ہم کیوں مسلمان ہوئے

373

میوس بی جولی(انگلستان)

دن بھر کی ذہنی و جسمانی محنت و مشقت کے بعد جب انسان تھک کر چُور ہوجاتا ہے تو اسے نیند اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ اور جب صبح آنکھ کھلتی ہے تو اس کے جسم کی تھکن دور ہوچکی ہوتی ہے، دماغ پُرسکون ہوتا ہے اور طبیعت میں دوبارہ کام کرنے کی اُمنگ اور ہمت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ سلسلہ پیدائش سے لے کر موت تک یوں ہی چلتا رہتا ہے۔
سونے کے دوران نہ صرف یہ کہ تکان اتر جاتی ہے بلکہ جسم کے اعضا کو اپنی دیکھ بھال اور ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ بچوں کی زیادہ تر جسمانی نشوونما نیند کے دوران ہی ہوا کرتی ہے، اسی لیے اُن کے سونے کی مدت زیادہ ہوا کرتی ہے۔ البتہ کچھ اعضا ضرور ایسے ہیں جو سونے کے دوران بھی اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ مثلاً قلب، پھیپھڑے، دماغ وغیرہ، مگر ان پر کام کا بار کم ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے انہیں بھی سستانے اور اپنی دیکھ بھال کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
نیند کی ضرورت اور افادیت کا اندازہ تو ہر شخص کو ہے مگر اس کی صحیح قدر و قیمت وہی جانتا ہے جسے راتیں جاگ کر گزارنی پڑتی ہوں اور لاکھ جتن کے بعد بھی آنکھیں خمارِ نیند سے محروم رہتی ہوں۔
میں تو آنکھوں میں جگہ دینے کو حاضر تھا اسے
نیند ظالم سے یہ پوچھو کہ کبھی آئی بھی
نیند نہ آنے کو عرفِ عام میں بے خوابی یا بیداری کہا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اسے سہری الرق کہتے ہیں۔ سہر کے معنی بیداری کے ہیں، جب کہ الرق کے معنی رات کی بیداری کے ہیں۔ انگریزی میں انسونیا اور ویجی لینس کہتے ہیں۔
اس مرض میں مریض اکثر نیند سے محروم رہتا ہے، یا اگر نیند آ بھی جائے تو بہت ہلکی ہوتی ہے جو ذرا سے شور سے یا بغیر کسی وجہ کے ٹوٹ جاتی ہے، اور جب ایک بار آنکھ کھل جائے تو دوبارہ نیند آنا دشوار ہوجاتا ہے۔ مرض کے شدید ہونے پر رات و دن میں سے کسی وقت بھی نیند نہیں آتی۔ اس مرض کو اسباب کے لحاظ سے تین زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
-1 اختیاری اسباب:
نیند نہ آنے کے یہ اسباب خود اپنے اختیار میں ہوتے ہیں، مثلاً ذہنی انہماک۔ کسی کام میں ذہن اس قدر منہمک ہوجائے کہ سونے کا ہوش نہ رہے، مثلاً کاروباری مصروفیات، کسی دل چسپ کتاب کا مطالعہ، کسی اہم یا پسندیدہ موضوع پر بات چیت، خالی پیٹ سونے کی کوشش کرنا یا پُر خوری کرلینا، جس کی وجہ سے معدہ پر بوجھ پیدا ہوجائے اور ہاضمہ بگڑ جائے۔ اس کے علاوہ محرکات زیادہ استعمال کرنا مثلاً چائے، قہوہ، کافی اور تمباکو وغیرہ۔ محرکات اعصاب کو تحریک دیتے ہیں جس سے وقتی طور پر فرحت محسوس ہوتی ہے مگر آہستہ آہستہ دماغ و اعصاب کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے دماغ میں خشکی پیدا ہوکر بے خوابی کا سبب بن جاتی ہے، ساتھ ہی ان سے بھوک کم ہوجاتی ہے، ہاضمہ بگڑ جاتا ہے اور قبض رہنے لگتا ہے جو کہ مرض میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔
عارضی اسباب:
جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہے یہ اسباب وقتی ہوا کرتے ہیں، اس لیے نیند بھی عارضی طور پر ہی غائب ہوا کرتی ہے۔ سبب کے دور ہوجانے پر تکلیف بھی خود بہ خود دور ہوجاتی ہے، مثلاً صدمے کی خبر کا ملنا، یا کسی وجہ سے افسردہ ہوجانا، یا بالکل اسی طرح بہت زیادہ خوشی بھی بے خوابی پیدا کردیتی ہے۔ کسی چیز کا تجسس یا انتظار بھی نیند پر اثرانداز ہوا کرتا ہے۔ بچوں میں اکثر اور بڑوں میں کبھی کبھی ڈر اور خوف سے بھی آنکھ نہیں لگتی۔
-3 امراض کے باعث نیند نہ آنا:
بعض امراض کے نتیجے میں بھی نیند نہیں آتی اور مریض بے آرام ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر جسم میں خشکی کا بڑھ جانا۔ چوں کہ انسان اُسی وقت پوری طرح تندرست تسلیم کیا جاتا ہے جب اس کے جسم میںچاروں کیفیات گرمی، سردی، تری و خشکی کا تناسب صحیح ہو۔ اگر ان میں سے ایک چیز میں بھی کمی و بیشی ہوجائے تو وہ دائرۂ صحت سے باہر نکل جاتا ہے۔ اس مرض میں دماغ میں رطوبت کا تناسب کم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے خشکی پیدا ہوکر مرضِ سہرکی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر بارش ہورہی ہو تو نیند بھی اچھی آتی ہے۔ بعض مریضوں میں خشکی کے ساتھ ساتھ مزاج میں گرمی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ جسم میں اگر خراب مادے جمع ہوجائیں تو بھی یہ کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ تیز بخار، بدہضمی اور شدید کھانسی سے بھی نیند پر اثر پڑتا ہے اور اکثر لوگ پوری پوری رات سو نہیں پاتے۔ بعض ذہنی امراض میں بھی یہی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ مثلاً جنون، مالیخولیا، مراق، اختناق الرحم (ہسٹریا)، گٹھیا وغیرہ۔ کبھی کبھی کمزور کردینے والے امراض خصوصاً خون کی کمی بھی مرض کا سبب بن جاتی ہے۔
عموماً اس مرض کا انجام خطرناک نہیں ہوا کرتا بلکہ برسوں تک مریض اپنی زندگی اس مرض کے ساتھ گزارتے رہتے ہیں۔ مگر بعض صورتوں میں جب کہ یہ مرض شدید ہوجائے اور عرصے تک رہے تو دیوانگی، مالیخولیا اور دیگر ذہنی امراض کا خطرہ ہوا کرتا ہے۔
بے خوابی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام باتوں سے دور رہنے کی کوشش کی جائے جو مرض پیدا کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہاضمہ کی خرابی، قبض، جوڑوں کا درد جیسے امراض اگر موجود ہوں تو ان کا مناسب اور مکمل علاج کرایا جائے۔ خون میں فساد پیدا ہوگیا ہو تو خون صاف کرنے والی دوائیں لی جائیں، جسم میں خشکی پیدا ہوگئی ہو تو اسے رفع کیا جائے۔ بہت زیادہ تکان سے بچا جائے۔ چائے، کافی، قہوہ، تمباکو نوشی کی عادت نہ ڈالی جائے، یا ان کے استعمال میں کمی کردی جائے۔ ایسی مشغولیات جن میں راتوں کو جاگنا پڑتا ہو، وقت گزرنے کے ساتھ مرضِ سہر پیدا کردیتی ہیں۔
