حج کا عالمگیر اجتماع حج کے ثمرات

302

-1 عالم اسلام میں حرکت:
برادرانِ اسلام! آپ جانتے ہیں کہ ایسے مسلمان جن پر حج فرض ہے‘ یعنی جو کعبہ تک آنے جانے کی قدرت رکھتے ہیں‘ ایک دو توہوتے نہیں ہیں۔ ہر بستی میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔ ہر شہر میں ہزاروں اور ہر ملک میں لاکھوں ہی ہوتے ہیں‘ اور ہر سال ان میں سے بہت سے لوگ حج کا ارادہ کرکے نکلتے ہیں۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ دنیا کے کونے کونے میں جہاں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں‘ حج کا موسم آنے کے ساتھ ہی کس طرح اسلام کی زندگی جاگ اٹھتی ہے‘ کیسی کچھ حرکت پیدا ہوتی ہے اور کتنی دیر تک رہتی ہے۔ تقریباً رمضان کے مہینے سے لے کر ذی القدہ تک دنیا کے مختلف حصوں سے مختلف لوگ حج کی تیاریاں کرکے نکلتے ہیں اور اُدھر ذی الحج کے آخر سے صفر‘ ربیع الاوّل بلکہ ربیع الثانی تک واپسی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس چھ سات مہینے کی مدت تک گویا مسلسل روئے زمین کی مسلمان آبادیوں میں ایک طرح کی دینی حرکت جاری رہتی ہے۔ جو لوگ حج کو جاتے اور حج سے واپس آتے ہیں‘ وہ تو دینی کیفیت میں سرشار ہوتے ہی ہیں‘ مگر جو نہیں جاتے ان کو بھی حاجیوں کے رخصت کرنے اور ایک ایک بستی سے اُن کے گزرنے اور پھر واپسی پر اُن کا استقبال کرنے اور ان سے حج کے حالات سننے کی وجہ سے تھوڑا یا بہت اس کیفیت کا کچھ نہ کچھ حصہ مل ہی جاتا ہے۔
-2 پرہیزگاری اور تقویٰ کی افزائش:
جب ایک ایک حاجی حج کی نیت کرتا ہے اور اس نیت کے ساتھ ہی اس پر خوفِ خدا اور پرہیزگاری اور توبہ و استغفار اور نیک اخلاقی کے اثرات چھانے شروع ہوتے ہیں اور وہ اپنے عزیزوں‘ دوستوں‘ معاملہ داروں اور ہر قسم کے متعلقین سے اس طرح رخصت ہوتا اور اپنے معاملات صاف کرنا شروع کرتا ہے کہ گویا اب یہ وہ پہلا شا شخص نہیں ہے‘ بلکہ خدا کی طرف لو لگ جانے کی وجہ سے اس کا دل پاک صاف ہو رہا ہے‘ تو اندازہ کیجیے کہ ایک حاجی کی اس حالت کا کتنے کتنے لوگوں پر اثر پڑتا ہوگا اور اگر ہر سال دنیا کے مختلف حصوں میں ایک لاکھ آدمی بھی اوسطاً اس طرح حج کے لیے تیار ہوتے ہوں تو ان کی تاثیر کتنے لاکھ آدمیوں کے اخلاق تک پہنچتی ہوگی۔ پھر حاجیوں کے قافلے جہاں جہاں سے گزرتے ہوںگے‘ وہاں ان کو دیکھ کر‘ ان سے مل کر ان کی لبیک لبیک کی آوازیں سن کر کتنوں کے دل گرما جاتے ہوںگے‘ کتنوں کی توجہ اللہ کی طرف اور اللہ کے گھر کی طرف پھر جاتی ہوگی‘ اور کتنوں کی سوئی ہوئی روح میں حج کے شوق سے حرکت پیدا ہو جاتی ہوگی۔ پھرجب یہ لوگ اپنے مرکز سے پھر کر اپنی اپنی بستیوں کی طرف دنیا کے مختلف حصوں میں حج کی کیفیتوں کا خمار لیے ہوئے پلٹتے ہوںگے اور لوگ ان سے ملاقات کرتے ہوں گے تو ان کی زبانِ حال اور زبانِ قال سے اللہ کے گھر کا ذکر سن کر کتنے بے شمار حلقوں میں دینی جذبات تازہ ہو جاتے ہوںگے۔
-3 عالمِِ اسلامی کی بیداری کا موسم:
