عزم

442

تیز ہوا کے جھونکوں سے اُس کا سیاہ عبایا اُڑ رہا تھا۔ وہ بینچ پر اکیلی بیٹھی تھی۔ گھاس پر چپل اتار کر پیر رکھے، ٹھنڈک کو محسوس کیا اور بوڑھے برگد کے درخت سے گرتے پتوں کو دیکھنے لگی۔ وہ اس تیز ہوا کو سہنے سے قاصر تھے۔
وہ اپنے سیاہ نقاب کے پیچھے مسکرائی، اس کا دل اپنی ماضی کی سوچوں پر خوب ہنسنے کو چاہا۔ اُسے یاد آیا:
اُس دن پورا آڈیٹوریم خالی پڑا تھا سوائے آگے کی دس بارہ سیٹوں کے، جن پر کالج کے بہترین لیکچررز اور ایڈمن ڈپارٹمنٹ کا منتخب پینل بیٹھا تھا۔ سامنے ایک کیمرہ نصب تھا جہاں آنے والے طلبہ کا انٹرویو ریکارڈ ہونا تھا۔
بینا باہر گیٹ پر اپنے بھائی جان کے ساتھ کھڑی تھی۔
’’یہ کیسے اتنا لمبا بڑا سا عبایا اپنے اوپر ڈال کر آگئی ہے اتنی گرمی میں!‘‘
’’دیکھ کر ہی گرمی لگ رہی ہے۔‘‘
’’مطلب اب یہ کالج ایسے ویسوں کو بھی ایڈمیشن دے گا۔‘‘ ساتھ کھڑی لڑکیوں نے جملے کسے۔
بینا نے سر جھٹک کر تیز تیز چلنا شروع کردیا۔ وہ ایسی باتیں سننے کی عادی تھی۔ بچپن سے لے کر آج تک وہ یہی جملے سنتی آئی تھی۔ اسے یاد تھا میٹرک میں پردہ شروع کرنے پر بھی یہی مسئلے کھڑے ہوئے تھے۔
وہ چونکی، اس کا نام پکارا گیا تھا۔ انٹرویو پینل سے ایک پروفیسر صاحب نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور بھویں اُچکا کر شروع ہوئے:
’’جی تو مس بینا! آپ یہاں کیوں آئی ہیں؟‘‘
’’سر! ایک میڈیکل پروفیشنل ڈاکٹر بننے کے لیے۔‘‘
’’اچھا! اور وہ کون ہوتے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟‘‘
اس کا جواب ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ دوسرا سوال داغ دیا گیا تھا۔
’’یہ وہ ہوتے ہیں جو رب تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ شفا اپنے ہاتھوں میں لیے رب کے بندوں کے زخموں کا مداوا کرتے ہیں۔‘‘ اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ یہ جملہ ادا کیا۔ یہ اس کے بھائی جان نے اسے بچپن سے سکھایا تھا۔
’’تو یہ ہوتے ہیں ڈاکٹرز… گڈ۔‘‘
اس کے بعد کئی اور سوال کیے جن میں اس کی پڑھائی سے متعلق اور دیگر نوعیت کے سوالات شامل تھے۔
’‘ٹھیک ہے مس بینا! میں آپ سے متاثر ہوا ہوں۔ لیکن کیا آپ انسانیت کا علاج اس اتنے بڑے کالے لبادے میں کریں گی؟‘‘
وہ اس سوال کی پہلے سے ہی توقع کررہی تھی، مسکرائی اور سارا حوصلہ ایک جگہ جمع کرلیا اور بولی ’’جی بالکل! مجھے اپنی حدود معلوم ہیں، میں ان حدود میں رہ کر ہر کام کرسکتی ہوں، یہ لبادہ میری تعلیم میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔‘‘
’’اچھا…! لیکن میرا نہیں خیال کہ آپ ہمارے کالج میں اپنی حدود کا خیال رکھ پائیں گی۔ ایک ٹیچر تو اسٹوڈنٹ کا چہرہ دیکھ کر ہی اُس کے ذہن کا اندازہ لگا سکتا ہے… لیکن آپ کا تو چھپا ہوا ہے۔‘‘
یہ تو سیدھا اُس کے منہ پر طمانچہ تھا… وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کو ڈھکے لفظوں میں یہ سب کچھ چھوڑنے کا کہا جائے گا۔
’’سر! آپ مجھے ایک موقع دیجیے، ٹیچرز کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔‘‘
’‘نہیں نہیں مس بینا! آپ سمجھی نہیں، آپ کسی اور میڈیکل کالج کے لیے اپلائی کردیجیے، یا پھر آپ کو تو کسی دینی مدرسے سے تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔‘‘
وہ خالی دماغ کے ساتھ باہر آگئی۔ اُسے لگا کہ اس کا حجاب آج اس کے اعتماد اور قابلیت کے درمیان آگیا ہے۔ وہ کم از کم اپنی اقدار و روایات اور تہذیب کو نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ دین پر کوئی کمپرومائز نہیں چلتا۔ یہ اسے معلوم تھا۔
