”دادو ہاتھ سیدھا کریں ڈیزائن خراب ہو جائےگا” اقصٰی نے کہا جو کہ دادو کے ہاتھ پر مہندی لگا رہی تھی۔اس مہندی کا ڈیزائن اس نے کئی گھنٹوں میں ایک کاغذ پر بنایا تھا اور اب وہ دادو کے ہاتھوں پر لگ رہی تھی۔
”ویسے یہ دادو ہاتھ نہیں ہلا رہیں،بریرہ یہ جو تم دادو کے سر پہ مہندی لگاتے ہوئے دادو کا سر اِدھر سے اُدھر کر رہی ہو نا،اس سے دادو کا ہاتھ ہل رہا ہے” اقصٰی کو اصل وجہ سمجھ میں آئی۔
”جی نہیں،اصل میں سر پہ مہندی لگواتے ہوئے دادو کو بہت نیند آتی ہے،جب وہ نیند سے ایک دم جاگتی ہیں تو ان کا ہاتھ ہل جاتا ہے“ بریرہ نے صفائی پیش کی۔
”شکر اللہ کا،مجھے تو پیروں پر مہندی لگانی ہے،جو ہلتا نہیں اور ہل بھی جائے تو کوئی مسئلہ نہیں،کوئی ڈیزائن والی مہندی تھوڑی ہے“ یہ تیسری چمن تھی جس کا نام دادو نے اس لیے رکھا تھا کہ ان کی دادی بھی انہیں چمن کہتی تھیں۔۔
دادو یہ تمام گفتگو سن سن کر مسکرا رہیں تھیں،تینوں پوتیاں چاند رات کو دادو کو کسی دلہن کی طرح تیّار کرنے میں مصروف تھیں،پھر یکدم دادو کی مسکراہٹ غائب ہوئی اور وہ دور سر پہ مہندی کی ٹھنڈک کو محسوس کرتے آٹھ سال پیچھے چلی گئیں۔
———-
”مبارک ہو،ﷲ تعالٰی نے بیک وقت آپ کو تین پوتیوں سے نوازا ہے“نرس نے آکر اطلاع دی۔
”ما شاء اللہ،مبارک ہو سب کو ،بیک وقت اللہ کی تین رحمتیں میرے چمن میں رونق بکھیریں گی،ایک کا نام تو میں چمن رکھوںگی،ﷲ نصیب اچھے کرے،آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے“۔
دادو خوشی سے کہتی جا رہی تھیں۔
”میں نے بہت کم ساسیں پوتیوں کی پیدائش پر خوش دیکھیں ہیں،اور آپ کے ہاں تو بیک وقت تین ہوئی ہیں،حیرت ہے آپ کی خوشی دیکھ کر!“
نرس اپنی حیرت پہ قابو نہ رکھ پائی۔
”وہ بد نصیب ہوتے ہیں،کم ظرف ہوتے ہیں،یہ تو میری سہیلیاں بنے گی،میری غم گسار ہوںگی،دیکھو تو سسٹر،میری گڑیائیں کتنی معصوم ہیں!!“
نرس کا نام تو پتا نہیں تھا تو دادو نے سسٹر پہ گزارہ کیا۔
اس کے بعد لوگوں کے فون تواتر سے آتے رہے،کچھ کو حیرت تھی،کچھ کو افسوس،بھلا اس میں افسوس کی کیا بات ہے،سورہ الزخرف کی آیت دادو کے ذہن میں بار بار آتی،”کیا وہ جو زیورات میں پلے اور جھگڑوں میں اپنی بات واضح نہ کرسکے” دادو کو ایک بار پھر بہت پیار آیا۔۔
آنے جانے والوں کو دادو ہی دیکھ رہی تھیں۔دادو نے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے تھے،سب کی نظروں سے ان کی سوچ پڑھ سکتی تھیں۔
اور آج آٹھ سال بعد،دادو کا دِل چاہ رہا تھا،سب کو بُلا کر دکھائیں،دیکھو میری زندگی میں کتنے رنگ ہیں،چوڑیوں کے،کپڑوں کے،دیکھو میری شہزادیاں آج مجھے ملکہ سمجھ رہی ہیں ،مگر یہ خوشی بس کوئی کوئی ہی محسوس کر سکتا ہے۔۔
”دادو کی کمر کے پیچھے تکیہ لگا دو،تھک گئی ہونگی بیٹھے بیٹھے“
”اﷲ تم تینوں کو ہمیشہ خوش رکھے“
دادو مسکراتے ہوئے دل سے دعا دینے لگیں۔