اگر بے خوابی مرض کی شکل اختیار کرلے تو پھر ان احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے: غذا سونے سے چار گھنٹے قبل استعمال کی جائے اور وہ بھی سادہ اور آسانی سے ہضم ہونے والی ہو، تاکہ نظامِ ہضم پر بار نہ پڑے۔ صاف اور ہوادار کمرے میں جہاں شور و غل نہ ہو، لیٹا جائے۔ کمرے کی روشنی مدہم رکھی جائے۔ تیز خوشبو بھی ذہن کو پریشان کرکے نیند اُڑا دیتی ہے۔ سونے سے قبل نیم گرم پانی سے نہانا یا ہاتھ پیر دھونا بھی مفید تر ہے۔ ناپسندیدہ یا مشکل مضامین پڑھنا اور اکتا دینے والے کام کاج بھی نیند لانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ آنکھوں کے ڈھیلوں کو اوپر کی جانب گھماکر کچھ دیر رکھنا اور لمبے لمبے گہرے سانس لینا بھی اچھی تدبیر ہے۔ اگر کسی مرض کے نتیجے میں بے خوابی کا مرض پیدا ہوا ہے تو اس کا مکمل علاج کروانا چاہیے۔
بے خوابی کے علاج میں ایک غلطی جو بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے وہ خواب آور گولیاں کثرت سے استعمال کرکے خود کو ان کا عادی بنانا ہے۔ ان گولیوں سے نیند تو آجاتی ہے مگر آہستہ آہستہ ان کی مقدارِ خوراک بڑھانی پڑتی ہے، یا مزید تیز دوائوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ نتیجتاً یہ اعصاب اور دماغ کو کمزور کرتی چلی جاتی ہیں اور اس طرح مرض بڑھتا رہتا ہے۔ اس کے علاج میں ایسی دوائیں استعمال کرنی چاہئیں جو کہ نیند بھی لائیں، دماغ و اعصاب کو سکون بھی پہنچائیں، ساتھ ہی ساتھ جوں جوں انہیں زیادہ عرصے تک استعمال کیا جائے وہ دماغ و اعصاب کی خشکی دور کرکے انہیں طاقت بھی پہنچائیں۔ ایسی دوائوں کے استعمال سے آہستہ آہستہ خود بہ خود قدرتی نیند آنا شروع ہوجاتی ہے، اور جب دماغ و اعصاب میں پوری طرح طاقت آجاتی ہے تو پھر دوائیں استعمال کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اس مقصد کے لیے مغز بادام شیریں، مغز کدو، تخم خشخاش، مغز تربوز، مغز کاہو وغیرہ کثرت سے استعمال کرائے جاتے ہیں۔ یہ مغزیات دماغ کو سکون دے کر نیند بھی لاتے ہیں اور ان میں موجود قدرتی روغنیات خشکی دور کرکے دماغ و اعصاب کی تقویت کا باعث بھی بنا کرتے ہیں۔ ان کے استعمال کا طریقہ ذیل میں درج کیا جارہا ہے:
مغز بادام شیریں پانچ دانہ، مغز کدو، مغز تربوز، تخم کاہو (چھلکا دور کیا ہوا) ہر ایک تین گرام دودھ میں پیس کر مصری یا شکر سے میٹھا کرکے صبح نہار منہ پیا جائے۔ روغنِ لبوب سبعہ یا روغنِ کدو کی سر پر مالش کی جائے اور نیم گرم چند قطرے ناک میں ڈالے جائیں۔ اگر قبض کی شکایت ہو تو روغنِ بادام شیریں ایک چمچہ نیم گرم دودھ میں ملا کر سوتے وقت پیا جائے۔ اگر دماغی امراض یا تفکرات سبب بن رہے ہوں تو خمیرہ گائوزبان جدوار عود صلیب والا نصف چمچہ چائے سہ پہر میں کھلایا جائے۔ دماغی کمزوری کی صورت میں خمیرۂ ابریشم شیرہ عناب والا، خمیرہ گائو زبان سادہ یا خمیرہ خشخاش نصف نصف چمچہ چائے صبح نہار منہ کھلایا جائے۔
نیند لانے کے لیے فقیرانہ علاج یہ ہے کہ برگ گائو زبان 4 گرام، مصری ایک تولہ کو مٹی کے کوزے میں ایک پیالی پانی ڈال کر جوش دیا جائے۔ ایک جوش آجانے پر چھان کر سوتے وقت نیم گرم پلایا جائے۔ بے خوابی جب بھی پریشان کرے اس کا ازالہ قدرت کی بنائی ہوئی مفید، محفوظ اور نقصانات سے پاک چیزوں سے کرنا چاہیے۔ اس طرح فطری نیند بھی حاصل ہوجاتی ہے اور دوسرے اعضا کو نقصان بھی نہیں پہنچتا۔

حصہ