آئو کچھ دوست پرانے ڈھونڈیں

573

قلم سے رابطے جوڑنے اور قلم والوں کو تلاش کرکے اُن کے قلم سے رشتہ نبھانے کے احوال جاننے کی لگن حریم ادب کی سرگرمیوں میں شامل ہے۔ گزشتہ دنوں عابدہ رحمانی صاحبہ کی پاکستان آمد کی خبر ہوا کے دوش پر موصول ہوئی تو حریم ادب نے اُن کے ساتھ ایک نشست کے لیے کوشش کی، جس میں آخرکار کامیابی ملی اور محترمہ عابدہ رحمانی سے زوم نشست کا وقت متعین ہوگیا۔
آپ حیرت میں ہوں گے کہ عابدہ رحمانی سے تعارف تو کروایا ہی نہیں۔ تو جناب! ہم بتا دیتے ہیں کہ آپ کینیڈا میں مقیم قلم کی شہسوار ہیں، اکثر و بیشتر اپنے مشاہدات اردو اور انگریزی میں تحریر کرتی رہتی ہیں۔ بیرونِ ملک قلم کاروں کی انجمن ’’اِکنا‘‘ Islamic Circle of North America)کی ممبر ہیں۔ آپ کی متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں ’’زندگی اک سفر‘‘ 2009ء میں شائع ہوئی، اور خودنوشت ’’مجھے یاد ہے اب ذرا ذرا‘‘ 2011ء میں شائع ہوئی اور بہت مقبول ٹھیری۔
زوم کی یہ نشست نگراں حریمِ ادب عشرت زاہد صاحبہ کی زیر نگرانی رکھوائی گئی، جس میں عابدہ رحمانی کے علاوہ بانی حریمِ ادب عقیلہ اظہر، ممتاز کالم نگار اور بلاگر محترمہ افشاں نوید، نگراں نشرو اشاعت کراچی ثمرین احمد، جسارت میگزین کی ایڈیٹر غزالہ عزیز، حریمِ ادب پاکستان کی نمائندہ فریحہ مبارک اور فرحی نعیم کے علاوہ دیگر کئی قلم کاروں نے شرکت کی۔ نشست کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا، اور پھر محترمہ افشاں نوید نے حریم ادب کی سالانہ اور ماہانہ سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے عابدہ رحمانی کو خوش آمدید کہا۔ ’’ادب میں وقت کے ساتھ تبدیلی اور معاشرے میں اس کا کردار کیا ہے؟‘‘ کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج موبائل اور کمپیوٹر ہمارے قلم اور قرطاس کا روپ دھار چکے ہیں۔ اگرچہ کثیر علم آج ہماری انگلیوں کے ٹپس پر موجود ہے لیکن یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کتنا مثبت انداز میں اسے استعمال کرتے ہیں، اور خود کو ضائع ہونے سے بچانے پر کتنا فوکس کیے ہوئے ہیں۔ لوگ مغرب میں رہتے ہوئے اپنی نسل کو بچانے کی کوشش بہت کرتے ہیں لیکن پابندی نہیں کرسکتے۔
بائیس سال پہلے اور آج کے پاکستانی معاشرے میں آپ کو کیا تبدیلی محسوس ہوتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں عابدہ رحمانی نے کہا کہ ترقی ہوئی ہے، سوچ بھی بدلی ہے اور طور طریقوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ماضی میں شادی سے قبل لڑکے لڑکی کا میل ملاپ پسندیدہ نہیں تھا، مگر آج اس طرح کے معاملات کو عام بات کے طور پر لیا جانے لگا ہے۔ میڈیا کی وجہ سے وہاں کا کلچر اب یہاں بھی نمایاں ہیں، اس کے علاوہ ماضی کی نسبت آج کے مردوں میں بہت رواداری اور تحمل نظر آنے لگا ہے۔
’’کیا وہاں رہنے والے وہاں مشرقیت کو رواج میں قائم رکھے ہوئے ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مغرب میں اردو زبان تو بس ہم تک رہ گئی ہے۔ آج کے بچے اردو نہیں بولتے۔ افشاں نوید نے اس بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بھی اب اردو زبان اسکولوں کی زبان نہیں رہی۔ بیشتر گھروں میں بچوں کے انگلش بولنے پر فخر محسوس کیا جاتا ہے، اور یہ ایک بڑا المیہ ہے۔ ’’مغربی معاشرے کی اچھی باتیں کیا ہیں؟‘‘ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے، دھوکا نہیں دیتے، وقت کی پابندی کرتے ہیں اور ان کی قوم میں محنت عام ہے۔ لیکن مغربی معاشرے کا قابلِ اعتراض پہلو یہ ہے کہ وہاں رہنے والے مسلمانوں کی تیسری نسل مسلمان نہیں رہتی۔ والدین اپنے بچوں پر اعتراض نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے معاشرہ تباہ ہوچکا ہے۔
بہت ساری باتوں کے بعد عابدہ رحمانی نے ایک دل چسپ افسانہ سنایا جسے سن کر تمام سامعین اُن کے تحریری ہنر کے قائل اور مداح ہوگئے۔ آخر میں سب نے عابدہ رحمانی کا بے انتہا شکریہ ادا کیا، اور عابدہ رحمانی نے بھی اس نشست میں بہت دل چسپی اور خوشی کا اظہار کیا۔ دعا پر یہ محفل اختتام کو پہنچی اور ہمارے ذہن میں یہ شعر گونجنے لگا:
زندہ رہنے کے بہانے ڈھونڈیں
آؤ کچھ دوست پرانے ڈھونڈیں

حصہ