رزق

224

اگر آسمانوں سے مینہ نہ برسے تو رزق کی داستان ختم سی ہوکر رہ جائے۔ سائنس کی ترقی کے باوجود رزق کا نظام، معیشت و معاشیات، تقسیم دولت کا سارا نظامِ بارش کے ختم ہونے سے ختم ہوجائے گا۔ بارش کے دَم سے سوتی اور اُونی کپڑے کی ملیں چل رہی ہیں۔ بارش نہ ہو تو نہ اُون، نہ کپاس، نہ خوراک، نہ لباس۔
بارش کی کمی سے بجلی کا نظام بحران کا شکار ہوتے دیکھا گیا ہے۔ رزق کی تقسیم و ترسیل کا نظام آسمان سے برسنے والے پانی پر ہے۔ پانی کی کمی سے قحط سالی اپنے ظالم جبڑوں میں انسان کو دبوچ لیتی ہے۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ بارش منشائے الٰہی ہے اور یہ عطائے رحمانی بغیر کسی معاوضے کے ہے۔ انسانی آنکھ کو قدرت نے بینائی کا رزق عطا کیا اور اس بینا آنکھ کے لیے نظاروں کے ترانے موجود ہیں۔ کائنات کے منور مناظر انسان کی ضیافتِ نگاہ کا سامان ہیں۔ کہساروں سے ریگ زاروں تک نظر کا رزق نظاروں کے حسن میں پھیلا دیا گیا ہے۔ یہ سب بغیر معاوضے کے ہے۔
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مشرق سے طلوع ہونے والا سورج رزق کے خزانے بکھیرتا ہوا مغرب میں غروب ہوتا ہے اور پھر رات ایک الگ قسم کا رزق راحتِ جاں کے لیے تقسیم کرتی ہے۔ پُرسکون نیند ایک عظیم دولت ہے، مفت ملتی ہے، اس پر کروڑوں روپے نثار۔ سورج پھلوں کو رس عطا کرتا ہے، چاند مٹھاس بخشتا ہے، ستارے صاحبانِ فکر کو دولتِ افکار سے مالا مال کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ اس کائنات کا ہر موسم اور ہر لمحہ کسی نہ کسی انداز سے رزق تقسیم کرتا ہی رہتا ہے۔ انسان کا رزق اس کے اپنے وجود کے کسی حصے میں پنہاں ہوتا ہے۔ اس صلاحیت کو دریافت کرنا ہی انسان کا فرض ہے۔ اس کے بعد حصولِ رزق کا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا رزق ان کے ذہن میں ہوتا ہے۔ ان کی ذہنی صلاحیت رزق بنتی ہی چلی جاتی ہے۔ یہ صاحبانِ فکر و فراست اپنی اور دوسروں کی معیشت کو استوار کرتے ہیں۔ دنیا کو علم و ادب سے نوازتے ہیں اور رزق ان کے ذہن کو سلام کرنے کے لیے حاضر رہتا ہے۔
کچھ انسانوں کا رزق ان کے گلے میں ہوتا ہے۔ سریلا، رسیلا نغمہ یوں بھی رزق ہے اور یوں گلوکار کا گلا سونے کی کان سے کیا کم ہوگا! اس نغمگی سے کتنے اداروں اور کتنے افراد کا رزق وابستہ ہے۔ صاحبِ آواز کے ساتھ صاحبِ ساز کو بھی نواز دیا جاتا ہے۔
مزدوروں اور ورکروں کا رزق ان کے بازوئوں میں ہے۔ جسمانی طاقت، جو قدرت کی عطا ہے، ذریعۂ رزق بھی ہے۔ ہاتھ چلتے ہیں اور پیٹ پلتے ہیں۔ کاسب کا رزق کسب میں ہے۔ کاسب امیر ہو یا غریب، وہ اللہ کا دوست ہے۔
کچھ ممالک میں جنسیات بھی معاشیات کا ایک حصہ ہے۔ گمراہی ہے، لیکن رزق سے وابستہ ہے۔ گناہ تو ہے لیکن رزق کا ذریعہ ہے۔
اس مقام پر مذہب انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ مذہب بتاتا ہے کہ حلال کیا ہے، حرام کیا ہے۔ جائز کیا ہے، ناجائز کیا ہے۔ ثواب کیا ہے، عذاب کیا ہے۔ کرم کیا ہے، ستم کیا ہے۔ مذہب غور کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ آخر رزق کی ضرورت کیا ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے رزق چاہیے۔
ماں کی گود سے قبر تک کا سفر ہے۔ کتنا زادِ راہ چاہیے؟ ہم مال بڑھاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی کم ہوتی جا رہی ہے۔ سانس کی آری ہستی کا شجر کاٹ رہی ہے۔ زندگی برف کی سل کی طرح پگھلتی ہی چلی جا رہی ہے۔ یہ پونجی گھٹتی جارہی ہے۔ دولت موت سے نہیں بچا سکتی۔ سانس بند ہو جائے تو رزق کی تمام افادیت ہمارے لیے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے۔ جائز ضروریات کو ناجائز کمائی سے پورا کرنا حماقت بھی ہے اور گناہ بھی۔ رشوت کے مال پر پلنے والی اولاد لازمی طور پر باغی ہوگی، بے ادب ہوگی، گستاخ ہوگی۔ دہرا عذاب ہے۔ عاقبت بھی برباد اور اولاد بھی برباد۔
(’’دل دریا سمندر‘‘)

حصہ