پس اگرمیں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ جس طرح رمضان کا مہینہ تمام اسلامی دنیا میں تقویٰ کا موسم ہے‘ اسی طرح حج کا زمانہ تمام روئے زمین میں اسلام کی زندگی اور بیداری کا زمانہ ہے۔ اس طریقے سے شریعت بنانے والے حکیم و دانا نے ایسا بے نظیر انتظام کر دیا ہے کہ انشاء اللہ قیامت تک اسلام کی عالم گیر تحریک مٹ نہیں سکتی۔ دنیا کے حالات خواہ کتنے ہی بگڑ جائیں اور زمانہ کتنا ہی خراب ہو جائے‘ مگر یہ کعبے کا مرکز اسلامی دنیا کے جسم میں کچھ اس طرح رکھ گیا ہے جیسے آدمی کے جسم میں دل ہوتا ہے۔ جب تک دل حرکت کرتا رہے‘ آدمی مر نہیں سکتا‘ چاہے بیماریوں کی وجہ سے وہ ہلنے تک کی طاقت نہ رکھتا ہو‘ بالکل اسی طرح دنیا کا یہ دل بھی ہر سال اس کی دور دراز رگوں تک سے خون کھینچتا رہتا ہے اور پھر اس کو رگ رگ تک پھیلا دیتا ہے۔ جب تک اس دل کی یہ حرکت جاری ہے اور جب تک خون کے کھینچنے اور پھیلنے کا یہ سلسلہ چل رہا ہے‘ اس وقت تک یہ بالکل محال ہے کہ اس جسم کی زندگی ختم ہو جائے‘ خواہ بیماریوں سے یہ کتنا ہی زار و نزار ہو۔
-4 وحدتِ ملت کا پُر کیف نظارہ:
ذرا آنکھیں بند کرکے اپنے دل میں اس نقشے کا تصور توکیجیے کہ ادھر مشرق سے‘ ادھر جنوب سے‘ ادھر مغرب سے‘ ادھر شمال سے اَن گنت قوموں اور بے شمار ملکوں کے لوگ ہزاروں راستوں سے ایک ہی مرکز کی طرف چلے آرہے ہیں۔ شکلیں اور صورتیں مختلف ہیں‘ رنگ مختلف ہیں‘ زبانیں مختلف ہیں‘ مگر مرکز کے قریب ایک خاص حد پر پہنچتے ہی سب اپنے اپنے قومی لباس اتار دیتے ہیں اور سارے کے سارے ایک ہی طرز کا سادہ یونیفارم پہن لیتے ہیں۔ احرام کا یہ یونیفارم پہننے کے بعداعلانیہ یہ معلوم ہونے لگتا ہے کہ سلطانِِ عالم اور بادشاہِ زمین و آسمان کی یہ فوج‘ جو دنیا کی ہزاروں قوموں سے بھرتی ہو کر آرہی ہے‘ ایک ہی بادشاہ کی فوج ہے‘ ایک ہی اطاعت و بندگی کا نشان ان سب پر لگا ہوا ہے‘ ایک ہی وفاداری کے رشتے میں یہ سب بندھے ہوئے ہیں اور ایک ہی دارالسلطنت کی طرف اپنے بادشاہ کے ملاحظے میں پیش ہونے کے لیے جارہے ہیں۔ یہ یونیفارم پہنے ہوئے سپاہی جب میقات سے آگے چلتے ہیں تو ان سب کی زبانوں سے ایک ہی نعرہ بلند ہوتا ہے ’’حاضر ہیں پروردگار! ہم حاضر ہیں۔ تیرا کوئی شریک نہیں‘ ہم حاضر ہیں۔‘‘
بولنے کی زبانیں سب کی مختلف ہیں‘ مگر نعرہ سب کا ایک ہی ہے۔ پھر جوں جوںمرکز قریب آجاتا جاتا ہے‘ دائرہ سمٹ کر چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔ مختلف ملکوں کے قافلے ملتے چلے جاتے ہیں اور سب کے سب ملکر نمازیں ایک ہی طرز پر پڑھتے ہیں۔ سب کا ایک یونیفارم‘ سب کا ایک امام‘ سب کی ایک ہی حرکت‘ سب کی ایک ہی زبان‘ سب ایک اللہ اکبر کے ہی اشارے پر اٹھتے اور بیٹھتے اور رکوع اور سجدہ کرتے ہیں‘ اور سب اسی ایک قرآنِ عربی کو پڑھتے اور سنتے ہیں۔ یوں زبانوں اور قومیتوں اور وطنوں اور نسلوں کا ایک اختلاف ٹوٹتا ہے اور یوں خدا پرستوں کی ایک عالمگیر جماعت بنتی ہے۔ پھر جب یہ قافلے یک زبان کو کر لبیک لبیک کے نعرے بلند کرتے ہوئے چلتے ہیں‘ جب ہر بلندی اور ہر پستی پر یہی نعرے لگتے ہیں‘ جب قافلوں کے ایک دوسرے سے ملنے کے وقت دونوں طرف سے یہی صدائیں اٹھتی ہیں‘ جب نمازوں کے وقت اور صبح کے تڑکے میں یہی آوازیں گونجتی ہیں تو ایک عجیب فضا پیدا ہو جاتی ہے جس کے نشے میں آدمی سرشار ہو کر اپنی خودی کو بھول جاتا ہے اور اس لبیک کی کیفیت میں جذب ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر کعبے پہنچ کر تمام دنیا سے آئے ہوئے آدمیوں کا ایک لباس میں ایک مرکز کے گرد گھومنا‘ پھر سب کا ایک ساتھ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا‘ پھر سب کا منیٰ میں کیمپ لگانا‘ پھر سب کاعرفات کی طرف کوچ کرنا اور وہاں ایک امام سے خطبہ سننا‘ پھر سب کا مزدلفہ میںرات کو چھائونی ڈالنا‘ پھر سب کا ایک ساتھ منیٰ کی طرف پلٹنا‘ پھر سب کا متفق ہو کر جمرۂ عقبہ پر کنکریوں کی چاند ماری کرنا‘ پھر سب کا قربانیاں کرنا‘ پھر سب کا ایک ساتھ کعبے کی طرف پلٹ کر طواف کرنا‘ پھر سب کا ایک ہی مرکز کے اردگرد نماز پڑھنا‘ یہ اپنے اندر وہ کیفیت رکھتا ہے جس کی نظیر دنیا میں ناپید ہے۔
-5 ایک مقصد‘ ایک مرکزی پر اجتماع:
دنیا بھر کی قوموں سے نکلے ہوئے لوگوں کا ایک مرکز پر اجتماع‘ اور وہ بھی ایسی یک دلی یک جہتی کے ساتھ‘ ایسی ہم خیالی و ہم آہنگی کے ساتھ‘ ایسے پاک جذبات‘ پاک مقاصد اور پاک اعمال کی ساتھ‘ حقیقت میں اتنی بڑی نعمت ہے جو آدمؑ کی اولاد کو اسلام کے سوا کسی نے نہیںدی۔ دنیا کی قومیں ہمیشہ ایک دوسرے ملتی رہی ہیں‘ مگر کس طرح؟ میدانِ جنگ میںگلے کاٹنے کے لیے یا صلح کانفرنسوں میں‘ ملکوںکی تقسیم اور قوموں کے بٹوارے کے لیے یا مجلسِ اقوام متحدہ میں تاکہ ہر قوم دوسری قوم کے خلاف دھوکے‘ فریب‘ سازش اور بے ایمانیوں کے جال پھیلائے اور دوسرے کے نقصان سے اپنا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ تمام قوموں کے عام لوگوں کا صاف دلی کے ساتھ ملنا‘ نیک اخلاق اور پاک خیالات کے ساتھ ملنا‘ محبت اور خلوص کے ساتھ ملنا‘ قلبی و روحانی اتحاد کے ساتھ ملنا‘ خیالات‘ اعمال اور مقاصد کی یک جہتی کے ساتھ ملنا اور صرف ایک ہی دفعہ مل کر نہ رہ جانا‘ بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہر سال ایک مرکز پر اسی طرح اکٹھے ہوتے رہنا‘ کیا یہ نعمت اسلام کے سوا بنی نوع انسان کو اور بھی کہیں ملتی ہے؟ دنیا میں امن قائم کرنے‘ قوموں کی دشمنیوں کو مٹانے اور لڑائی جھگڑوں کے بجائے محبت‘ دوستی اور برادری کی فضا پیدا کرنے کے لیے اس سے بہتر نسخہ کس نے تجویز کیا ہے؟
-6 قیامِ امن کی سب سے بڑی تحریک:
اسلام صرف اتنا ہی نہیں کرتا ‘اس سے بڑھ کر یہاںاور بہت کچھ ہے۔ اس نے لازم کیا ہے کہ سال کے چار مہینے جو حج اور عمرے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں‘ ان میں کوشش کی جائے کہ کعبے طرف آنے والے تمام راستوں میں امن قائم رہے۔ یہ دنیا میں امن قائم رکھنے کی سب سے بری دوامی تحریک ہے اور اگر دنیا کی سیاست کی باگیں اسلام کے ہاتھ میں ہوں تو مسلمانوں کی پوری کوشش یہ ہوگی کہ دنیا میں ایسی بدامنی برپا نہ ہونے پائے جس سے حج اور عمرے کا نظام معطل ہو جائے۔
