گزشتہ ہفتے اکادمی ادبیات پاکستان کراچی میں جمالیاتی اقدار پر مذاکرہ اور شعری نشست ہوئی۔ پروگرام کی صدارت وقار زیدی نے کی، جنہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ نقادوں کی پسند بدلتی رہتی ہے لیکن ان کے استحسان کا نہج ایک ہی رہتا ہے، پسند اور استحسان کا فرق ادبی تنقید کی اصلاحات میں رواج پانے کے قابل ہے، بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ذاتی وجوہ کی بنا پر ایک نقاد کو کوئی شعر، افسانہ اور نظم بہت پسند آتا ہے، لیکن یہ تخلیقات پسند اور استحسان پر پوری نہیں اترتیں، لہٰذا یہ اس نقاد کی ذاتی رائے تو ہو سکتی ہے، تخلیق کو ہم کامیاب قرار نہیں دے سکتے۔ لاہور سے آئے ہوئے شاعر شفق عطاری اس پروگرام کے مہمانِ خصوصی تھے، انہوں نے کہاکہ ادب کی جمالیاتی اقدار کی تلاش ایک مشکل کام ہے، اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ گروہ بندیوں کے اسباب کی وجہ سے جینوئن شعرا کی جمالیاتی اقدار کا فروغ نہیں ہوپاتا۔ شجاع الزماں خان نے کہا کہ معروف ادیب ای ایم فوسٹر کا کہنا ہے کہ جب کوئی اچھا شعر پڑھا جاتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، سامعین پوری توجہ سے اس شعر سے استحسان حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اپنی تخلیقات کا خود ہی ناقد ہوں اور اپنے اشعار کو خوب سے خوب تر بنانے کی جستجو میں لگا رہتا ہوں۔ غنائیت بھی جمالیاتی اقدار میں شامل ہے۔ قادر بخش سومرو نے نظامت کے فرائض کی انجام دہی کے علاوہ خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ نقادوں کی رائے میں اختلاف ہونا ایک اچھی علامت ہے، اس سے ادب کی ترویج و اشاعت کے راستے کھلتے ہیں۔ بعض اوقات ادبی استحسان (ناقدانہ رائے) میں اتفاق ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاعروں سے ادب اور زبان کی ترقی مشروط ہے، ہمارا ادارہ علاقائی زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروفِ عمل ہے، ہم اپنے مشاعروں میں سندھی اور اردو شعرا کے علاوہ پختون، سرائیکی اور پنجابی زبان کے شعرا کے کلام سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس مشاعرے میں وقار زیدی، شفیق عطاری، شجاع الزماں خان، رفیق مغل ایڈووکیٹ، وحید محسن، عبدالستار رستمانی، محمد علی زیدی، جمیل ادیب سید، ارحم ملک، قادر بخش سومرو، قمر جہاں قمر، فرح دیبا، تابش دہلوی، ساجد احمد سجاد، صدیق راز ایڈووکیٹ، افضل ہزاروی اور محمد علی زیدی نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