برادرانِ اسلام قرآن مجید میں جہاں یہ ذکر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حج کی عام منادی کرنے کا حکم دیا تھا‘ وہاںاس حکم کی پہلی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ لِّیَشْھَدُوْامَنَافِعَ لَھُمْ (الحج۔ 28:22)
تاکہ لوگ یہاں آکردیکھیں کہ اس حج میں ان کے لیے کیسے کیسے فائدے ہیں۔
یعنی یہ سفر کرکے اور اس جگہ جمع ہو کر وہ خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیں کہ یہ انہی کے نفع کے لیے ہے اور اس میں جو فائدے پوشیدہ ہیں ان کا اندازہ کچھ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ آدمی یہ کام کرکے خود دیکھ لے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ علیہ کے متعلق روایت ہے کہ جب تک انہوں نے حج نہ کیا تھا‘ انہیں اس معاملے میں تردد تھا کہ اسلامی عبادات میں سب سے افضل کون سی عبادت ہے‘ مگر جب انہوں نے خود حج کرکے ان بے حد و حساب فائدوں کو دیکھا جو اس عبادت میں پوشیدہ ہیں‘ تو بے تامل پکار اٹھے کہ یقیناً حج سب سے افضل ہے۔
آیئے! اب میں آپ کو مختصر الفاظ میں اس کے فائدے بتائوں:
سفر حج کی نوعیت:
دنیا کے لوگ عموماً دو ہی قسم کے سفروں سے واقف ہیں:
٭ ایک سفر وہ جو روٹی کمانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
٭ دوسرا وہ جو سیر و تفریح کے لیے کیا جاتا ہے۔
ان دونوںقسم کے سفروں میں اپنی غرض اور اپنی خواہش آدمی کو باہر نکلنے پر آمادہ کرتی ہے۔ گھر چھوڑتا ہے تو اپنی غرض کے لیے‘ بال بچوں اور عزیزوں سے جدا ہوتا ہے تو اپنی خاطر۔ مال خرچ کرتا ہے یا وقت صَرف کرتا ہے تو اپنے مطلب کے لیے۔ لہٰذا اس میں قربانی کا کوئی سوال نہیںہے‘ مگر یہ سفرجس کانام حج ہے‘ اس کا معاملہ اور سب سفروںسے بالکل مختلف ہے۔ یہ سفر اپنی کسی غرض کے لیے یا اپنے نفس کی خواہش کے لیے نہیں ہے‘ بلکہ صرف اللہ کیلیے ہے اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔ اس سفر پر کوئی شخص اس وقت تک آمادہ ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کے دل میں اللہ محبت نہ ہو‘ اس کا خوف نہ وہ اور اس کے فرض کو فرض سمجھنے کا خیال نہ ہو۔ پس جو شخص اپنے گھر بار سے ایک لمبی مدت کے لیے علیحدگی‘ اپنے عزیزوں سے جدائی‘ اپنے کاروبار کا نقصان‘ اپنے مال کا خرچ اور سفر کی تکلیفیں گوارا کرکے حج کو نکلتا ہے اس کا نکلنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے اندر خوفِ خدا اور محبتِ خدا بھی ہے اور فرض کا احساس بھی اور اس میں یہ طاقت بھی موجود ہے کہ اگرکسی وقت خدا کی راہ میں نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ نکل سلتا ہے‘ تکلیفیں اٹھا سکتا ہے‘ اپنے مال اور اپنی راحت کو خدا کی خوشنودی پر قربان کر سکتا ہے۔
نیکی اور تقویٰ کی رغبت:
پھر جب وہ ایسے پاک ارادے سے سفر کے لیے تیار ہوتا ہے تو اس کی طبیعت کا حال کچھ اور ہی ہوتا ہے‘ جس دل میں خدا کی محبت کا شوق بھڑک اٹھا ہو اور جس کو ادھر کی لو لگ گئی ہو‘ اس میں پھر نیک ہی نیک خیال آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ گناہوںسے توبہ کرتا ہے اور لوگوں سے اپنا کہا سنا بخشواتاہے۔ کسی کا حق اس پر آتا ہے تو اسے ادا کرنے کی فکر کرتا ہے تاکہ خدا کے دربار میں بندوں کے حقوق کا بوجھ لادے ہوئے نہ جائے۔ برائی سے اس کے دل کو نفرت ہونے لگتی ہے اور قدرتی طور پر بھلائی کی طرف رغبت بڑھ جاتی ہے۔ پھر سفر کے لیے نکلنے کے ساتھ ہی جتنا جتنا وہ خدا کے گھر کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اتنا ہی اس کے اندر نیکی کا جذبہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو اس سے اذیت نہ پہنچے اور جس کی جتنی خدمت یا مدد ہو سکے کرے۔ بدکلامی و بے ہودگی‘ بے حیائی‘ بددیانتی اور جھگڑا فساد کرنے سے خود اس کی اپنی طبیعت اندر سے رکتی ہے کیوں کہ وہ خدا کے راستے میں جا رہا ہے۔ حرمِ الٰہی کا مسافر ہو اور پھر بُرے کام کرتا ہواجائے‘ ایسی شرم کی بات کسی سے کیسے ہو؟ اس کا تو یہ سفر پورے کا پورا عبادت ہے‘ اس عبادت کی حالت میں ظلم اور فسق کا کیا کام؟ پس دوسرے تمام سفروں کے برعکس یہ ایسا سفرہے جو ہر قدمِ آدمی کے نفس کو پاک کرتا رہتا ہے اور یوں سمجھو کہ یہ ایک بہت بڑا اصلاحی کورس ہے جس سے لازماً ہر اُس مسلمان کو گزرنا ہوتا ہے جو حج کے لیے جائے۔
احرام اور اس کے شرائط:
سفر کا ایک حصہ ختم کر چکنے کے بعد ایک خاص حد ایسی آتی ہے جس سے کوئی مسلمان جو مکہ جانا چاہتا ہو‘ احرام باندھے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ احرام کیا ہے؟ ایک فقیرانہ لباس‘ جس میں ایک تہہ بند‘ ایک چادر اور جوتی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک جو کچھ تم تھے سو تھے‘ مگر اب جو تمہیں خدا کے دربار میں جانا ہے تو فقیر بن کرچلو۔ ظاہر میں بھی فقیر بنو اور دل کے فقیر بھی بننے کی کوشش کرو۔ رنگین کپڑے اور آرائش کے لباس اتارو۔ سادہ اور درویشانہ طرز کا لباس پہن لو۔ موزے نہ پہنو۔ سر کھلا رکھو‘ خوشبو نہ لگائو‘ بال نہ بنائو۔ ہر قسم کی زینت سے پرہیز کرو۔ عورت اور مرد کا تعلق بند کر دو‘ بلکہ ایسی حرکات و سکنات اور ایسی باتوں سے بھی پرہیز کرو جو اس تعلق کا شوق یا اس کی یاد دلانے والی ہوں۔ شکار نہ کرو‘ بلکہ شکاری کو شکار کا نشان دینے یا اس کا پتا بتانے سے بھی اجتناب کرو۔ ظاہر میں جب یہ رنگ اختیار کرو گے تو باطن پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔ اندر سے تمہارا دل بھی فقیر بنے گا‘ کبر و غرور نکلے گا‘ مسکینی اور امن پسندی پیدا ہوگی‘ دنیا اور اس کی لذتوں میں پھنسنے سے جو کچھ آلائشیں تمہاری روح کو لگ گئی تھیں وہ صاف ہوں گی اور خدا پرستی کی کیفیت تمہارے اوپر بھی طاری ہوگی اور اندر بھی۔
تلبیہ:
احرام باندھنے کے ساتھ جو کلمات حاجی کی زبان سے نکلتے ہیں‘ جن کو وہ ہر نماز کے بعد اور ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر پستی کی طرف اترتے وقت اور ہر قافلے سے ملتے وقت اورہر روز صبح نیند سے بیدار ہو کر بلند آواز سے پکارتا ہے‘ وہ یہ ہیں:
لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک لَبَّیْک لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْک اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ۔
’’حاضر ہوں‘ میرے اللہ میں حاضر ہوں‘ حاضر ہوں‘ حاضر ہوں‘ تیراکوئی شریک نہیں‘ میں حاضر ہوں‘ یقیناً تعریف سب تیرے ہی لیے ہے۔ نعمت سب تیری ہے اور ساری بادشاہی تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
