ایک اعلان سنئے

326

”حضرات ایک ضروری اعلان سنیے، وزیر آبی وسائل مؤنس الٰہی نے فرمایا ہے کہ موجودہ ڈیموں کی سلٹنگ کی وجہ سے پانی جمع کرنے کی صلاحیت میں شدید کمی واقع ہورہی ہے، پانی جمع کرنے کی صلاحیت میں شدید کمی کو کالا باغ ڈیم کم سے کم وقت میں بناکر پورا کیا جاسکتا ہے، اس لیے وہ کالا باغ ڈیم کی فزیبلٹی پروپوزل عنقریب کابینہ میں پیش کریں گے، اعلان ختم ہوا۔لیجیے جناب ایک اور حاتم طائی اپنے جوہر دکھانے کے لیے میدانِ عمل میں اترنے کو بے تاب ہیں، انہیں بھی پانی کی کمی کا ادراک ہو ہی گیا۔“
”سلیم بھائی اچھے کام کی تو تعریف ہونی چاہیے، اتنی بڑی خبر سن کر تنقید کرنا تمہیں زیب نہیں دیتا۔“
”یہ تنقید نہیں، حقیقت ہے۔ وہی پرانا راگ، جسے سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ یہ خبر سنانے سے پہلے مونس الٰہی کو مشورہ دے دیا ہوتا کہ جس ڈیم کو بنوانے کی نوید وہ سنا رہے ہیں اُس پر کام شروع کروانے کا بیان دینے سے پہلے اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیتے، میرا مطلب ہے کہ خاص طور پر اپنے والد پرویزالٰہی سے تو پوچھ لیتے، مجھے یقین ہے کہ اُن کی جانب سے ملنے والے جواب کے بعد موصوف نہ صرف چپ کا روزہ رکھنے پر مجبور ہوجاتے بلکہ کالا باغ تو دور کی بات.. لال، پیلے اور نیلے باغوں کا ذکر کرنے سے بھی توبہ کرلیتے۔“
”کیا فضول گفتگو کررہے ہو! نہ سر، نہ پیر، بس جو منہ میں آیا بولے جارہے ہو۔ کہاں کی بات کہاں ملا کر ذہانت کا رعب جھاڑ رہے ہو۔ بات کالا باغ ڈیم کی ہورہی ہے، ذکر خاندان کا لے آئے ہو.. آفرین ہے تم پر۔“
”میں کسی کی ذات پر انگلی نہیں اٹھا رہا، میں تو حقائق بیان کررہا ہوں۔ میری یہ رائے صرف پرویزالٰہی صاحب کے بارے میں نہیں بلکہ ہر صاحبِ اقتدار سے متعلق ہے۔ میں جانتا ہوں چودھری صاحبان انتہائی شریف النفس اور سادہ لوگ ہیں، لیکن کئی برس اقتدار میں رہنے کے باوجود انہوں نے بھی کبھی کالا باغ ڈیم کی تکمیل کے لیے کچھ نہ کیا، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سیاست دان سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ تم ابھی کم عمر ہو، شاید اس لیے تمہیں تاریخ سے مکمل آگاہی نہیں۔ میں خوب جانتا ہوں کہ اس منصوبے کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں نئی نہیں، یہ لمبی چوڑی داستان ہے جسے سن کر تمہارے اوسان خطا ہوجائیں گے۔“
”سیلم بھائی تمہاری باتیں میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ بات سیدھی سی ہے.. پانی زندگی ہے جو ہماری اور آنے والی نسلوں کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ یہ موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔ دنیا کی آبادی میں تیزی کے ساتھ آضافہ ہورہا ہے، اگر یہی صورتِ حال رہی تو مجھے لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں پانی کے حصول پر جنگیں ہوں گی۔ اس نازک صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے اگر کوئی کالا باغ ڈیم بنانے کی بات کررہا ہے تو اس میں کیسی رکاوٹ اور کون سی لمبی چوڑی داستانیں! ہمیں اس کوشش کو سراہتے ہوئے اچھے کی امید رکھنی چاہیے۔“
