۔ ’’بشپ آج صبح چند راہبوں کے ساتھ ہمارے پاس آیا تھا اور اس نے میری بیٹی کو رہبانیت اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن میں نے انکار کردیا اور وہ مجھے دھمکیاں دے کر چلے گئے‘‘۔
پطیوس نے جواب دیا۔ ’’مجھے معلوم ہے۔ میں بشپ میںسے مل چکا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ اِس وقت مجھے آپ کے پاس آنا پڑا۔ اب میری باتیں غور سے سنیے۔ میں نے بشپ کو یہ بات سمجھائی تھی کہ آپ ایک دولت مند اور بااثر ایرانی جرنیل کی بیوی ہیں۔ اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ ایران کی فوجیں کہاں پہنچ کر دم لیں گی۔ لیکن اگر آپ سین کی بیوی اور بیٹی کو پناہ دے سکیں تو ممکن ہے کہ وہ آپ کو شکرگزار ہو اور اگر خدانخواستہ یروشلم کو کوئی خطرہ پیش آئے تو وہ آپ کے احسان کے بدلے ہمارے گرجوں اور خانقاہوں پر کوئی زیادتی نہ ہونے دے۔ اگر یروشلم کو کوئی خطرہ پیش نہ آئے تو بھی ایک ؟؟؟ عورت کی جان بچا کر آپ نیک کاموں کے لیے اُس سے خاصی دولت حاصل کرسکیں گے۔ بشپ نے پہلے تو یہ کہہ کر میری درخواست رد کردی کہ مجھے ایک ایرانی کی بیوی کی موت وحیات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن میں نے اُسے یہ سمجھایا کہ فوکاس کے قتل کے بعد قسطنطنیہ میں ایک نیا انقلاب آچکا ہے۔ اور ہر قل کے برسراقتدار آنے سے جہاں روم اور ایران میں صلح کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ وہاں یہ بات بھی یقینی معلوم ہوتی ہے کہ سین جسے فوکاس نے قید کیا تھا بہت جلد رہا کردیا جائے گا۔ وہ پرویز کا خاص آدمی ہے اور اُس کی بیوی کے ساتھ کوئی زیادتی اُس کے لیے ناقابل برداشت ہوگی۔ اور نیا قیصر بھی شاید اسے اچھا نہیں سمجھے گا۔
میری باتیں بشپ کے دل میں بیٹھ گئیں اور وہ آپ کے پاس آنے کے لیے تیار ہوگیا لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ فسطینہ کو راہبہ بننے کی ترغیب دے گا۔ بہرحال اب یہ ضروری ہے کہ آپ کو یہاں سے نکالا جائے۔ میں انڈرونیکس سے بھی ملا تھا۔ اُسے فوکاس نے یروشلم کا حاکم بنا کر بھیجا تھا اور وہ اپنے سرپرست کی موت پر سخت پریشان ہے۔ میں نے اُسے بھی یہی بات سمجھائی تھی کہ اگر ہر قل صلح کا خواہش مند ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ سین کو فوراً رہا کردے گا ممکن ہے کہ اب تک وہ قسطنطنیہ سے مصالحت کی تجاویز لے کر پرویز کے پاس پہنچ بھی چکا ہو۔ ان حالات میں آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ سین کے خسر کی دشمنی مول لینا آپ کے لیے کس قدر خطرناک ثابت ہوگا۔ اُس نے پریشان ہو کر پوچھا کہ پھر مجھے کیا کرنا چاہیے اور میں نے اُسے سمجھایا کہ ہمیں سین کی بیوی اور بیٹی کو خانقاہ میں بھیج کر وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔ وہاں راہب آپ کی طرف سے اُس کا دل صاف کرنے کی کوشش کریں گے اور اُن سے یہ حلف لینا مشکل ہوگا کہ وہ آپ کے خلاف زبان نہیں کھولیں گی۔
