دُنیا حیاتیاتی جنگ کی زد میں

289

جیسے جیسے انسان عروج و ترقی کی راہ پر گامزن ہوا، طریقہ حرب اور جنگی چالوں، پینتروں اور حربوں میں تبدیلی آتی گئی۔ جنگیں میدانوں سے نکل کر شہر کی شاہراہوں اور قصبوں کی گلیوں میں لڑی جانے لگیں۔ سپاہیوں اور فوجیوں تک لڑی جانے والی جنگ عوام کو نیست و نابود کرنے تک پہنچ گئی۔ قصبوں اور دیہات کو تباہ کرنا جنگ کا ایک حصہ تسلیم کیا جانے لگا۔ معصوم اور نہتے عوام کو تاراج کرنا ایک فعلِ فاتح قرار دیا گیا۔ مہذب کہلائی جانے والی قومیں اخلاقی اقدار کی پاس داری نہیں کرسکیں۔ اُن کی اخلاق سوز حرکتیں جنگی جرائم کی صورت اختیار کر گئیں۔ باعزت اقوام اور مہذب دنیا نے دورِ جدید کے کبائرِ رذیلہ کو جنگی پینتروں کا نام دے دیا۔ معصوم و سادہ لوح، مہذب، تعلیم یافتہ افراد نے بھی جنگی جرائم کو چال اور جنگی اقدام کو ہنرمندانہ فعل قرار دے دیا۔
آج کے مہذب تعلیم یافتہ دور میں جنگ کے میدان بدل گئے۔strategy and manoeuvre کی تبدیلی اور عسکری طریقہ کار میں انحطاط کے آتے ہی اخلاقیات کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ سپاہیوں اور فوجیوں کے درمیان ہونے والی جنگ عوام و خواص کے درمیان لڑی جانے لگیں۔ دورِ جدید کی جنگ اب اس انداز سے لڑی جارہی ہے کہ حملہ آور، جدید دنیا اور جدیدیت کے نامور ماہرین کی نظروں سے بھی اوجھل ہے۔ حملہ آور مسیحا کے روپ میں نمودار ہوتا ہے اور معصوم عوام اور ماہرینِ حکمت بھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ حریف دوستوں کی صف میں شامل ہوتا ہے اور عوام و خواص اسے حلیف سمجھتے ہیں۔ گویا حریف و حلیف میں کوئی امتیاز نہیں رہتا۔
ہتھیاروں اور جدید مہلک عسکری آلات سے لڑی جانے والی جنگیں اب سمٹ گئی ہیں۔ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، کالج، یونیورسٹیاں، زراعت و معاشیات، فرمز اور کمپنیاں، تجارت و صنعت کے مراکز، رفاہی انجمنیں اور این جی اوز، ادویہ کی تجربہ گاہیں و شفاخانے، سائنسی تحقیقاتی ادارے دورِ جدید کے میدان ِحرب بن گئے ہیں۔ اب جنگیں آمنے سامنے نہیں بلکہ پسِ پردہ لڑی جانے لگی ہیں۔ حیات کے ہمہ جہت میدانوں کو اپنے شکنجے میں لینے کی عرصہ دراز سے کوشش جاری ہے۔ زندگی کے ہر میدان کو ایک نکتے پر مرکوز کرنے کا یہ جنگی حربہ آزمایا جا رہا ہے۔ یہی سلسلہ دنیا کو ایک عظیم معرکے کی جانب دھکیل رہا ہے۔
حیاتیاتی جنگ کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ قدیم دور میں یہ صرف جانوروں تک محدود تھی، مگر دورِ حاضر میں انسانوں کے خلاف یہ حیاتیاتی ہتھیار استعمال کیے جانے لگے ہیں۔ یہ ایک مذموم جنگی طریقہ کار اور انتہائی گھناؤنا فعل ہے جو انسانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔
حیاتیاتی ہتھیار جو جرثومی ہتھیار کے نام سے بھی موسوم ہے، مختلف بیکٹریا، ریکٹسیا (Rickettsiae)، فنگائی، وائرسز، ٹاکزنز کو نباتات، حیوانات اور بنی نوع انسان کو ضرر پہنچانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
حیاتیاتی جنگ ایک مؤثر ذریعہ ہے جس میں افواج نہیں بلکہ معصوم عوام کو نیست و نابود کیا جاتا ہے۔ یہ نسل کُشی اور نسلوں کو ہلاک کرنے کے لیے جنگی ے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایسا حربہ ہے جس سے دشمن واضح طور سے سامنے ظاہر نہیں ہوتا لیکن اپنے حریفوں کا خاتمہ کر گزرتا ہے۔ دنیا میں وقوع پذیر ہونے والےواقعات ایک بڑے سلسلہ ہائے واقعات کی کڑیاں ہیں۔ ان واقعات کا تسلسل ایک بڑے حادثے سے جڑتا ہے۔ ان واقعات کا تسلسل ایک منصوبہ بند مشن کی تکمیل ہے۔ ایسے ہی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جنگیں لڑی جاتی ہیں۔ دورِ حاضر میں ہم ایسے ہی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ آج ہم تذبذب کا شکار نہیں بلکہ تذبذب میں مبتلا کیے گئے ہیں۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سچ کو مشکوک بنا دیا گیا ہے۔ حیاتیاتی جنگ بھی ایک ایسی ہی حقیقت ہے۔ وباؤں اور بیماریوں کو پھیلانا ایک جنگی حربہ ہے۔ اس سے دشمن محفوظ مقامات سے اپنے حریفوں کو ختم کرنے کا طریقہ اپناتا ہے اور پھر ایک مسیحا بن کر سامنے آتا ہے۔ کچھ لوگ اس کی نفی کریں گے مگر تاریخی واقعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں۔ ذیل میں درج واقعات ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق 1347ءمیں منگولوں نے طاعون زدہ اجسام کو بلیک سی میں پھینکا تھا۔ اس دور میں یہ کافا (Caffa) کی بندرگاہ موجودہ فیڈوشیا یوکرین میں واقع ہے۔ منگولوں کا مقصد وبا کو پھیلا کر دشمن کو بدحواس اور زیر کرنا تھا۔ کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اٹلی میں کچھ کشتیاں داخل ہوئی تھیں جن میں وبائی جراثیم موجود تھےجس کی وجہ سے یورپ میں بلیک ڈیتھ وبا پھیلی تھی اور 25 ملین عوام اس کا شکار ہوئے تھے۔ 1710ء میں روسی افواج جو سوڈان سے برسرِ پیکار تھیں انہوں نے طاعون زدہ اجسام کو شہر میں پھینکا تھا۔ اس کا مقصد شہروں میں طاعون پھیلانا تھا۔1763ء میں برٹش افواج نے پٹبرگس کے محاصرے کے دوران چیچک سے متاثرہ بلینکٹ پھیلائے تاکہ امریکن انڈینز میں چیچک کی وبا پھیلائی جائے۔جنگ ِعظیم اول میں جرمنی نے دشمن افواج کو شکست سے دوچار کرنے کی غرض سے گھوڑوں اور جانوروں میں glanders کو پھیلایا۔ 1937ء اور1945ء میں چاپان نے چین کے خلاف حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال کیااور تجربہ بھی کیا جس میں بیبونک طاعون، چیچک، ہیپاٹائٹس، ہیضہ، anthrax ، typhus، Yellow fever قابلِ ذکر ہیں۔
پھر اس کے بعد ایسا دور آیا جس میں سائنسی ترقی کے نام پر حیاتیاتی ہتھیاروں کو وجود میں لانے کی دوڑلگ گئی۔ کئی ممالک نے کھلے اور چھپے انداز میں نہ صرف حیاتیاتی ہتھیار بنائے بلکہ تجربات بھی کیے۔ ان کے خلاف آوازیں بھی بلند ہوئیں اور قراردادیں بھی پیش کی گئیں، مگر معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی کی گئی اور پوشیدہ طور سے یہ تحقیقات اور تخلیقات جاری رہیں۔ اور آج یہ ممالک اتنے مضبوط ہوگئے ہیں کہ دنیا میں آنِ واحد میں وباؤں اوربیماریوں کو پھیلا سکتے ہیں، اوردنیا کی معیشت، زراعت، سیاست، ادویہ اور محکمہ حفظانِ صحت کو مکمل کنٹرول کرسکتے ہیں۔
کئی بیماریوں کو پھیلانے کے لیے ان کے جرثوموں کو engineered کیا جاتا ہےاور منصوبہ بند طریقے سے بیماریاں اور وبائیں پھیلائی جاتی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بہت سی بیماریاں اس سے پیشتر جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کی گئیں۔ کینسر، ایڈز، ایسی ہی چند بیماریاں تھیں جن کو بطور حیاتیاتی ہتھیار استعمال کیا گیا تھا۔ بے شک بیماریاں خدا کے حکم سے ہی پھیلتی ہیں اور شفا بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ خبیث افراد خبیث جرثومات کی افزائش کرتے ہیں تاکہ دشمن کو اندر ہی اندر ہلاک کردیں۔ نہ ہی افواج نظر آتی ہیں اور نہ ہی حملہ آور۔ آج پوری دنیا کورونا وبا کی لپیٹ میں ہے۔ چند ممالک ہیں جہاں سے اموات کی خبر کوئی آتی ہے اور نہ ویکسن کی۔ کیا ہم اب بھی انسانی خباثت کو سمجھ نہیں پائے!
میری اس بات سے آپ اتفاق نہ کریں مگر زمینی حقائق اس کو ثابت کرتے ہیں۔ بائیو ٹیکنالوجی اور جینیاتی سائنس سے ہم ششدر ہوتے ہیں مگر متشکک نہیں۔ حقیقت کو مشتبہ بنانا بھی ایک قدیم جنگی چال ہے۔ اور یہ دورِ حاضر کی ایک بیّن خصوصیت ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کی ساخت و خصوصیات متغیر کردینے کو ہم تسلیم کرلیتے ہیں۔ انسانی کلوننگ کو قبول کرلیتے ہیں۔ مگر وباؤں اور بیماریوں کو ماننے میں پس و پیش کرتے ہیں۔ قصور کسی کا بھی نہیں بلکہ پُرفتن دور کی یہ خاصیت ہے کہ سچ کو مشتبہ کردو تاکہ کوئی تریاق ڈھونڈا نہ جاسکے۔ الجھنوں میں اس قدر گرفتار کردیے جائیں کہ کوئی راہ ہی ڈھونڈ نہ پائے۔
یہ مضمون کسی کو دہشت میں مبتلا کرنے کے لیے نہیں لکھا گیا، بلکہ اس کے تدارک اور روک تھام کی کوششوں کو تیز کرنا مقصد ہے۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا مگر کوئی کارگر علاج دریافت نہیں ہوسکا۔ ایک مؤثر ٹیکہ بھی ابھی تک بنایا نہیں جاسکا۔ تمام مسلم ممالک اور نہ ہی دیگر اقوام کے طبی ماہرین اور محققین اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کرسکے۔ مایوسی پھیلانا اور نہ ہی حوصلہ شکنی کرنا مقصود ہے۔ تاریکی کو تسلیم کرنے کے بعد ہی روشنی کی لگن پیدا ہوتی ہے۔ لیکن تاریکی میں ہی جی لینے کی چاہ روشنی نہیں پھیلا سکتی۔ دوسروں پر انحصار کرنے اور انتظار کی عادت ہمارے لیے ہلاکت کا سبب بنے گی۔ خدا نے ہر بیماری کا علاج رکھا ہے۔ ہم طبی ماہرین، محققین، ذی فہم، اربابِ بصیرت و حکمت کو مجتمع نہ کرسکے تاکہ ان کی قیادت میں اس کا مقابلہ کیا جاسکے اور اس سے نمٹنے کی کوئی تدبیر ڈھونڈی جاسکے۔ کوئی کارگر ویکسین بنانے کی ہم نے اجتماعی کوشش نہیں کی، حالانکہ کوشش اور جدوجہد ہر چیز کا مداوا کرسکتی ہیں۔ تاریکی کی عادت ڈلوانے والوں سے دامن چھڑائیے اور اجالوں کے سفیروں کا ساتھ نبھایئے۔ اللہ عمل کرنے والوں کو ہی جزا دیتا ہے دنیا و عقبیٰ میں خالقِ کائنات ہمیں گمراہ کن فتنہ انگیزوں سے محفوظ رکھے، اور قوم وملت کو راست فکر و راست رو مخلصین کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ آمین

حصہ