…٭…
آج بینا عبدالرحمن کا سسرال میں تیسرا دن تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔
’’لو ابھی تک ادھر ہی بیٹھی ہو؟ تمہارے گھر والے تو کب کے آگئے ہیں، کیا ملنا نہیں ہے؟ اتنا تنگ کرتے تھے تمہیں وہ…؟‘‘سعد کی شرارتی فطرت وہ چند دنوں میں ہی بھانپ گئی تھی، اسے وہ اس طرح اچھا لگا تھا۔
مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس نے کہا ’’جی نہیں، میرے گھر والے بہت اچھے ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ بھائی جان تو آئے ہیں نا۔‘‘
’’جی جناب ِعالیہ! وہ بھی تشریف فرما ہیں۔ آپ سے ملنے کے لیے بے تاب ہیں، ساتھ ہی اور بھی رشتے دار آئے ہیں، جلدی آجائیں۔‘‘ سعد نے کف لگاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا ہم ساتھ چلیں گے… تھوڑا اور انتظار، بس اسکارف لینا رہ گیا ہے۔‘‘
سلیقے سے سر سے لے کر کندھوں تک اور چہرہ بھی ساتھ میں چھپائے وہ برآمدے میں سعد کے ساتھ داخل ہوئی۔ سب بہت اچھی طرح ملے، بھائی جان تو جذباتی ہوکر رو بھی پڑے۔ لیکن اس کے سسرالی رشتے دار کچھ خاموش تھے۔ وہ پہلی ہی نظر میں بھانپ چکی تھی، پتا نہیں شاید اس سے کوئی غلطی ہوگئی تھی۔
کھانے کا دور شروع ہوا تو بینا اندر چلی گئی اور امی، آپا اور باقی لوگوں کے پاس جاکر کھانا لے کر بیٹھ گئی۔ ادھر کمرہ مردوں سے مکمل بھر چکا تھا، وہ سب کے سامنے اپنا نقاب کیسے کھولتی! کھانے کے بعد وہ واپس جانے لگی تو دروازے پر ہی اس کے کانوں نے سنا:
’’بھئی دیکھیے جعفر صاحب! آپ کی بہن نے تو ہمارے گھر میں رونق لگادی ہے، لیکن اس کا انداز کچھ ہمیں بھایا نہیں ہے۔‘‘
’’میں کچھ سمجھا نہیں، ذرا کھل کر کہیے۔‘‘ بھائی جان اور اس کے بڑے جیٹھ کے درمیان گفتگو چل رہی تھی۔
’’شادی کے بعد یہ سب مناسب نہیں ہوتا بھائی صاحب۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں… آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’ارے بھئی! سیدھی سی بات ہے، باہر تو ٹھیک لگتا ہے لیکن کیا گھر کے مردوں کے سامنے بھی بینا اب یوں منہ لپیٹے گی! ہم خاندانی لوگ ہیں، ہمارے ہاں دیکھ لیں سب خواتین کتنے احترام سے سب سے گھلتی ملتی ہیں۔ کیوں بھئی سعد! گھر کی روایات کو تو برقرار رکھنا چاہیے نا۔‘‘
آنسوؤں کا گولا سا بینا کے حلق میں آکر پھنسا تھا۔
معاملہ سعد پر چھوڑ دیا گیا تھا، بینا پردے کے پیچھے بت بنی کھڑی تھی کہ کیا معلوم اگلی گھڑی اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، جس کپڑے کے ٹکڑے کے لیے اس نے اتنی قربانیاں دی تھیں، اپنی میڈیکل کی سیٹ داؤ پر لگائی تھی، کتنی دعوتیں چھوڑی تھیں، اس نے آج ایک بہت ہی مشکل دوراہے پر لاکھڑا کیا تھا۔
’’بھائی! میں بینا کو پوری اجازت دیتا ہوں وہ اس گھر میں جیسے چاہے رہے۔ وہ میری بیوی ہے۔ مجھے اس سے، اس کے حجاب سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بذاتِ خود وہ مجھے اپنے حجاب کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہے۔‘‘
جسم کا رُواں رُواں اس رب کا شکر ادا کررہا تھا جس نے سعد جیسا شوہر اس کی قسمت میں لکھا۔
اچانک دروازے پر سے پردہ ہٹ گیا اور وہ جھٹکا کھا کر پیچھے ہوئی، لیکن سعد کو جیسے معلوم تھا کہ وہ وہاں کھڑی تھی۔ اُس نے اس کی مہندی لگی کلائی بہت مضبوطی سے پکڑی۔ بینا نے مسکرا کر دوسرا ہاتھ بھی اس کے ہاتھوں میں دے دیا۔

حصہ