-7 دنیا میں واحد مرکزِ امن:
اس نے دنیا کو ایک ایسا حرم دیا ہے جو قیامت تک کے لیے امن کا شہر ہے۔ جس میں آدمی تو کیا جانور تک کا شکار نہیں کیا جاسکتا‘ جس میں گھاس تک کاٹنے کی اجازت نہیں‘ جس کی زمین کا کانٹا تک نہیں توڑا جاسکتا‘ جس میں حکم ہے کہ کسی کی کوئی چیز گری پری ہو تو اسے ہاتھ نہ لگائو۔ اس نے دنیاکو ایک ایسا شہر دیا جس میں ہتھیار لانے کی ممانعت ہے‘ جس میں غلّے کو اور دوسری عام ضرورت کی چیزوں کو روک کر مہنگا کرنا الحاد کی حد تک پہنچ جاتا ہے‘ جس میں ظلم کرنے والے کو اللہ نے دھمکی دی ہے ’’ہم اسے درد ناک سزا دیں گے۔‘‘ (الحج 25:22)
-8 حقیقی مساوات کا مرکز:
اُس نے دنیا کو ایک ایسا مرکز دیا ہے جس کی تعریف یہ ہے کہ سَوَآئَ الْعَاکِفُ فِیہِ وَالْبَادِیعنی وہاں اُن تمام انسانوں کے حقوق بالکل برابر ہیں جو خدا کی بادشاہت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کرکے اسلام کی برادری میں داخل ہو جائیں‘ خواہ کوئی شخص امریکا کا رہنے والا ہو یا افریقہ کا‘ چین کا ہو یا ہندوستان‘ اگر وہ مسلمان ہو جائے تو مکہ کی زمین پر اُس کے وہی حقوق ہیں جو خود مکہ والوںکے ہیں۔ پورے حرم کے علاقے کی حیثیت گویا مسجد کی سی حیثیت ہے کہ جو شخص مسجد میں جا کر کسی جگہ اپنا ڈیرہ جما دے وہ جگہ اسی کی ہے‘ کوئی اس کو وہاں سے اٹھا نہیں سکتا‘ نہ اس سے کرایہ مانگ سکتا ہے‘ مگر وہ اس جگہ خواہ تمام عمر بیٹھا رہا ہو‘ اسے یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ یہ جگہ میری مِلک ہے‘نہ وہ اس کو بیچ سکتا ہے‘ نہ اس کا کرایہ وصول کر سکتا ہے‘ حتیٰ کہ جب وہ شخص اس جگہ سے اُٹھ جائے تو دوسرے کو بھی وہاں ڈیرہ جمانے کا ویسا ہی حق ہے جیسا اُس کو تھا۔ بالکل یہی حال پورے مکہ کے حرم کا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’جو شخص اس شہر میں کسی جگہ آکر پہلے اتر جائے‘ وہ جگہ اُسی کی ہے۔‘‘ (ابو دائود) وہاں کے مکانوں کا کرایہ لینا جائز نہیں ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں کے لوگوں کو حکم دیا تھا کہ اپنے مکانات کے گرد صحنوں پر دروازے نہ لگائو تاکہ جو چاہے تمہارے صحن میں آگر ٹھہر سکے۔ بعض فقہا نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شہر مکہ کے مکانات پر نہ کسی کی ملکیت ہے اور نہ وہ وراثت میں منتقل ہو سکتے ہیں۔
کیا اسلام کے سوا یہ نعمتیں انسان کو کہیں اور بھی مل سکتی ہیں؟
بھائیو! یہ ہے وہ حج جس کے متعلق فرمایا گیا تھا کہ اسے کرکے دیکھو‘ اس میں تمہارے لیے کتنے منافع ہیں۔ میری زبان میں اتنی قدرت نہیں کہ اس کے سارے منافع گِنا سکوں‘ تاہم اس کے فائدوں کا یہ ذرا سا خاکہ جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ہے‘ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے۔
ہماری قدر ناشناسی:
یہ سب کچھ سننے کے بعد ذرا میرے جلے دل کی کچھ باتیں سن لو۔ تم نسلی مسلمانوں کا حال اُس بچے کا سا ہے جو ہیرے کی کان میں پیدا ہوا ہے۔ ایسا بچہ جب ہر طرف ہیرے ہی ہیرے دیکھتا ہے اور پتھروں کی طرح ہیروں سے کھیلتاہے تو ہیرے اس کی نگاہ میں ایسے ہی بے قدر ہو جاتے ہیں جیسے پتھر۔ یہی حالت تمہاری بھی ہے کہ دنیا جن نعمتوںسے محروم ہے‘ جن سے محروم ہو کر سخصت مصیبتیں اور تکلیفیں اٹھا رہی ہے اور جن کی تلاش میں حران و سرگرداں ہے‘ وہ نعمتیں تم کو مفت میں بغیر کسی تلاش و جستجو کے صرف اس وجہ سے مل گئیں کہ خوش قسمتی سے تم مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے ہو۔ وہ کلمۂ توحید جو انسان کی زندگی کے تمام پیچیدہ مسئلوں کو سلجھا کر ایک صاف سیدھا راستہ بتا دیتا ہے‘ بچپن سے تمہارے کانوں میں پڑا۔ نماز اور روزے کے وہ کیمیا سے زیادہ قیمتی نسخے جو آدمی کو جانور سے انسان بناتے ہیں اور انسانوں کو خدا ترس اور ایک دوسرے کا بھائی‘ ہمدرد اور دوست بنانے کے لیے جن سے بہتر نسخے آج تک دریافت نہیں ہو سکے ہیں‘ تم کو آنکھ کھولتے ہی خود بخود باپ‘ دادا کی میراث میں مل گئے۔ زکوٰۃ کی وہ بے نظیر ترکیب جس سے محض دلوں ہی کی ناپاکی دور نہیں ہوتی بلکہ دنیا کے مالیات کا نظام بھی درست ہو جاتا ہے‘ جس سے محروم ہو کر تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ دنیا کے لوگ ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگے ہیں‘ تمہیں وہ اس طرح مل گئی ہے جیسے کسی حکیم حاذق کے بچے کو بغیر محنت کے وہ نسخے مل جاتے ہیں جنہیں دوسرے لوگ ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اسی طرح حج کاوہ عظیم الشان طریقہ بھی جس کا آج دنیا بھر میںکہیں جواب نہیں ہے‘ جس سے زیادہ طاقت ور ذریعہ کسی تحریک کو چاروانگِ عالم میں پھیلانے اورابدوآباد تک زندہ رکھنے کے لیے آج تک دریافت نہیں ہو سکا‘ جس کے سوا آج دنیا میں کوئی عالم گیر طاقت ایسی موجود نہیں ہے کہ آدم کی ساری اولاد کو زمین کے گوشے گوشے سے کھینچ کر خدائے واحد کے نام پر ایک مرکز پر جمع کر دے اور بے شمار نسلوں اور قوموں کو ایک خدا پرست‘ نیک نیت‘ خیر خواہ برادری میں پیوست کرکے رکھ دے۔
ہاں ایسا بے نظیر طریقہ بھی تمہیں بغیر کسی جستجو کے بنا بنایا اور صدہا برس سے چلتا ہوا مل گیا‘ مگر تم نے ان نعمتوں کی کوئی قدر نہ کی‘ کیوں کہ آنکھ کھولتے ہی یہ تم کو اپنے گھر میں ہاتھ آگئیں۔ اب تمِ اُن سے بالکل اسی طرح کھیل رہے ہو جس طرح ہیرے کی کان میں پیدا ہونے والا نادان بچہ ہیروں سے کھیلتا ہے اور انہیں کنکر پتھر سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی جہالت اور نادانی کی وہ سے جس بری طرح تم اس زبردست دولت اور طاقت کو ضائع کر رہے ہو‘ اس کا نظارہ دیکھ کر دل جل اٹھتا ہے۔ کوئی کہاں سے اتنی قوتِ برداشت لائے کہ پتھر پھوڑوں کے ہاتھوں جواہرات کو برباد ہوتے دیکھ کر ضبط کرسکے؟
میرے عزیزو! تم نے شاعر کایہ شعر تو سنا ہی ہوگا کہ:
خرِ عیسیٰ اگر مکہ رَود
چوں بیا ید ہنوز خر باشد
یعنی گدھا خواہ عیسیٰ علیہ السلام جیسے پیغمبر ہی کا کیوں نہ ہو مکہ کی زیارت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اگر وہ وہاں آئے تب بھی جیسا گدھا تھا ویسا ہی رہے گا۔