یہ دراصل حج کی اس ندائے عام کا جواب ہے جو ساڑھے چار ہزار برس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے کی تھی۔ پینتالیس صدیاں گزر چکی ہیں جب پہلے پہل اللہ کے اس منادی نے پکارا تھا کہ ’’اللہ کے بندو! اللہ کے گھر کی طرف آئو‘ زمین کے ہر گوشے سے آئو‘ خواہ پیدل آئو‘ خواہ سواریوں پر آئوں۔‘‘ جواب میں آج تک حرمِ پاک کا ہر مسافر بلند آواز سے کہہ رہا ہے:
’’میں حاضر ہوں‘ میرے اللہ! میں حاضر ہوں‘ تیرا کوئی شریک نہیں‘ میں صرف تیری طلبی پر حاضر ہوں‘ تعریف تیرے لیے ہے‘ نعمت تیری ہے‘ ملک تیرا ہے‘ کسی چیز میں تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
اس طرح لبیک کی ہر صدا کے ساتھ حاجی کا تعلق سچی اور خالص خدا پرستی کی اس تحریک سے جڑجاتا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے وقت سے چلی آرہی ہے۔ ساڑھے چار ہزار برس کا فاصلہ بیچ میں سے ہٹ جاتا ہے۔ (حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا دورِ نبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے تقریباً 25 سو برس پہلے ہے۔) یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا اُدھر اللہ کی طرف سے حضرت ابراہیم علی السلام پکار رہے ہیں اور ادھر سے یہ جواب دے رہا ہے۔ جواب دیتا جاتا ہے اور بڑھتا جاتاہے۔ جوں جوں آگے بڑھتا ہے شوق کی کیفیت اور زیادہ تیز ہوتی جاتی ہے۔ ہر چیز چڑھائو اور اتار پر اس کے کانوں میں اللہ کے منادی کی آواز گونجتی ہے اور یہ اس پر لبیک کہتا ہوا آگے چلتا ہے۔ ہر قافلہ اسے وہیں کا پیامی معلوم ہوتا ہے اور ایک عاشق کی طرح یہ اس کا پیام سن کر پکارتا ہے ’’میں حاضر‘ میں حاضر۔‘‘
ہر نئی صبح اس کے لیے گویا پیغامِ دوست لاتی ہے اور نور کے تڑکے میں آنکھ کھولتے ہی یہ لَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کی صدا لگانے لگتا ہے۔ غرض یہ بار بار کی صدا احرام کے اس فقیرانہ لباس‘ سفر کی اس حالت اور منزل بہ منزل کعبہ کے قریب تر ہوتے جانے کی اس کیفیت کے ساتھ مل کر کچھ ایسا سماں باندھ دیتی ہے کہ حاجی عشق الٰہی میں ازخود رفتہ ہو جاتاہے اور اس کے دل کی یہ حالت ہوتی ہے کہ بس ایک یادِ دوست کے سوا ’’آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا۔‘‘
اس شان سے حاجی مکہ پہنچتا ہے اور جاتے ہی سیدھا اس آستانے کا رخ کرتا ہے جس کی طرف بلایا گیا تھا۔ آستانِ دوست کو چومتا ہے‘ پھر اپنے عقیدے‘ اپنے ایمان‘ اپنے دین و مذہب کے اس مرکز کے گرد چکر لگاتا ہے اور ہر چکر آستانہ بوسی سے شروع اور آستانہ بوسی ہی پر ختم کرتا جاتا ہے۔ اس کے بعد مقامِ ابراہیم پر دو رکعتیں سلامی کی پڑھتا ہے‘ پھر وہاں سے نکل کر کوہِ صفا پر چڑھتا ہے اور وہاں سے جب کعبہ پر نظر پڑتی ہے تو پکار اٹھتا ہے:
’’کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا‘ کسی دوسرے کی ہم بندگی نہیں کرتے‘ ہماری اطاعت صرف اللہ کے لیے خاص ہے خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
سعی صفا و مروہ:
پھر وہ صفا اور مروہ کے درمیان دوڑتاہے‘ گویا اپنی حالت سے اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ یونہی اپنے مالک کی خدمت میں اور یونہی اس کی خوشنودی کی طلب میں ہمیشہ سعی کرتارہے گا۔ اس سعی کے دوران میں کبھی اس کی زبان سے نکلتا ہے ’’خدایا مجھ سے کام لے اُسی طریقے پر جو تیرے نبیؐ کا طریقہ ہے اورمجھے موت دے اسی راستے پر جو تیرے نبیؐ کا راستہ ہے اور زندگی میں مجھے بچا ان فتنوں سے جو راہِ راست سے بھٹکانے والے ہیں۔‘‘
