اس مرض کو انگریزی میں ’’اسٹیمرنگ‘‘ عربی میں ’’ثقل اللسان‘‘ اور عام بول چال میں ہکلانا یا زبان میںگرہ پڑنا کہتے ہیں‘ مریض کی زبان بات کرتے کرتے کسی لفظ پر رک جاتی ہے اور بعض الفاظ صحیح طریقے پر ادا نہیں ہو پاتے۔
عام طور پر یہ مرض پانچ سال کی عمر کے بعد ہوا کرتا ہے‘ اکثر نوجوان اس کا شکار ہوتے ہیں۔ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے زیادہ مبتلا نظر آتے ہیں۔ اگر ہم لکنت کے مریضوں کا بغور جائزہ لیں تو ان میں تھوڑا فرق نظر آئے گا‘ کچھ مریض ایسے ہوتے ہیں جن کی زبان بعض مخصوص حروف سے شروع ہونے والے الفاظ بولتے رک جاتی ہے مثلاً ’’س‘‘، ’’ڈ‘‘ یا اسی طرح کا کوئی بھی حرف۔ مگر باقی الفاظ وہ پوری روانی کے ساتھ بولتے رہتے ہیں۔ بعض مریض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے لیے حروف اور الفاظ مقرر نہیں ہوا کرتے بلکہ کسی بھی لفظ پر کسی بھی وقت زبان رک جاتی ہے اور وہ اس کے ادا نہ ہونے کی وجہ سے الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ چند مریض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ صرف اس جگہ بولنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں جہاں وہ نفسیاتی طور پر مرعوب ہو جائیں۔ مثال کے طور پر کسی نئی جگہ یا نئے شخص سے بات کرتے وقت یا جس شخصیت سے مخاطب ہیں وہ اگر رتبے یا علمیت میں بلند ہو یا غصہ ور مزاج رکھتا ہو۔ کچھ مریض ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف بہت خوشی و غم یا خوف زدہ ہو جانے کی حالت میں ہکلانے لگتے ہیں۔ چند ایسے بھی ہوتے ہیں جن کیزبان صرف جذباتی ماحول میں گنگ ہو جاتی ہے۔ ویسے وہ بالکل ٹھیک ٹھاک بات کرتے رہتے ہیں مگر کسی کے سامنے جذباتی طور پر مرعوب ہو کر یا تو لکنت کا شکار ہو جاتے ہیں یا کچھ بھی نہیں بول پاتے۔ اس کیفیت کا نقشہ ایک شاعر نے خوب کھینچا:
سوچا تھا ہم یہ کہتے وہ کہتے جو وہ آتا
کہنے کی سب ہیں باتیں کچھ بھی نہ کہا جاتا
ایسے ہی مواقع پر مرزا غالب کے بھی ہاتھ پائوں پھول جایا کرتے ہوںگے:
اسد خوشی سے میرے ہاتھ پائوں پھول گئے
کہا جو اس نے ذرا میرے پائوں داب تو دے
جب ہاتھ پائوں کی یہ حالت ہوتی تھی تو زبان پر بھی کچھ نہ کچھ تو بیتتی ہوگی۔لکنت پر مزید بات چیت کرنے سے قبل یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہم بولتے کس طرح ہیں۔ بولنے کے آلات میں خنجرہ (آلہ صوت) جسے سائونڈ باکس بھی کہا جاتا ہے‘ بہت اہم ہے‘ یہ ہوائی نالی کے بالائی سرے پر موجود ہوتا ہے اور اس میں اوتارالصورت یا آواز کی ڈوریاں بالکل اسی طرح سے تنی ہوئی ہوتی ہیںجیسے کہ ستار میں تار کھنچے رہتے ہیں۔ حلق‘ زبان‘ ہونٹ اور منہ بھی بولنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ ان کے علاوہ سر میں واقع وہ تمام کھوکھلے حصے جنہیں تجادیف یا سائنس کہا جاتا ہے‘ بولنے کے عمل میں معاون ہوتے ہیں تو جب بھی بولنے کا خیال ذہن میں آتا ہے اور دماغ سے احکامات جاری ہوتے ہیں تو ہوا خنجرے سے گزرتی ہے جس سے بالکل اسی طرح سے ایک آواز پیدا ہو جاتی ہے جس طرح سے ہار مونیم کے پردے کو ہلانے سے آواز نکلنے لگتی ہے‘ مگر ہارمونیم سے نکلی ہوئی اس آواز میں یکسانیت ہوتی ہے اسے اگر مختلف دھنوں میں تبدیل کرنا ہو تو پھر اس میں لگے ہوئے الگ الگ ناب مخصوص ترتیب کے ساتھ دبائے جاتے ہیں جس سے مطلوبہ آواز نکلنا شروع ہو جاتی ہے انسانی حلق سے پیدا ہونے والی یہ آواز بھی بالکل یکساں اور بے معنی ہوتی ہے اسے الفاظ کی شکل زبان کی حرکات اور ہونٹوں کی جنبش سے حاصل ہوتی ہے جس سے وہ مختلف معنی و مفہوم میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ زبان کی نوک یا ہونٹوں کو پکڑ کر ہم چاہیں کہ صحیح طریقے پر بول سکیں تو یہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ اسی آواز میں چہرے اور حلق کے کھوکھلے حصے گونج پیدا کر دیتے ہیں جس سے وہ تیز ہو جاتی ہے۔ نزلہ و زکام میں جب بلغم ان حصوں میں بھر جاتا ہے تو آواز بھی ہلکی و بھدی ہو جاتی ہے۔
یہ بات بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ بولنا ایک طرح کی مشق یا پریکٹس ہے جو بچہ اپنے اردگرد کے ماحول سے سن سن کر کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ انہی الفاظ کو جو اس کے بزرگ بول رہے ہیں پہلے نامکمل اور غیر واضح اور پھر پوری قدرت کے ساتھ صحیح بولنا شروع کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اردو بولنے والے گھرانے میں پیدا ہونے والے بچے کی مادی زبان اردو ہوا کرتی ہے اور ایک سندھی‘ پنجابی یا پشتو بولنے والے گھرانے میں پیدا ہونے والے بچے کی مادی زبان وہی ہوا کرتی ہے اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ زبان ایک طرح کی مشق ہے نہ کہ وراثت اور اسی مشق کی بگاڑ پیدا ہو جانے سے لکنت بھی پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بالکل ٹھیک ٹھاک بات چیت کرتا ہوا بچہ اگر کسی لکنت زدہ بچے کی نقل اتارنا شروع کر دے تو خود بھی ہکلانے لگتا ہے یعنی اس کی اپنی مشق بگڑ جاتی ہے۔
اگر یہ مرض بچے کے بولنا شروع کرنے کے ساتھ ہی ظاہر ہونے لگے تو سمجھنا چاہیے کہ پیدائشی ہے اور خلقی خرابیاں اس کا سبب ہیں مثلاً زبان یا اس کے متعلقہ پٹھوں کا پوری طرح نشوونما پانا یا زبان کے نیچے والے پٹھے کا دور تک جڑا ہوا یا چھوٹا ہونا جس کی وجہ سے زبان پوری طرح حرکت نہیں کر پاتی۔
بڑی عمر کے بچوں میں اگر لکنت ظاہر ہو تو اس کا سب سے اہم سبب نقل اتارنا ہے اس کے علاوہ بہئت تیز بخارکے بعد بھی یہ شکایت ہو جایا کرتی ہے۔ لمبے اور کمزور کر دینے والے امراض یا جسم سے بہت زیادہ رطوبت کا خارج ہونا بھی اس مرض کے پیدا کرنے میں معاون ہوا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جو بچپن میں جن بھوت سے ڈرائے جاتے ہوں یا ان کے ساتھ مار پیٹ کا سخت رویہ رکھا جاتا ہو یا انہیں بات بات پر ٹوک کر احساس کمتری کا شکار کر دیا گیا ہو‘ اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی زبان رکنے لگتی ہے۔