”عارف میں نے اس منصوبے کے خلاف کب بات کی؟ میں تو تاریخی حقائق بیان کررہا ہوں جو سچ ہیں۔ جیسا کہ پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ کام ممکن نہیں، اور نہ ہی مونس الٰہی کے بس کی بات ہے۔ اگر سننا چاہتے ہو تو سنو: کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ سب سے پہلے انگریز دور میں ہوا، پاکستان وجود میں آنے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے بھی اس منصوبے کو ملک کے لیے اہم سمجھا۔ اسی طرح ایوب خان اور ضیاء الحق کے ادوار میں بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں توانائیاں صرف کی گئیں، بلکہ ضیاء دور میں تو اُس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے خاصی راہ بھی ہموار کی، لیکن نتیجہ صفر رہا۔ پھر نوازشریف حکومت نے ایٹمی دھماکوں کی نوید سناتے ہوئے کالا باغ ڈیم کا دھماکا کرنے کا بھی اعلان کردیا، مگر جوہری میدان میں کامیابی کے باوجود وہ اس مشن میں ناکام رہے، بلکہ اب تو وہ اس منصوبے کے بارے میں بات تک کرنا پسند نہیں کرتے۔ جنرل پرویزمشرف ملک کی طاقتور ترین شخصیت سمجھے جاتے تھے، لیکن لامحدود اختیارات ہونے کے باوجود وہ بھی بے بس رہے۔ آخری مرتبہ اس سنگِ میل کو عبور کرنے کے لیے راجا پرویزاشرف نے لنگوٹ کسا، لیکن اُن کا حال بھی سابق پہلوانوں جیسا ہی ہوا… اور تو اور، ابھی کل ہی کی بات ہے جنہیں بعض لوگ ڈیم بابا کے نام سے جانتے ہیں، فرما رہے تھے کہ کالا باغ ڈیم بناکر دکھاؤں گا۔ پھر کیا ہوا؟ ایک نئے ڈیم کے لیے رقم اکٹھی کرنے کا بھاشن دے کر نہ جانے کون سی دنیا میں جا بسے۔ ماضی کے ان تلخ حقائق کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ مونس الٰہی بھی جلد اپنے بیان پر معذرت کرتے ہوئے کسی دوسرے ڈیم کی تعمیر کا نعرہ لگاتے پاتال میں جا چھپیں گے۔“
عارف اور سیلم کے درمیان ہونے والی گفتگو کا کیا نتیجہ نکلا، اس سے قطع نظر عارف کی جانب سے ادا کیے جانے والے کسی فلسفی کے اس جملے (آنے والے وقتوں میں پانی کے حصول پر جنگیں ہوں گی) نے میرے ذہن کو ہلا کر رکھ دیا۔
اس وقت میرے ذہن میں ایک اور عظیم سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کے الفاظ بھی آنے لگے، جس نے کہا تھا کہ میں دنیا چھوڑ کر جارہا ہوں، اس کے تین بڑے مسائل ہیں: (1) پانی، (2) دنیا کو خوراک کی فراہمی، اور (3) گلوبل وارمنگ۔ ان کے سوا باقی سارے ہی مسائل ثانوی ہیں۔ خیر جس فلسفی نے یہ کہا تھا کہ دنیا میں آئندہ جنگیں پانی پر ہوا کریں گی، وقت گزرنے کے ساتھ وہ سچا ثابت ہورہا ہے، تبھی تو عارف جیسا شخص بھی اس سچائی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے۔ اب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ان افراد نے مستقبل کے چیلنجوں کو کیسے بھانپ لیا؟ تو بات سیدھی سی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیاں کرۂ ارض کے فطری نظاموں کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہیں۔ صاف پانی کے سب سے بڑے ذخائر جو گلیشیرز کی شکل میں موجود ہیں براہِ راست اس کے نشانے پر ہیں، جبکہ پانی کے دیگر قدرتی ذخائر جن میں دریا، ندی، نالے، آبشاریں اور جھیلیں شامل ہیں، ان میں بھی کمی واقع ہورہی ہے۔ میرے نزدیک اس صورتِ حال میں اگر پانی کے استعمال اور اسٹور کرنے کے طریقِ کار پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو آئندہ آنے والے برسوں میں پانی کی فراہمی میں 40 فیصد تک کمی ہوجائے گی۔ اس وقت دنیا بھر کے 70 فیصد دریائوں کا رخ مختلف سمتوں میں موڑ کر انسانی استعمال کے لیے پانی کو سمندر میں گرنے سے محفوظ کرلیا گیا ہے۔دنیا نے تو اپنا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے کام شروع کردیا لیکن ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، جبکہ ہر ذی شعور انسان با خبر ہے کہ پانی کی قلت کا مسئلہ پاکستان میں ہر آنے والے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ایک زمانہ تھا جب ہمارے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اور قائدین ووٹ حاصل کرنے کے لیے سبز باغ دکھایا کرتے تھے، پھر وہ وقت آیا جب عوام کی سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے سبز باغ کی جگہ کالاباغ دکھایا جانے لگا جس کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے، لیکن کسی رہنما نے کبھی بھی پانی ذخیرہ کرنے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ شاید ان کی کوئی مجبوری رہی ہو۔ میں ان سیاسی قائدین کی نیت پر شک نہیں کرتا، لیکن گلہ ضرور کر سکتا ہوں، اور وہ یہ کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک کے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے پانی جیسی نعمت کو بھی سیاست کی نذر کردیا۔ ہمارے ملک میں 85 فیصد پانی انڈین کشمیر اور افغانستان سے آتا ہے۔ ہمارے لیے افسوس کا مقام ہے کہ انڈیا نے ڈیم بناکر 30 فیصد پانی کو نہ صرف محفوظ کرلیا ہے بلکہ وہ 500 ڈیم اور تعمیر کرکے مزید 50 فیصد پانی کو بھی محفوظ کرنا چاہتا ہے، جبکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا پاکستان آتے پانی کا رخ تبدیل کرنے یا اسے روکنے کا حق نہیں رکھتا۔ انڈیا افغانستان میں دریائے کابل پر بنائے جانے والے ڈیم میں بھی سرمایہ لگا رہا ہے، اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اگر یہی صورتِ حال رہی اور پاکستان نے فوری اقدامات نہ کیے تو مستقبل میں پاکستان کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا ابھی بھی وقت ہے، ملک و قوم کی خاطر تعصب کی عینک اتارکر تقریریں اور اعلانات کرنے کے بجائے آنے والی نسلوں کی بقا کی خاطر عملی اقدامات کیجیے، خاص طور پر کالا باغ ڈیم پر سیاست کے بجائے سنجیدگی، حکمت، تدبر اور دانائی کا مظاہرہ کیجیے۔ غیر جانب داری سے ان حقیقی اعداد و شمار کو دیکھیے جن کے تحت کالاباغ ڈیم کی تعمیر انتہائی سودمند ہے، یقین کیجیے یہ معاشی انقلاب کا دروازہ ہے، ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ یہ ڈیم پاکستان کے عوام کو درپیش بنیادی مسائل یعنی توانائی و آب پاشی اور پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے ایک بہتر اور پائیدار منصوبہ ہے، اس کے علاوہ ڈیم کی جھیل میں جمع ہونے والا پانی ماحول پر مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ ماہرین کی رائے ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد قریبی اضلاع کے درجۂ حرارت میں کمی واقع ہوگی۔ ڈیم کی تعمیر کے دوران ابتدائی طور پر 35 ہزار افراد کو روزگار ملے گا۔ ڈیم سے نہری پانی میں اضافہ ہوگا اور نہروں کے ذریعے اُن علاقوں تک بھی پانی پہنچایا جاسکے گا جہاں زراعت کے لیے پانی پہنچانا انتہائی مشکل ہے۔ پاکستان کے دریائوں کا 35 ملین ایکڑ فٹ پانی ہر سال سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے ضائع ہونے والے پانی کو نہ صرف محفوظ کیا جاسکتا ہے بلکہ 24 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو قابلِ کاشت بھی بنایا جاسکتا ہے۔