کل بشپ دوبارہ آپ کے پاس آئے گا۔ آپ غروب آفتاب تک اُسے باتوں میں مصروف رکھیں اور اس کے بعد اُس کے ساتھ خانقاہ میں چلی جائیں۔ وہ خانقاہ، جہاں آپ کو ٹھہرانے کا انتظام کیا جائے گا، شہر کے باہر ہے۔ جب آپ خانقاہ سے کچھ دور ہوں گی تو آپ کے محافظوں پر اچانک حملہ ہوگا۔ حملہ کرنے والوں میں سے دو آدمی آپ کو گھوڑوں پر سوار کرکے چند میل دور ایک سرائے کے دروازے پر پہنچادیں گے۔ اِس سرائے کا مالک میرا دوست ہے اور اُسے آپ کی حفاظت کے لیے ضروری ہدایات بھیج دی جائیں گی۔ باقی آدمی بشپ اور راہبوں کو اپنے گھوڑوں پر لاد کر کوسوں دور کسی اور راستے پر چھوڑ آئیں گے۔ اس کے بعد جب وہ واپس آئیں گے تو میرا کام یہ ہوگا کہ آپ کو غلط راستوں پر تلاش کیا جائے۔ میں آپ کے نوکر کے لیے کچھ نہیں کرسکا، لیکن ممکن ہے کہ آپ کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد میں اُس کے متعلق سوچ سکوں۔ کل تک آپ کا یہاں سے نکل جانا اس لیے ضروری ہے کہ مستقبل کے متعلق وثوق سے کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔ ممکن ہے آپ کا نوکر آپ کے خلاف کوئی بیان دینے پر تیار ہوجائے اور انڈرونیکس کسی تاخیر کے بغیر آپ کی قسمت کا فیصلہ کردے یہ بھی ممکن ہے ایران اور روم کی صلح نہ ہوسکے اور یہاں کے عوام آپ کے خون کے پیاسے ہوجائیں۔ پھر آپ یہ بھی نہیں چاہتیں کہ خانقاہ میں پہنچ کر آپ کی بیٹی ایک راہبہ بن جائے اور سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انڈرونیکس بزدل بھی ہے اور ظالم بھی اور میں ایسے آدمی پرکوئی اعتبار نہیں کرسکتا۔ اب میں آپ سے دوبارہ نہیں مل سکوں گا۔ اور میرا آپ سے ملاقات کرنا ٹھیک بھی نہیں۔ میں بشپ کو یہ بات سمجھا چکا ہوں کہ عوام کے اشتعال سے بچنے کے لیے آپ کو دن کے بجائے رات کی تاریکی میں یہاں سے لے جانا بہتر ہوگا۔ کل میں اُسے آپ کے پاس بھیجنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’راستے میں ہم پر حملہ کرنے والے کون ہوں گے؟‘‘۔
اُس نے جواب دیا۔ ’’آپ کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر آپ کو میرے متعلق کوئی پریشانی ہے تو یہ اطمینان رکھیے کہ وہ سپاہیوں کے لباس میں نہیں ہوں گے‘‘۔
پطیوس ہمیں یہ باتیں سمجھا کر چلا گیا۔ اگلی رات بارش ہورہی تھی اور بشپ اور اُن کے ساتھیوں کو خاصی دیر ہمارے گھر بیٹھنا پڑا۔ بالآخر اُس نے یہ مشورہ دیا کہ ہمیں خانقاہ میں جانے کا ارادہ اگلے دن پر ملتوی کردینا چاہیے۔ لیکن میں نے گڑگڑا کر التجا کی کل تک شاید شہر کے مشتعل عوام ہمارے گھر پر حملہ کردیں اور یہ لوگ ہمیں ساتھ لے جانے پر مجبور ہوگئے۔ باقی داستان شاید آپ کے لیے دلچسپ نہ ہو۔ شہر اور خانقاہ کے درمیان جن آدمیوں نے ہم پر حملہ کیا تھا ان کے چہروں پر نقاب تھے۔ انہوں نے آن کی آن میں بشپ اور اُن کے ساتھیوں کو باندھ کر اپنے گھوڑوں پر ڈال لیا۔ اور انہوں نے اُف تک نہ کی۔ اب ہم تمہارے رحم و کرم پر ہیں‘‘۔
عاصم نے اُٹھ کر چند لکڑیاں الائو پر ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’معزز خاتون! میں آپ کا احسان مند ہوں کہ آپ نے مجھے قابل اعتماد سمجھا اور میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ آپ مجھے اعتماد کے قابل پائیں گی۔ اب آپ اطمینان سے سوجائیے‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’نہیں! مجھے نیند نہیں آئے گی۔ آپ سوجائیں! آپ نے دوپہر کے وقت بھی آرام نہیں کیا‘‘۔
عاصم نے ایک طرف ہٹ کر لیٹتے ہوئے کہا۔ ’’اگر آپ کوئی خطرہ محسوس کریں تو مجھے جگادیں‘‘۔
باب ۱۵
رات کے تیسرے پہر فسطینہ اچانک گہری نیند سے بیدار ہوئی۔ یوسیبیا اس کے قریب بیٹھی اونگھ رہی تھی۔
’’امی! آپ ابھی تک نہیں سوئیں؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
ماں نے تھکی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ ’’بیٹی رات کے وقت اِس ویرانے میں، ہم میں سے کسی ایک کا جاگتے رہنا ضروری تھا‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’میری نیند پوری ہوچکی ہے، اب آپ سوجائیں‘‘۔
یوسیبیا لیٹ گئی، فسطینہ نے الائو میں لکڑیاں ڈالیں اور آگ کے قریب بیٹھ گئی۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’بیٹی میں یہ چاہتی ہوں کہ ہمارا ساتھی اچھی طرح آرام کرے لیکن اگر تمہیں نیند آجائے تو اسے جگادینا‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’امی فکر نہ کیجیے۔ اب مجھے نیند نہیں آئے گی‘‘۔
تھوڑی دیر بعد یوسیبیا گہری نیند سو رہی تھی اور فسطینہ پریشانی اور خوف کی حالت میں اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ رات کے سناٹے میں کبھی کبھی بھیڑیوں کی آوازیں سنائی دیتیں اور اُس کا دل دھڑکنے لگتا۔ پھر فضا پر خاموشی چھا جاتی اور اُسے ایسا محسوس ہوتا کہ آس پاس ریت کے ٹیلوں اور جھاڑیوں کی آڑ سے اچانک لاتعداد دشمن نمودار ہوں گے اور اُن پر حملہ کردیں گے۔ کبھی کبھی وہ حوصلے سے کام لے کر اُٹھتی اور چاروں طرف نگاہ دوڑانے کے بعد دوبارہ بیٹھ جاتی۔ تنہائی، خوف اور بے بسی کے احساس سے اُس کا دم گھٹا جارہا تھا۔ تاہم جب وہ آگ کی روشنی میں عاصم کا چہرہ دیکھتی تو اُسے ایک طرح کی تسکین محسوس ہونے لگتی۔ اُس نے بچپن میں اپنے ایرانی نوکروں سے سنا تھا کہ درندے آگ کے قریب نہیں آتے۔
چنانچہ اُس نے تھوڑی دیر میں تمام ایندھن جو عاصم نے جمع کیا تھا اُٹھا اُٹھا کر الائو میں ڈال دیا تھا۔ اب وہ اِس بات سے پریشان ہورہی تھی کہ آگ کے بلند شعلے دور دور سے نظر آسکتے ہیں۔
اچانک عاصم کا گھوڑا کان کھڑے کرکے زمین پر پائوں مارنے لگا اور اُس کے نتھنوں سے کُھر کُھر کی آواز سنائی دینے لگی۔ پھر دوسرے گھوڑے بھی بدحواسی کا مظاہرہ کرنے لگے۔ فسطینہ دم بخود ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ اُسے بائیں ہاتھ ایک ٹیلے کے نشیب میں کوئی متحرک شئے دکھائی دی اور ایک ثانیے کے لیے اُس کا خون رگوں میں منجمد ہو کر رہ گیا۔ پھر اُس کا مدافعانہ شعور بیدار ہونے لگا اور وہ زمین پر بیٹھے بیٹھے عاصم کی طرف کھسکنے لگی… دہشت سے کانپتے ہوئے اُس نے عاصم کا بازو پکڑ کر ہلایا۔ عاصم نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں اور کسی توقف کے بغیر تلوار سنبھال کر کھڑا ہوگیا۔
’’بھیڑیے! بھیڑیے!‘‘ فسطینہ نے ٹیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
عاصم نے ٹیلے کی طرف دیکھتے ہوئے اطمینان سے کہا۔ ’’مجھے آپ نے پریشان کردیا تھا۔ میں سمجھا آپ کے دشمن پہنچ گئے ہیں‘‘۔
فسطینہ نے جلدی سے کمان اور ترکش اُٹھا کر عاصم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو بھیڑیے نظر آتے، دیکھیے وہ سامنے کھڑے ہیں اُس جھاڑی کے بالکل قریب‘‘۔
عاصم نے فسطینہ کے ہاتھ سے کمان اور ترکش لینے کے بجائے ایک جلتی ہوئی لکڑی اُٹھا کر ٹیلے کی طرف پھینک دی اور کہا۔ ’’دیکھیے، وہ بھاگ گئے ہیں اب آپ اطمینان سے سوجائیے‘‘۔