بڑوں میں اگر یہ شکایت ہو تو اس کا بنیادی سبب تیز بخار مثلاً سرسام یا میعادی بخار ہوا کرتے ہیں۔ اکثر چیچک یا طاعون کے بعد بھی ہو جایا کرتی ہے۔ چہرے کا فالج جسے لقوہ کہا جاتا ہے اس کا ایک سبب ہے اس کے علاوہ زبان کا ورم یا زبان میں زیادہ رطوبت کے جمع ہو جانے کی وجہ سے اس کا موٹا ہوجانا بھی زبان کی حرکات میں دشواری پیدا کر دیتا ہے۔ زبان کے نیچے کا رباط پیدائشی طور پر یا کسی زخم کے بھرنے کے بعد کھنچ کر چھوٹا ہو جائے یا اس میں گرہ سی پڑ جائے‘ ان تمام صورتوں میں ہکلاہٹ پید اہو سکتی ہے۔
اس مرض کی تشخیص دشوار نہیں۔ مریض سے دو چار باتیں کرتے ہی ازخود پتا چل جاتا ہے کہ ماجرا کیا ہے۔ مگر اس کے سبب کا کھوج لگا کر علاج کرنا یقینا دشوار ہے۔ دشواری اس لیے پیش آتی ہے کہ ایسے مریض جلد ہی نفسیاتی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں۔ زبان کی رکاوٹ کی وجہ سے وہ بات چیت میں کمی کر دیتے ہیں یا بعض مریض ملنا جلنا ترک کرکے گوشہ نشین ہو جاتے ہیں بعض لوگ اس خوف سے کہ کہیں ان کی زبان اٹک نہ جائے جلدی جلدی بولنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ عجلت ان کے لیے مزید الجھائو کا باعث بنتی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ دشواری ان کی ترقی میں رکاوٹ بننے لگتی ہے اوران کی شخصیت کو مجروح کر دیتی ہے۔
تاریخی حوالے سے ہم لکنت زدہ اشخاص میں کچھ بڑی بڑی مثالیں ملتی ہیں جن میں سب سے اہم حضرت موسیٰؑ کلیم اللہ کی شخصیت ہے کہ آپ کی زبان میں رکاوٹ ہونے کے باوجود کلام کا سب سے بلند و برتر مرتبہ آپ کو ملا کہ اللہ تعالیٰ آپ سے بات چیت فرمایا کرتے تھے بلکہ اپنا جلوہ بھی دکھایا اس درجے کو حاصل کرنے کے لیے بہت سے صحیح الزبان اور قادرالکلام لوگ آرزو کرتے ہی کرتے رہ گئے:
پھر سنانا طورکے جلنے کا افسانہ ذرا
میں بھی ہمت آزما لوں سامنے آنا ذرا
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں لکنت تو بہت بچپن سے ہی پیدا ہو گئی تھی اور اس حد تک پریشان کن تھی کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی جو کہ کلام پاک کے سولہویں پارے اور سورہ طہٰ کے دسویں رکوع میں بیان ہوئی ہے جس کا ترجمہ ہے ’’اے میرے رب میرا سینہ کھول دے۔ اور معاملہ آسان کر دے۔ اور میری زبان سے لکنت کو دور فرما دے تاکہ وہ میری بات سمجھ سکیں۔‘‘
اس دعا کو ورد بنانے اور خلوص دل سے خداوند کریم سے رجوع کرنے سے بھی لکنت کے اکثر مریضوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔
لکنت زدہ لوگوں میں ایک مشہور شخصیت یونانی مقرر ڈیماس تھینس کی بھی ہے جنہیں بابائے مقررین کہا جاتا ہے اور ان کی تقریر کا انداز ایک مثال بن چکا ہے جب بھی کوئی اچھی تقریر کی جارہی ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس کے بیان میں ڈیماس تھینک انداز پایا جاتا ہے۔ یہ شعلہ بیان مقرر ابتدا میں شدید لکنت کا شکار تھے اور ان حد تک اس کی زبان رکتی تھی کہ آبادی کے لوگ ان کا مذاق اڑاتے تھے اور بات کرنا دوبھر کر دیتے تھے۔ اس سبب سے وہ اس قدر تنگ آگئے کہ آبادی کو خیرباد کہہ دیا اور چونکہ مردم گزیدہ تھے اس لیے ایک ویران ساحلِ سمندر پر جہاں دور دور تک کوئی انسان نظر نہ آئے رہنے لگے۔ مگر بولنا بھی ایک لازمی انسانی ضرورت ہے‘ بغیر بولے زیادہ دن تک نہیں رہا جاسکتا تھا حتیٰ کہ نہ بولنے کی سزا قید تنہائی کی صورت میں ہمیشہ سے دی جاتی رہی ہے جو کہا کہ سخت سزا سمجھی جاتی ہے‘ لہٰذا ان صاحب سے بھی چپ نہ رہا گیا اور انہوں نے سمندرکی لہروں کو مخاطب کرکے باتیں کرنا شروع کردیں‘ گھنٹوں بے تکان باتیں کیا کرتے تھے بلکہ بعض اوقات تو کسی بھی موضوع پر دھواں دھار تقریر فرما دیا کرتے تھے۔ کچھ دن بعد انہیں احساس ہوا کہ میں تو بڑی روانی سے بغیر کسی لکنت کے باتیں کر رہا ہوں بلکہ بڑی مدلل تقریریں جاری ہیں‘ تب انہوں نے سوچا کہ آخر میں اسی طرح سے انسانوں کے سامنے کیوں نہیں بول سکتا‘ میری زبان تو بالکل درست ہے‘ اس طرح ان کی خود اعتماد واپس لوٹ آئی اور وہ بڑے اطمینان کے ساتھ اپنی آبادی میںلوٹے‘ انہیں دیکھتے ہی لوگ اردگرد جمع ہونا شڑوع ہوگئے کہ یہ بولیں اور ہمیں مذاق اڑانے کا موقع ملے۔ جب کافی لوگ اکٹھا ہوگئے تو انہوں نے ایک ایسی دھواں دھار تقریر کی اور لوگوں کی ایسی خبر لی کہ سب کو بھاگتے ہی بنی‘ نتیجتاً لوگ ان کے زورِ بیاں کا نہ صرف لوہا ماننے لگے بلکہ ان کی تقریروں نے دوسرے علاقوں میں بھی دھوم مچا دی اور تاریخ میں اپنا نام پیدا کر لیا۔ ڈیماس تھینس کو لکنت سے چھٹکارا محض صحیح بولنے کی مشق اور خود اعتمادی سے حاصل ہوا۔
لکنت کے عام مریض اور خاص طور پر وہ مریض جو کسی کی نقل اتارنے سے اس مرض میں مبتلا ہوئے‘ اگر خود بھی ایک باقاعدہ نظام کے ساتھ روزانہ مشق جاری رکھیں تو اپنے مرض پر قابو پا سکتے ہیں اس کے لیے پہلے وہ تمام حروف جن پر خاص طور پر زبان رکتی ہے ایک جگہ درج کر لیے جائیں پھر ان حروف سے شروع ہونے والے خاص خاص الفاظ جو کہ عام بول چال میں آتے ہیں‘ نوٹ کر لیے جائیں اس کے بعد روزانہ بالکل تنہائی میں آئینہ سامنے رکھ کر اور خود کو مخاطب کرکے ایک ایک لفظ پر زور دے کر پورے اعتمادکے ساتھ ادا کیا جائے۔ ادائیگی کا انداز ٹھہرائو کے ساتھ آواز پر زور دیتے ہوئے بالکل قرأت کی طرح سے ہو اس میں جلدی بالکل نہ کی جائے‘ اس طرح کچھ تک مشق کرنے سے انداز ہوگا کہ وہ الفاظ اب صحیح ادا ہونے لگے ہیں‘ تب انہیں عام بول چال کے طریقے پر بولا جائے۔ اس کے بعد انہی الفاظ کو عزیزوں یا دوستوں کے سامنے رکھا جائے جن سے بے تکلفی ہو اور وہ آپ کے ہمدرد بھی ہوں جب یہاں کامیابی ہو جائے تو پھر عام لوگوں سے بات چیت کی جائے‘ اسی طرح ان تمام حروف و الفاظ کی مشق کر لی جائے جن پر زبان رک جاتی ہے۔ مگریہ خیال ذہن میں رہنا چاہیے کہ بات شروع کرنے سے پہلے پورے جملے کو ذہن میں ترتیب دے لیا جائے اور پھر اعتماد کے ساتھ آہستہ آہستہ جملے کے ٹکڑے کر کر کے اسے ادا کر دیا جائے۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ لکنت زدہ لوگ جب گانا گائیں یا قرأت کریں تو ان کی لکنت غائب ہوجاتی ہے۔
بعض صورتوں میں کچھ خلقی خرابیاں ہوتی ہیں ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ کسی اچھے سرجن سے رجوع کیا جائے اور اگر وہ مشورہ دیں تو آپریشن کروا لیا جائے۔ طویل بخار اور کمزور کر دینے والے امراض کے بعد جو صورت پیدا ہوتی ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں صحت بحال ہوتی ہے رفع ہو جاتی ہے‘طاقت ور غذائیں اور دوائیں فائدہ کرتی ہیں۔ اعصاب و دماغ کمزور ہوں تو کشتۂ مرجان‘ کشتۂ نقرہ ایک ایک گولی‘ خمیرہ گائو زبان عنبری چھ گرام کے ساتھ صبح نہار منہ کھلایا جائے۔ اگر اعصاب بہت زیادہ حساس ہوگئے ہوں اور اجنبی ماحول میں یہ کیفیت پیدا ہوتی ہو تو خمیرہ گائو زبان عنبری جدوار عودصلیب والا چھ گرام صبح نہار منہ کھلایا جائے۔ بلغمی مادے سبب ہوں تو اطریفل اسطوخودوس فائدہ کرے گی اگر سرسام کے بعد یہ مرض ہواہو اور ابھی پرانا نہ ہوا ہو تو زبان پر لاہور نمک و نوشادر برابر وزن ملا کر تھوڑا تھوڑا ملیں اور اچھی طرح رال بہائیں‘ اگر جسم سے بہت زیادہ پانی خارج ہو جانے کی وجہ سے لکنت کی شکایت ہو تو خمیرہ ابریشم شیرہ عناب والا چھ گرام‘ ماء الجبن (دودھ کا پھاڑاہوا پانی) ایک پیالی کے ہمراہ کئی دن تک پلایا جائے اگر اس مین شربتِ عناب دو بڑے چمچے ملا لیا جائے تو زیادہ فائدہ کرے گا۔ مغز بادام 12 عدد‘ کشمش 20 عدد دودھ میں پیس کر پلانا بھی اچھی تدبیر ہے‘ اگر زبان میں رطوبت کے جمع ہو جانے یا اس کے موٹے ہو جانے کی وجہ سے یہ شکایت ہو تو عاقرقر 3 گرام مرچ سیاہ 3 گرام خوب باریک پیس کر دو بڑے چمچے شہد میں ملا کر رکھ لیں اور دن میں کئی بار زبان پر اوپر نیچے مَل کر خوب رال بہائیں‘ اس طرح رطوبت خارج ہو جاتی ہیں۔ (دوائوں کی مقدار اور خوراک جوانوں کے لیے لکھی گئی ہے‘ بارہ سال سے کم عمر بچوںکے لیے اس میں کمی کی جائے گی‘ علاوہ لگانے کی دوائوں کے۔)
دوائوں کا استعمال اپنی جگہ مفید ضرور ہے مگر ان کے ساتھ اوپر کی ہوئی مشق‘ بول چال کی انداز میں تبدیلی‘ اپنی ذات اور اللہ تعالیٰ پر اعتماد کہ ان شاء اللہ اس دشواری پر ضرور پا لیا جائے گا‘ بہت ضروری ہیں اگر ان سب پر عمل کیا تو آپ بھی کسی دن ڈیماس تھینس کی طرح لوگوں کو مخاطب کرکے پوچھ سکیں گے کہ:
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے