ارج: آنٹی! آپ کو لڑکی کیسی لگی؟
آنٹی: بیٹا… بس صحیح تھی۔
ارج: لیکن لڑکی تو بہت خوبصورت اور تعلیم یافتہ بھی ہے… اور…
آنٹی: بیٹا صرف صورت اور تعلیم کافی نہیں ہوتی۔ میرا مطلب ہے ایسے موقعوں پر کچھ اور بھی دیکھا جاتا ہے (ارج کو سوالیہ نظروں سے اپنی طرف دیکھتے ہوئے)، اچھے خاصے خوشحال لوگ تھے، لیکن… ایسے موقعوں پر سلیقہ اور طریقۂ کار ہر چیز دیکھنی پڑتی ہے۔ ہم نے انہیں کہا بھی تھا کہ ہم چھ سات بندے ہوں گے۔ نہ بیٹھنے کا انتظام، نہ سلیقہ… حیران کھڑی تھیں لڑکی کی والدہ کہ تین خواتین اور دو مرد ہیں، انہیں کہاں بٹھائیں؟ الگ الگ بٹھانا ہے یا ایک ہی ڈرائنگ روم میں…؟ اصولاً تو ایسے موقعوں پر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ نشست گاہ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ دو کمروں میں رہنے والے بھی اس بات کا اہتمام کرلیتے ہیں… پھر اتنی سردی میں… خیر چھوڑو اس بات کو… مزا نہیں آیا۔
………
مہرین: خالہ کی طبیعت خراب تھی لیکن ان کی بہو… اُسے بھی گھر کو اور آنے جانے والوں کو دیکھنا چاہیے۔ اور ان کی بیٹی… وہ بھی تو دیکھ سکتی تھی کہ کس مہمان نے کھایا، کس نے نہیں… اتنا کچھ کیا، کھانا بنایا گیا، لیکن انتظام صحیح نہیں تھا، اس لیے مزا ہی نہیں آیا۔
………
صبیحہ: ٹھیک ہے نورین ہم ضرور آجائیں گے، کتنے بجے آنا ہے؟ میرا مطلب ہے پروگرام کتنے بجے شروع ہوگا؟ (صبیحہ خود وقت کی پابند اور اصول پسند تھی)
نورین: میرے خیال میں 2 بجے، یا ایک بجے نمازِ ظہر پڑھ کر آنا، یا یہیں آکر پڑھ لینا۔
نورین کا تعلق ایک نہایت خوشحال گھرانے سے تھا۔ بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے۔ بڑے سے لگژری گھر میں رہائش پذیر تھی۔ (یہ دعوت بھی اُس نے نئے گھر میں منتقل ہونے کی وجہ سے رکھی تھی)، ساتھ ہی دوپہر کے کھانے کی بھی دعوت تھی۔
صبیحہ اور ایک دو دوسری خواتین اس کے بتائے ہوئے وقت کے مطابق اس کے گھر میں پہنچیں تو وہاں صرف گھر کے افراد ہی موجود تھے جو قرآن پاک پڑھ رہے تھے۔ صبیحہ کو حیرانی ہوئی کہ نورین نے تو ایک دو بجے کہا ہے، اب دو تو بج گئے ہیں، باقی مہمان ہیں؟ آہستہ آہستہ پتا چلا کہ نورین نے کسی کو ایک بجے، کسی کو دو بجے، کسی کو تین چار بجے بھی کہا ہے، نتیجتاً 5 بجے بھی مہمان گھر میں داخل ہوئے۔ جو لوگ صبح ناشتا کرکے نکلے تھے اُن کا بھوک کے مارے بُرا حال تھا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ بیٹھنے کا انتظام بھی صحیح نہیں تھا۔ غرض کہ بہت سی خامیاں لوگوں کو نظر آئیں۔ رات کو نماز مغرب کے بعد کھانا پیش کیا گیا۔
………
مجھے مذکورہ بالا واقعات میری دوستوں نے بتائے تو مجھ ناچیز کا قلم حرکت میں آگیا کہ کہاں اور کس چیز کی کمی و کوتاہی ہے جس نے تمام پروگرام کو خراب کردیا بلکہ سامنے والوں پر بھی بُرا اثر ہوا۔
میری والدہ محترمہ سوائے قرآن اور اردو پڑھنے کے، تعلیم سے ناآشنا تھیں، لیکن انہوں نے بابا کی شخصیت سے متاثر ہوکر اپنے آس پڑوس سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کا یہ سلیقہ و سگھڑ پن تھا جس نے بابا جیسے پڑھے لکھے شخص کو بھی متاثر کیا۔ یعنی گھر میں آئے دن دعوتوں وغیرہ کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ لہٰذا ہم بہنوں اور بھائیوں نے بھی اماں کے طریقۂ کار سے بہت کچھ سیکھا، بلکہ میں یہ بات بھی فخر سے کہتی ہوں کہ میں نے اپنے آس پاس کے دوستوں اور ساتھیوں سے بھی بہت کچھ سیکھا، اور اس سیکھے ہوئے کو اسعتمال بھی کیا، یعنی عمل بھی کیا۔
گھر میں دعوت ہو یا کسی نوعیت کا بھی کہیں کوئی پروگرام مرتب کیا جائے تو اس کے لیے پہلے ہی لائحہ عمل تیار کیا جائے کہ پروگرام کس نوعیت کا ہے، اس کے لیے کیا انتظامات ہونے چاہئیں، اس سلسلے میں مشاورت کی بڑی اہمیت ہے۔ گھر ہو یا کوئی بھی محکمہ، ادارہ، دفتر وغیرہ ہو، وہاں تقریبات سے پہلے متعلقہ اہم افراد کی مشاورت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ میرا دین بڑا خوبصورت ہے، ضابطۂ حیات ہے، ہر سلسلے میں ہمیں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ جنگ ہو یا امن، کوئی بھی مسئلہ ہو، آپؐ صحابہ کرام سے مشاورت فرماتے اور پھر لائحہ عمل تیار کیا جاتا۔ اس سلسلے میں ہمیں بہت سی مثالیں نظر آتی ہیں۔ ہر قدم پر امتِ مسلمہ کو کامیابیاں ملی ہیں جن کی وجوہات میں ایک اہم نقطہ آپس میں ’’مشاورت‘‘ بھی ہے۔
ایک خاتون کی بیٹی کی شادی تھی، انہوں نے بارہا لڑکے والوں سے پوچھا کہ بارات میں آپ کے کتنے لوگ آئیں گے تاکہ ہم اسی طرح انتظامات کریں۔ لڑکے کے والد نے کہا: پچاس ساٹھ سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ لڑکی والے حسب ِ عادت مل کر بیٹھے اور یہ طے کیا کہ 50 یا 60 کہہ رہے ہیں لیکن ہم 100 لوگوں کا انتظام کرلیں گے۔ اس طرح انہوں نے اپنے مہمانوں اور لڑکے والوں کو ملا کر 350 لوگوں کے کھانے پینے اور نشستوں کا انتظام کیا۔ احتیاطاً شادی ہال والوں سے پچاس اضافی نشستوں کے لیے بھی کہا۔ جب بارات آئی تو پتا چلا کہ باراتی دوسو سے زیادہ ہیں۔ یہ بڑا نازک موقع تھا۔ دلہن کے باپ بھائیوں نے فوراً ایک سو افراد کے لیے اضافی کھانا ایک ہوٹل سے منگوایا۔ اس طرح اللہ ربّ العزت نے برکت دی۔ بعد میں پتا چلا کہ لڑکے والوں نے آپس میں بیٹھ کر کوئی حکمت عملی نہیں بنائی کہ کس کس کو اور کتنے کتنے دوستوں کو دعوت نامے دیے جائیں گے۔ دُلہا کے 10 بہن بھائیوں نے اپنی اپنی مرضی سے گھر میں بتائے بغیر دوست احباب کو دعوت نامے پہنچائے تھے۔
میں جب اس نوعیت کے واقعات سنتی اور دیکھتی ہوں تو مزید محتاط ہوجاتی ہوں۔ گھر میں چھوٹی سی بھی تقریب ہوتی ہے تو شوہر، بیٹوں اور بہوئوں سے ضرور مشورہ کرتی ہوں، اور مرد و خواتین کے لیے علیحدہ علیحدہ نشستوں کے انتظام کے ساتھ بچوں کے لیے بھی خیال ہوتا ہے کہ انہیں پریشانی نہ ہو۔ مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں، ان کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔ آپؐ کے پاس اگر کوئی مہمان آتا تو فوراً اُسے بغیر میزبان کی مرضی کے حوالے نہ کرتے بلکہ پوچھتے کہ اس کی میزبانی کا شرف کون حاصل کرے گا؟ اور صحابہ کرام کا یہ حال ہوتا تھا کہ خود بھوکے پیاسے رہ کر بھی مہمان کی تواضع کرتے۔ (سبحان اللہ) اللہ رب العزت اپنے بندے کی اس تواضع کو پسند فرماتا ہے۔ مہمانوں کا خیال رکھنا اور اُن کے لیے اہتمام کرنا (اخلاص کے ساتھ) نمود و نمائش نہیں بلکہ ’’اعلیٰ ظرفی‘‘ ہے۔ مختصر یہ کہ ہماری ذرا سی کوتاہی، غفلت اور ناقص انتظامات کی وجہ سے کوئی اہم تقریب بھی ناکام ہوجاتی ہے۔ اس لیے میں خصوصاً خواتین سے ضرور کہتی ہوں کہ اپنے بچوں کو بھی یہ تربیت دیں کہ وہ اپنے محدود وسائل کے باوجود چھوٹی سی تقریب کو کامیاب بناسکیں، تاکہ شرمندگی سے بچا جاسکا۔ اور یقیناً بچے ایسے موقعوں پر والدین کی رہنمائی میں بہترین ’’منتظمین‘‘ ہوتے ہیں اور اچھے مشوروں سے نوازتے ہیں۔ اس طرح محدود وسائل کے باوجود آپ ایک بہترین تقریب کا اہتمام کرسکتے ہیں۔