اس طرح خیبر پختون خوا اور پنجاب کے جنوبی علاقے، بلوچستان کے مشرقی حصے اور سندھ کے زیریں علاقے کالا باغ ڈیم کے پانی کی بدولت قابلِ کاشت بنائے جاسکتے ہیں۔
کالا باغ ڈیم میں تین سال کے لیے پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ کالاباغ ڈیم سے خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع کرک، بنوں، ٹانک، لکی مروت، اور ڈیرہ اسماعیل خان کو زرعی مقاصد کے لیے مزید 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکے گا۔ اس پانی سے دریائے سندھ کی سطح سے بلندی پر واقع علاقوں میں تقریباً 8 لاکھ ایکڑ زمین زیر کاشت آسکے گی، جبکہ صوبہ سندھ کو 40 لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی مہیا ہوسکے گا، یوں صوبہ سندھ میں خریف کی فصل کے لیے بھی پانی دستیاب ہوگا۔ اس کے علاوہ بلوچستان کو 15لاکھ ایکڑ فٹ، پنجاب کو 22 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکے گا، جس سے جنوبی پنجاب کی 16لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین قابلِ کاشت ہوجائے گی۔
یاد رکھیے، کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں مسلسل تاخیر سے نہ صرف ملک کی خوراک کی ضروریات بری طرح متاثر ہورہی ہیں بلکہ زرِمبادلہ کا خطیر حصہ مختلف اجناس کی درآمد پر صرف کرنا پڑرہا ہے۔ اگر صورتِ حال یہی رہی تو 2025ء تک ملکی پیداوار میں 43 فیصد تک کمی ہوجائے گی اور تھرمل بجلی کے استعمال کا اضافی بوجھ خزانے پر پڑے گا۔ جبکہ کالا باغ ڈیم سے 3600 میگا واٹ بجلی دستیاب ہوگی جو بجلی کی انتہائی طلب کا 20 فیصد کے لگ بھگ ہوگا، اور نہ صرف سستی پن بجلی کی فراہمی میں سالانہ11.4بلین یونٹ کا بہترین اضافہ ہوگا بلکہ نیشنل گرڈ کے ترسیلی نظام کے ذریعے صوبوں کو بآسانی بجلی کی سپلائی بھی ممکن بنائی جا سکے گی۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر اور سستی بجلی کی فراہمی سے بجلی کے ٹیرف کو مستحکم بنانے میں مدد ملے گی۔ اِس ڈیم کی تکمیل کے بعد آب پاشی نظام، بجلی کی ترسیل، اور سیلاب کی صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کی مد میں سالانہ 60 ارب روپے کا فائدہ ہوگا۔ میں پھر کہتا ہوں کہ پاکستان میں ہر برس سیلاب کی صورتِ حال انتہائی خطرناک ہورہی ہے جس سے کھربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان میں نامساعد حالات کے لیے پانی 45 دنوں کے لیے ذخیرہ کیا جاتا ہے، جبکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے مزید 60 دن کے لیے پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔ یوں ہم اپنی زرعی ضروریات کے لیے 105دنوں کا پانی ذخیرہ کرسکتے ہیں۔
آخر میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ تحریر کردہ فوائد کالا باغ ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے پر حاصل کیے جاسکتے ہیں، بصورتِ دیگر یہ یاد رکھنا ہوگا کہ آنے والے وقتوں میں پانی کے حصول پر جنگ ہوسکتی ہے۔

حصہ