نماز‘ روزہ ہو یا حج‘ یہ سب چیزیں سمجھ بوجھ رکھنے والے انسانوںکی تربیت کے لیے ہیں‘جانوروںکو سدھانے کے لیے نہیں ہیں۔ جو لوگ ان ان کے معنی و مطلب کو سمجھیں‘ نہ ان کے مدعا سے کچھ غرض رکھیں‘ نہ اُس فائدے کو حاصل کرنے کا ارادہ ہی کریں جو ان عبادتوں میں بھرا ہوا ہے‘ بلکہ جن کے دماغ میں ان عبادتوں کے مقصد و مطلب کا سرے سے کوئی تصور ہی نہ ہو‘ وہ اگر ان افعال کی نقل اس طرح اتار دیا کریں کہ جیسا اگلوں کو کرتے دیکھا‘ ویسا ہی خود بھی کر دیا تو اس سے آخر کس نتیجے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے عموماً آج کل کے مسلمان اسی طریقے سے ان افعال کو ادا کر رہے ہیں۔ ہر عبادت کی ظاہری شکل جیسی مقرر کر دی گئی ہے ویسی ہی بنا کر رکھ دیتے ہیں‘ مگر وہ شکل رُوح سے بالکل خالی ہوتی ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ ہر سال ہزاہا زائرین مرکزِ اسلام کی طرف جاتے ہیں اور حج سے مشرف ہو کر پلٹتے ہیں‘ مگر نہ جاتے وقت ہی ان پر وہ اصلی کیفیت طاری ہوتے ہے جو ایک مسافرِحرم میں ہونی چاہیے‘ نہ وہاں سے واپس آکر ہی اُن میں کوئی اثر حج کا پایا جاتا ہے اور نہ اس سفر کے دوران میں وہ ان آبادیوں کے مسلمانوں اور غیرمسلموں پر اپنے اخلاق کا کوئی اچھا نقش بٹھاتے ہیں جن پر سے اُن کا گزر ہوتا ہے‘ بلکہ اس کے برعکس اُن میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اپنی گندگی‘ بے تمیزی اور اخلاقی پستی کی نمائش کرکے اسلام کی عزت کو بٹہ لگاتے ہیں۔ ان کی زندگی کو دیکھ کر بجائے اس کے کہ دین کی بزرگی کا سکہ غیروں پر جمے‘ خود اپنوں کی نگاہوں میں بھی وہ بے وقعت ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج خود ہماری اپنی قوم کے بہت سے نوجوان ہم سے پوچھتے ہیں کہ ذرا اس حج کا فائدہ تو
ہمیں سمجھائو۔ حالانکہ یہ حج وہ چیز تھی کہ اگر اسے اس کی اصل شان کے ساتھ ادا کیا جاتا تو کافر تک اس کے فائدں کو علانیہ دیکھ کر ایمان لے آتے۔
کسی تحریک کے ہزاروں لاکھوںممبر ہر سال دنیا کے ہر حصے سے کھنچ کر ایک جگہ جمع ہوں اور پھر اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں۔ ملک ملک اور شہر شہر سے گزرتے ہوئے اپنی پاکیزہ زندگی‘ پاکیزہ خالات اور پاکیزہ اخلاق کا اظہار کرتے جائیں‘ جہاں جہاں ٹھہریں اور جہاں سے جہاں سے گزریں وہاں اپنی تحریک کے اصولوں کا نہ صرف زبان سے پرچار کریں بلکہ اپنی عملی زندگی سے ان کا پورا پورا مظاہرہ بھی کر دیں اور یہ سلسلہ دس بیس برس نہیں بلکہ صدیوں تک سال بہ سال چلتا رہے۔ بھلا غور تو کیجیے کہ یہ بھی کوئی ایسی چیز تھی کہ اس کے فائدے پوچھنے کی کسی کو ضرورت پیش آتی؟ خدا کی قسم‘ اگر یہ کام صحیح طریقے پر ہوتا تو اندھے اس کے فائدے دیکھتے اور بہرے اس کے فائدے سُن لیتے۔ ہر سال کا حج کروڑوںمسلمانوں کو نیک بانتا۔ ہزاروں غیر مسلموں کو اسلام کے دائرے میں کھینچ لاتا اور لاکھوں غیر مسلموں کے دلوں پر اسلام کی بزرگی کا سکہ بٹھا دیتا‘ مگر برا ہو جہالت کا‘ جاہلوں کے ہاتھ پڑ کر کتنی بیش قیمت چیز کس بری طرح ضائع ہو رہی ہے۔
