‪عزت دار

281

’’ابو چلیں نا ‘‘نبیل نے شرمندگی سے کن انکھیوں سے دائیں ،بائیں نظر ڈالی اور خالد صاحب کو منمناتی آواز میں پکارا ۔
’’ہاں بس ذرا کریم بابا کی تھوڑی مدد کردیں‘‘انہوں نے آہستہ آواز میں جواب دیا ۔
نبیل سخت بے چینی محسوس کر رہا تھا جب خالد صاحب نے مسجد سے نکلتے ہوئے جھک کر بوڑھے کریم بابا کی چپل آگے بڑھ کر ان کے سامنے رکھی جو کہ مسجد سے نکلتے شرارتی بچوں نے پاؤں کی ٹھوکر سے دور کر دی تھی – نبیل کو محسوس ہورہا تھا جیسے سارے لوگ انہیں ہی دیکھ رہے ہیں اور ابو کا یوں جھک کر ہاتھ سے کسی کی چپل سیدھی کرنا اور بوڑھے انکل کے سامنے رکھنا کیسا کام ہے ۔
’’آف کیا کروں ابو ہر جگہ کوئی نا کوئی ایسے کام کرنے لگ جاتے ہیں،انسان کی آخر کوئی عزت ہوتی ہے ‘‘
’’چلئے نبیل کیا سوچنے لگے‘‘ خالد صاحب نے نبیل کو آواز دی تو وہ چونک کر ان کے پیچھے چلنے لگا خالد صاحب نے نبیل کے چہرے کے تاثرات نوٹ تو کئے مگر آگے کرنے والے کاموں کی طویل فہرست نے انہیں بات کرنا کا موقع نہ دیا ۔
نبیل خالد صاحب کا اکلوتا،شرارتی اور چلبلا بیٹا تھا جو کہ ابھی آٹھویں کا امتحان دے کر فارغ ہوا تھا ۔
اسے اکثر اپنے ابو کی یہ عادت شرمندہ سی کردیتی جس سے اسے لگتا کہ بے عزتی کا تاثر آرہا ہو ۔
ابھی دو دن ہی گذرے تھے کہ پھر اک واقعے نے نبیل کا موڈ خراب کردیا،آج خالد صاحب آفس سے جلدی گھر آگئے نہا دھو کر فریش ہوئے کہ انہیں نبیل کو لے کر جوتوں اور کپڑے کے لیے بازار جانا تھا ،کچھ عرصے سے نبیل نے جو قد نکالا تھا تو ان کے کپڑے یوں محسوس ہورہے تھے کہ چھوٹے بھائی کے پہن لیے ہیں اور بھئی یہ تو بہت شرمندگی کی بات تھی ۔
’’ابوووو ،آپ کے کپڑے ‘‘
ابھی وہ اپنے ابو کے ساتھ گاڑی سے اترے ہی تھے جہاں برانڈڈ کپڑوں کی بہت ساری دکانیں تھیں کہ اس کی چیخ ہی نکل گئی ،سامنے خالد صاحب کھڑے تھے کسی مزدور کی پیٹھ پر سیمنٹ کی بوری رکھواتے ہوئے ۔
اور اس دوران ان کے کپڑے بھی مٹی والے ہوگئے ،جب تک خالد صاحب مزدور کی مدد کرکے واپس پلٹے نبیل کا شرم سے بھرا حال تھا ،”اف سارے لوگ کیا سوچ رہے ہوں گے ،اور یہ ابو کے کپڑے بھی کیسے ہوگئے ،یہ ہر ایرے غیرے پر رحم کیوں اجاتا ہے ابو کو “نبیل نے جھنجھلا کر سوچا ۔
’’نبیل ‘‘ خالد صاحب نے مٹی جھاڑتے ہوئے نبیل کو آواز دی ۔
’’جی ابو ‘‘
نبیل نے اپنے خیال سے چونکتے ہوئے خالد صاحب کو جواب دیا۔
خالد صاحب ابھی اس سے کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ انہیں نبیل کچھ الجھا ہوا لگا ’’کیا بات ہے بیٹا ‘‘۔
’’ابو آپ کے کپڑے اور ہاتھ گندے ہوگئے ‘‘نبیل نے جواب دیا ۔
’’لو یہ بھی کوئی پریشان ہونے والی بات ہے ‘‘صاف ہو جائیں گے ۔
خالد صاحب نے کپڑے اچھی طرح جھاڑے اور سینی ٹائزر سے اپنے ہاتھ صاف کرلیے ۔
’’لو اتنی سی بات تھی‘‘۔
یہ کہتے ہوئے سامنے جوتوں کی دکان میں داخل ہوگئے
’’یہ اتنی سی بات تو نہیں ،انسان کی شخصیت خراب ہوجاتی ہے پوری ،اچھا خاصا انسان کتنا عجیب لگنے لگتا ہے ‘‘۔
نبیل نے دل میں سوچا ۔
اسے لگتا پتا نہیں یہ باتیں ابو کیوں نہیں سمجھتے۔
خیر اس دن نبیل کی ساری شاپنگ بہت اچھی رہی کپڑے ،جوتے اور پھر ریسٹورنٹ میں مزیدار ڈنر ابو نے بڑی ہی دریا دلی سے اس کی خریداری کروائی اور پسندیدہ کھانا بھی کھلایا نبیل بڑا ہی خوش تھا ۔
وہ بڑی شان سے برانڈڈ گارمنٹس کے شاپنگ بیگ اٹھائے بڑے غرور سے خالد صاحب کے پیچھے پیچھے ریسٹورنٹس سے باہر نکلا تو سامنے کے منظر نے اس کے ہوش ہی اڑادیئے ۔
اف یہ کیا خالد صاحب سڑک پر اکڑوں بیٹھے کینوں اٹھا اٹھا کر ٹھیکے والے کو پکڑا رہے تھے جو کہ ٹھیلا لڑھک جانے کی وجہ سے بکھرے کینوں بھاگ بھاگ کر سمیٹ رہا تھا۔