اور کبھی کہتا ہے ’’پرودگار! معاف کر اور رحم کر‘ میرے جن قصوروں کو توجانتا ہے ان سے درگزر کر‘ تیری طاقت سب سے بڑھ کر ہے اور تیرا کرم بھی سب سے بڑھ کر ہے۔‘‘
وقوفِ منیٰ‘ عرفات اور مزدلفہ:
اس کے بعد وہ گویا اللہ کا سپاہی بن جاتا ہے اور اب پانچ چھ روز اس کو کیمپ کی سی زندگی بسر کرنی ہوتی ہے۔ ایک دن منیٰ میں پڑائو ہے‘ دوسرے دن عرفات میں کیمپ ہے اور خطبے میں کمانڈر کی ہدایات سنی اجرہی ہیں‘ رات مزدلفہ میں جا کر چھائونی ڈالی جاتی ہے۔
رَمی جمار:
دن نکلتا ہے تو منیٰ کی طرف کوچ ہوتا ہے اور وہاں اس ستون پر کنکریوں سے چاند ماری (نشانہ بازی) کی جاتی ہے جہاں تک اصحابِ فیل کی فویں کعبہ کو ڈھانے کے لیے پہنچ گئی تھیں۔ ہر کنکری مارنے کے ساتھ اللہ کا سپاہی کہتا جاتا ہے:
-1 کبریائی صرف اللہ کے لیے ہے اور شکست و ذلت شیطان اور اُس کے گماشتوں کا مقدر ہے۔‘‘
-2 ’’پروردگار! ہم تیری کتاب کی تصدیق اور تیرے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت کی پیروی میں یہاں حاضر ہوئے ہیں۔‘‘
کنکریوںکی اس چاند ماری کا مطلب یہ ہے کہ خدایا!جو تیرے دین کو مٹانے اور تیرا بول (کلمہ) نیچا کرنے اٹھا گا‘ میں اس کے مقابلے میں تیرا بول بالا کرنے کے لیے یوں لڑوں گا۔ پھر اسی جگہ قربانی کی جاتی ہے تاکہ راہِ خدا میں خون بہانے کی نیت اور عزم کا اظہار عمل سے ہو جائے۔ پھر وہاں سے کعبہ کا رخ کیا جاتا ہے‘ جیسے سپاہی‘اپنی ڈیوٹی ادا کرکے ہیڈ کوارٹر کی طرف سرخ رُو واپس آرہا ہے۔ طواف اور دو رکعتوں سے فارغ ہو کر احرام کھل جاتا ہے۔ جو کچھ حرام کیا گیا تھا وہ اب پھر حلال ہو جاتا ہے اور اب حاجی کی زندگی پھر معمولی طور پر شروع ہو جاتی ہے۔ اس معمولی زندگی کی طرف پلٹنے کے بعد حاجی منیٰ میں جا کر پھر کیمپ کرتا ہے اور دوسرے دن پتھر کے ان تین ستونوں پر باری باری کنکریوں سے پھر چاند ماری کرتا ہے جن کو ’’جمرات‘‘ کہتے ہیںاور جو دراصل اُس ہاتھی والی فوج کی پسپائی اور تبای کی یادگار ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے سال عین حج کے موقع پر اللہ کے گھر کو ڈھانے آئی تھی اور جسے اللہ کے حکم سے آسمانی چڑیوں نے کنکریاں مار مار کر تباہ کر دیا تھا۔ تیسرے دن پھر ان ستونوں پر سنگ باری کرنے کے بعد حاجی مکہ پلٹتاہے اور سات دفعہ اپنے دین کے مرکز کا طواف کرتا ہے‘ یہ طوافِ وداع ہے اور اس سے فارغ ہونے کے بعد معنی حج سے فارغ ہو جانے کے ہیں۔
حج کی برکات و اثرات:
یہ ساری تفصیل جو آپ نے سنی اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ حج کے ارادے اور اس کی تیاری سے لے کر اپنے گھر واپس آنے تک‘ دو تین مہینے کی مدت میں کتنے زبردست اثرات آدمی کے دل اور دماغ پر پڑتے ہیں۔ اس میں وقت کی قربانی ہے‘ مال کی قربانی ہے‘ آرام و آسائش کی قربانی ہے‘ بہت سے دنیوی تعلقات کی قربانی ہے‘ بہت سی نفسانی خواشوں اور لذتوں کی قربانی ہے اور یہ سب کچھ اللہ کی خاطر ہے‘ کوئی ذاتی غرض اس میں شامل نہیں۔ پھر اس سفر میں پرہیزگاری و تقویٰ کے ساتھ مسلسل خدا کی یاد اور خدا کی طرف شوق وعشق کی جو کیفیت آدمی پر گزرتی ہے وہ اپنا ایک مستقل نقش دل پر چھوڑ جاتی ہے جس کا اثر برسوں قائم رہتا ہے۔ پھر حرم کی سرزمین میں پہنچ کر قدم قدم پر انسان ان لوگوں کے آثار دیکھتا ہے جنہوں نے اللہ کی بندگی و اطاعت میں انا سب کچھ قربان کیا۔ دنیا بھر سے لڑے‘ مصبتیں اٹھائیں‘ جلا وطن ہوئے‘ ظلم پرظلم سہے مگر بالآخر اللہ کا کلمہ بلند کرکے چھوڑا اور ہر اس باطل قوت کا سر نیچا کرکے ہی دم لیا جو انسان سے اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرانا چاہتی تھی۔ ان آیاتِ بینات اور ان آثار متبرکہ کو دیکھ کر ایک خدا پرست آدمی عزم و ہمت اور جہاد فی سبیل اللہ کا جو سبق لے سکتا ہے‘ شاید کسی دوسری چیز سے نہیں لے سکتا۔ پھر طوافِ کعبہ سے اس مرکزِ دین کے ساتھ جو وابستگی ہوتی ہے اور مناسکِ حج میں دوڑ دھوپ‘ کوچ اور قیام سے مجاہدانہ زندگی کی جو مشق کرائی جاتی ہے اسے اگر آپ نماز اور روے اور زکوٰۃ کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ یہ ساری چیزیں کسی بہت بڑے کام کی ٹریننگ ہیں جو اسلام مسلمانوں سے لینا چاہتا ہے۔ اسی لیے ہر اُس مسلمان پر جو کعبہ تک جانے آنے کی قدرت رکھتا ہو‘ حج لازم کر دیا گیا ہے تاکہ جہاں تک ممکن ہو ہر زمانے میں زیادہ سے زیادہ مسلمان ایسے موجود رہیں جو اس پوری ٹریننگ سے گزر چکے ہوں۔
حج ایک اجتماعی عبادت:
لیکن حج کے فائدوں کا پورا اندازہ کرنے سے آپ قاصر رہیں گے جب تک یہ بات آپ کے پیش نظر نہ ہو کہ ایک ایک مسلمان اکیلا حج نہیں کرتا ہے بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے حج ایک ہی زمانہ رکھا گیا ہے اور ہزاروں لاکھوں مسلمان مل کر ایک وقت میں حج ادا کرتے ہیں۔ پہلے جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اس سے تو آپ کے سامنے صرف اتنی بات آئی ہے کہ فرداً فرداً ایک ایک حاجی پر اس عبادت کا کیا اثر ہوتا ہے۔ اب میںآئندہ خطبے میں آپ کو یہ بتائوں گا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے حج کاایک ہی وقت مقرر کرکے ان فائدوں کو کس طرح لاکھوں درجے بڑھا دیا گیا ہے۔ اسلام کا کمال یہی ہے کہ بیک کرشمہ دو کار نہیں بلکہ ہزار کار نکال لے جاتا ہے۔ نماز علیحدہ پڑھنے ہی میں کچھ کم فائدے نہ تھے‘ مگر اس کے ساتھ جماعت کی شرط لگا کر اور امامت کا قاعدہ مقرر کرکے اور جمعہ و عیدین کی بڑی جماعتیں بنا کر اس کے فائدوں کو بے حد و حساب بڑھا دیا گیا۔ روزہ فرداً فرداً رکھنا بھی اصلاح اور تربیت کا بہت بڑا ذریعہ تھا‘ مگر سب مسلمانوں کے لیے رمضان کا ایک ہی مہینہ مقرر کرکے اس کے فائدے اتنے بڑھا دیے گئے کہ شمار میں نہیں آ سکتے۔ زکوٰۃ الگ الگ دینے میں بھی بہت خوبیاں تھیں‘ مگر اس کے لیے بیت المال کا نظام مقرر کرکے اس کی منفعت اتنی زیادہ کر دی گئی کہ آپ اس کا اندازہ اس وقت تک کر ہی نہیں سکتے جب تک اسلامی حکومت قائم نہ ہو‘ اور آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں کہ تمام مسلمانوںکی زکوٰۃ ایک جگہ جمع کرکے ایک انتظام کے ساتھ مستحقین میں تقسیم کرنے سے کتنی خیر و برکت ہوتی ہے۔ یہی معاملہ حج کا بھی ہے۔ اکیلا اکیلا آدمی حج کرے‘ تب بھی اس کی زندگی میں بہت بڑا انقلاب ہو سکتا ہے‘ مگر تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک ہی وقت میں مل کر حج کرنے کا قاعدہ مقرر کر کے تو اس کے فائدوں کی کوئی حد باقی ہی نہیں رکھی گئی۔
(جاری ہے)