وہ بدحواس ہو کر بولی۔ ’’آپ کے خیال میں وہ بھیڑیے نہیں تھے۔ ابھی ہمارے گھوڑے اُن کے ڈر سے رسّے تُڑا رہے تھے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا: ’’ہاں، ہاں وہ بھیڑیے ہی تھے لیکن صرف دو تھے‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ اُن کے کئی اور ساتھی ان ٹیلوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ انہوں نے صرف آگ کی وجہ سے ہم پر حملہ نہیں کیا لیکن میں نے تمام لکڑیاں جلادی ہیں‘‘۔
عاصم نے پریشان ہو کر پوچھا۔ ’’آپ ساری رات جاگتی رہی ہیں؟‘‘
’’نہیں میں اپنی نیند پوری کرچکی ہوں۔ جب میں بیدار ہوئی تھی تو امی جان بیٹھی ہوئی تھیں‘‘۔
عاصم نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’خاصی رات گزر چکی ہے۔ ہمیں تھوری دیر میں یہاں سے کوچ کردینا چاہیے‘‘۔ وہ بولی۔ ’’آپ کو یقین ہے کہ بھیڑیے اب زیادہ تعداد میں جمع ہوکر ہم پر حملہ نہیں کریں گے؟‘‘۔
عاصم نے الائو کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ اطمینان رکھیے! اگر اس جنگل کے تمام بھیڑیے آجائیں تو بھی میں آپ کی حفاظت کرسکوں گا‘‘۔
فسطینہ مطمئن سی ہو کر اُس کے قریب بیٹھ گئی اور قدرے توقف کے بعد بولی۔ ’’آپ کبھی بھیڑیوں سے لڑے ہیں؟‘‘۔
’’نہیں‘‘ اُس نے جواب دیا۔ ’’آج تک میرا بھیڑیوں سے واسطہ نہیں پڑا۔ میں صرف اُن انسانوں کو خطرناک سمجھتا ہوں جو بلاوجہ ایک دوسرے کا خون بہانے کے لیے بے چین رہتے ہیں‘‘۔
’’آپ نے کبھی انسانوں سے جنگ کی ہے؟‘‘۔
’’ہاں! لیکن اب میں انسانی خون کی پیاس محسوس نہیں کرتا‘‘۔
فسطینہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’جب آپ سو رہے تھے تو مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ انڈرونیکس کے آدمی ان جھاڑیوں اور ٹیلوں کی آڑ سے ہمارے گرد گھیرا ڈال رہے ہیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ اگر پندرہ بیس آدمی اچانک ہم پر حملہ کردیں تو آپ کیا کریں گے‘‘۔
عاصم بولا۔ ’’آپ نے سوچا ہوگا کہ میں بھاگ جائوں گا‘‘۔
’’نہیں‘‘۔ اُس نے عاصم کے چہرے پر آنکھیں گاڑتے ہوئے کہا۔ ’’میں صرف یہ سوچ رہی تھی کہ ایک عرب جس کا کل تک ہم سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا اتنا رحم دل کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ہماری خاطر اپنی جان خطرے میں ڈال دے‘‘۔
عاصم نے مغموم لہجے میں کہا۔ ’’کل تک مجھے بھی یہ معلوم نہ تھا کہ میری زندگی کسی کے کام آسکتی ہے‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ ہماری طرح آپ بھی کسی مصیبت سے گزر چکے ہیں‘‘۔
عاصم نے فسطینہ کی طرف دیکھا اور اُسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ اُن کے درمیان اجنبیت کی دیواریں ٹوٹ رہی ہیں۔ پھر اچانک اُسے ایک گھبراہٹ سی محسوس ہونے لگی اور اُس نے کہا۔ ’’میرا خیال ہے اگر ہم طلوع آفتاب سے پہلے چند کوس اور طے کرلیتے تو اچھا ہوتا، ہمارے گھوڑے بھوکے ہیں اور ہمیں کسی ایسی جگہ پہنچ کر دم لینا چاہیے جہاں انہیں چارا مل سکے۔ آپ اپنی والدہ کو جگادیں۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ہم جس قدر یروشلم سے دور ہوں گے اُسی قدر محفوظ ہوں گے‘‘۔
(جاری ہے)