نبیل کو اس قدر شرمندگی محسوس ہوئی کہ بجائے اس کے کہ وہ خالد صاحب اور ٹھیکے والے کی مدد کرتا وہ ایک جانب سمٹ کر کھڑا ہوگیا کہ کوئی یہ نہ جان پائے کہ یہ زمین سے کینوں سمیٹتے صاحب اس کے ابو ہیں ،”یہ کیا کرتے ہیں ابو بھی ،کچھ اپنے اسٹیٹس کا بھی خیال نہیں کرتے ،ان مزدوروں اور غریبوں کا تو معیار ہی یہ ہے لیکن ہم تو اپنی عزت کا خیال رکھیں ،کیسے لگ رہے ہیں ابو زمین سے کینوں چنتے ہوئے “نبیل کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ وہاں سے بھاگ جائے ۔
’’ارے بھئی نبیل کہاں ہو گھر نہیں جانا ‘‘ ابو نے گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے نبیل کو آواز دی ،ساتھ ہی کینوں والے سے وہ کینوں بھی خرید لئے جو زمین پر نیچے گرنے کی وجہ سے نرم ہوگئے تھے جس پر وہ ریڑھی والا نم آنکھوں سے ان کا شکر گزار ہورہا تھا اور دعائیہ کلمات اس کی زبان سے نکلے چلے جارہے تھے ۔
’’ابو یہ کینوں تو نرم ہوگئے ہیں ہم اس کا کیا کریں گے ‘‘ گاڑی میں بیٹھتے ہیں کنفیوز سے نبیل نے سوال کیا ۔
’’اس کا تو ہم جوس نکال کر نمک کالی مرچ چھڑک کر پئیں گے دیکھنا کیا مزا آئے گا ‘‘۔
’’اس کے لئے تو ہم کہیں اور سے تازہ اور اچھے کینو لیتے یہ تو خراب ہوگئے‘‘نبیل سراپا سوال تھا ۔
’’بیٹا، رات ہورہی اب یہ غریب آدمی اپنے گھر جاتا ،یہ کینوں نرم ہوگئے ہیں کل تک سڑ جاتے اوربیچنے کے قابل نہیں رہتے اس کی رقم ضائع ہوجاتی سو میں نے خرید لئے ” گاڑی گھر کی طرف چل پڑی۔
’’کیا ہوا نبیل ،اتنے چپ کیوں ہو’’راستے میں خالد صاحب نے نبیل کی خاموشی محسوس کی تو سوال کیا ‘‘ابو جی آپ اتنے پڑھے لکھے ہیں ، اتنی اچھی گاڑی اور جاب ہے آپ کی آپ ان غریب اور ان پڑھ لوگوں کے کام کیوں بڑھ بڑھ کر کرتے ہیں،ان کے ساتھ کیوں ملتے ہیں”نبیل جھجکتے ہوئے اپنی بات زبان پر لے آیا ۔
’’ ہوں۔۔۔‘‘خالد صاحب نے لمبی سی ہوں کے ساتھ گاڑی کی رفتار کم کردی وہ اس موضوع پر نبيل سے بات کرنا چاہتے تھے ۔
نبیل آپ نے یہ شعر سنا ہے ۔
’’جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کر ملتے ہیںصراحی سر نگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ ‘‘۔
تو جھک کر ملنے سے تو انسان تو اعلی ہوتے ییں،
’’پر ابو انسان کی عزت بھی تو کوئی چیز ہے ‘‘نبیل منمنایا۔
’’بیٹا عزت اور ذلت کا معیار تو اللہ نے طے کردیا ہے ،ہم کون سے معیار طے کر رہے ہیں ‘‘۔
خالد صاحب نے جواب دیا۔
’’اصل بات تو یہ ہے کہ بندہ اللہ کی نظر میں کیسا ہے ‘‘۔
’’اور جب آپ کسی کے کام آتے ہیں ،اس کی مدد کرتے ہیں ،کسی کام میں آگے بڑھ کر نیکی کرتے ہیں تو رب کی نگاہ میں بلند ہوتے ہیں اور یہ بڑی عزت ہے جو ان لوگوں کے ذریعے اللہ عطا کرتا ہے‘‘۔
’’ابو یہ تو اور لوگ بھی کرسکتے ہیں ہم ہی کیوں جھکیں ‘‘نبیل نے اعتراض کیا ’’اگر میں یہ کہوں کہ ہم ہی کیوں نا کریں تو کیا کہو گے،اور وہ جو دعائیں ملتی ہیں اس کی سکینت اپنے دل پر محسوس کرو ‘‘۔
’’نبیل یہ روز و شب میں اگر اللہ آپ کو مواقع دے رہا ہو نیکی کے تو سمجھو اللہ کی مہربانی ہے ،یہ ہماری اپنی ضرورت ہے‘‘۔
‘‘اور ہاں ،‘‘خالد صاحب بولے ’’شرمندگی وہاں محسوس کرو جب دل گناہ اور نافرمانی کرنے کو چاہے ،جب غلط کام کرنے لگو ورنہ خوش ہوجاؤ کہ رب نیکی کے راستے پر چلا رہا ہے ،کہ یہ خیر ہے جو اللہ اپنے بندے کے ساتھ کرتا ہے،سمجھے ‘‘۔
خالد صاحب نے نبیل کو مسکرا کر دیکھا اور نبیل بھی سر جھکائے اللہ کا شکر گزار تھا جس نے اس کے سامنے سچ بات سمجھنے کا راستہ کھولا ۔

حصہ