حج سے پورے فائدے حاصل کرنے کا طریقہ:
حج کے پورے فائدے حاصل ہونے کے لیے ضروری تھا کہ مرکزِ اسلام میں کوئی ایسا ہاتھ ہوتا جو اس عالم گیر طاقت سے کام لیتا‘ کوئی ایسا دل ہوتا جو ہر سال تمام دنیا کے جسم میں خونِ صالح دوڑاتا رہتا‘ کوئی ایسا دماغ ہوتا جو ان ہزاروں‘ لاکھوں خداداد قاصدوں کے واسطے سے دنیا بھر میں سلام کے پیغام کو پھیلانے کی کوشش کرتا اور کچھ نہیں تو کم از کم اتنا ہی ہوتا کہ وہاں کچھ نہیں تو کم از کم اتنا ہی ہوتا کہ وہاں کچھ خالص اسلامی زندگی کا ایک مکمل نمونہ موجود ہوتا اور ہر سال دنیا کے مسلمان وہاں سے صحیح دین داری کا تازہ سبق لے لے کر پلٹتے‘مگر وائے افسوس کہ وہاں کچھ بھی نہیں۔ مدت ہائے دراز سے عرب میں جہالت پرورش پا رہی ہے۔ عباسیوں کے دور سے لے کر عثمانیوں کے دور تک ہر زمانے کے بادشاہ اپنی سیاسی اغراض کی خاطر عرب کو ترقی دینے کے بجائے صدیوں سے پیہم گرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اہل عرب کو علم‘ اخلاق‘ تمدن‘ ہر چیز کے اعتبار سے پستی کی انتہا تک پہنچا کر چھوڑا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ سرزمین جہاں سے کبھی اسلام کا نور تمام عالم میں پھیلا تھا‘ آج اسی جاہلیت کے قریب پہنچ گئی ہے جس میں وہ اسلام سے پہلے مبتلا تھی۔ اب نہ وہاں اسلام کا علم ہے‘ نہ اسلامی اخلاق ہیں‘ نہ اسلامی زندگی ہے۔ لوگ دور دور سے بڑی گہری عقیدتیں لیے ہوئے حرم پاک کا سفر کرتے ہیں‘ مگر اس علاقے میں پہنچ کر جب ہر طرف ان کو جہالت‘ گندگی‘ طمع‘ بے حیائی‘ دنیا پرستی‘ بداخلاقی‘ بدانتظامی اور باشندوںکی ہر طرح گری ہوئی حالت نظر آتی ہے تو ان کی توقعات کا سارا طسلم پاش پاش ہو کر رہ جاتا ہے حتیٰ کہ بہت سے لوگ حج کرکے اپنا ایمان بڑھانے کے بجائے اور الٹا کچھ کھو آتے ہیں۔ وہی پرانی مہنت گری جو حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کے بعد جاہلیت کے زمانے میں کعبہ پر مسلط ہو گئی تھی اور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر ختم کیا تھا‘ اب پھر تازہ ہو گئی ہے۔ حرم کعبہ کے منتظم پھر اسی طرح مہنت بن کر بیٹھ گئے ہیں۔ خدا کا گھر ان کے لیے جائداد اور حج ان کے لیے تجار بن گیاہے۔ حج کرنے والوںکو وہ اپنا اسامی (گاہک‘ خریدار) سمجھتے ہیں۔ مختلف ملکوں میں بڑی بڑی تنخواہیں پانے والے ایجنٹ مقرر ہیں تاکہ اسامیوں کو گھیر گھجر کر بھیجیں‘ ہر سال اجمیر کے خادموں کی طرح ایک لشکر کا لشکر دلالوںاورسفری ایجنٹوں کا مکہ سے نکلتا ہے تاکہ دنیا بھر کے ملکوں سے اسامیوں کو گھیر لائے۔ قرآن کی آیتیں اور حدیث کے احکام لوگوں کو سنا سناکر حج پر آمادہ کیا جاتا ہے‘ نہ اس لیے کہ انہیں خدا کا عائد کیا ہوا فرض یاد دلایا جائے‘ بلکہ صرف اس لیے کہ ان احکام کو سن کر یہ لوگ حج کو نکلیں تو آمدنی کا دروازہ کھلے۔ گویا اللہ اور اس کے رسولؐ نے یہ سارا کاروبار انہی مہنتوں اور ان کے دلالوں کی پرورش کے لیے پھیلایا تھا۔ پھر جب اس فرض کو ادا کرنے کے لیے آدمی گھر سے نکلتا ہے تو سفر شروع کرنے سے لے کر واپسی تک ہر جگہ‘ اس کو مذہبی مزدوروں اور دینی تاجروں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ معلم‘ مطف‘ وکیل مطوف‘ کلید برادرِ کعبہ اور خود حکومتِ حجاز سب اس تجارت میں حصہ دار ہیں۔ حج کے سارے مناسک معاوضہ لے کر ادا کرائے جاتے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے خانہ کعبہ کا دروازہ تک فیس کے بغیر نہیں کھل سکتا۔ نَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ ذَالِکَ۔
یہ بنارس اور ہردوار کے پنڈتوں کی سی حالت اُس دین کے نام نہاد خدمت گزاروں اور مرکزی عبادت گاہ کے مجاوروں نے اختیار کر رکھی ہے جس نے مہنت گری کے کاروبار کی جڑ کاٹ دی تھی۔ بھلا جہاں عبادت کرانے کا کام مزدوری اور تجارت بن گیا ہو‘ جہاں عبادت گاہوں کو ذریعۂ آمدنی بنا لیا گیا ہو‘ جہاں احکامِ الٰہی کو اس غرض کے لیے استعمال کیا جاتا ہو کہ خدا کا حکم سن کر لوگ فرض بجا لانے کے لیے مجبور ہوں اور اس طاقت کے بل پر اُن کی جیبوں سے روپیہ گھسیٹا جائے‘ جہاں آدمی کو عبادت کا ہر رکن ادا کرنے کے لیے معاوضہ دینا پڑتا ہو اور دینی سعادت ایک طرح سے خریدوفروخت کی جنس بن گئی ہو‘ ایسی جگہ عبادت کی رُوح باقی کہاں رہ سکتی ہے؟ کس طرح آپ امید کر سکتے ہیں کہ حج کرنے والوں اور حج کرانے والوں کو اس عبادت کے حقیقی و روحانی فائدے حاصل ہوںگے جب کہ یہ سارا کام سودا گری اور دوسری طرف خریداری کی ذہنیت سے ہو رہا ہو۔
اس ذکر سے میرا مقصد کسی کو الزام دینا نہیں ہے‘ بلکہ صرف آپ لوگوںکو یہ بتاناہے کہ حج جیسی عظیم الشان طاقت کو آج کن چیزوں نے قریب قریب بالکل بے اثر بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ غلط فہمی کسی کے دل میں نہ رہنی چاہیے کہ اسلام میں اور اس کے جاری کیے ہوئے طریقوں میں کوئی کوتاہی ہے۔ نہیں! کوتاہی دراصل اُن لوگوں میںہے جو اسلام کی صحیح پیروی نہیں کرتے۔ یہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے کہ جو طریقے تم کو انسانیت کا مکمل نمونہ بنانے والے تھے اور جن پر ٹھیک ٹھیک عمل کر کے تم تمام دنیا کے مصلح اور امام بن سکتے تھے‘ ان سے آج کوئی اچھا پھل ظاہر نہیں ہو رہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لوگوں کو خود ان طریقوں کے مفید ہونے میں شک ہونے لگا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک طبیب حاذق چند بہترین تیر بہ ہدف نسخے مرتب کرکے چھوڑ گیا ہو اور بعد میں اس کے وہ نسخے اناڑی اور جاہل جانشینوں کے ہاتھ پڑ کر بے کار بھی ہو رہے ہوں اور بدنام بھی۔ نسخہ بجائے خود چاہے کتنا ہی صحیح ہو‘ مگر بہرحال اس سے کام لینے کے لیے فن کی واقفیت اور سمجھ بوجھ ضروری ہے۔ اناڑی اس سے کام لیں گے تو عجب نہیں کہ وہ غیر مفید ہی نہیں‘ بلکہ مضر ہو جائے اور جاہل لوگ جو خود نسخے کو جانچنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں‘ اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ نسخہ خود ہی غلط ہے۔ (جاری ہے)

حصہ