قیصروکسریٰ قسط (36)

375

فسطینہ نے کہا۔ ’’آپ ہماری خاطر اپنی زندگی خطرے میں ڈالنا قبول کرلیتے؟‘‘
عاصم نے جواب دیا۔ ’’آپ کو میرے متعلق یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ مجھے زندگی سے کوئی دلچسپی ہے؟‘‘
فسطینہ کی ماں نے غور سے عاصم کی طرف دیکھا اور اُسے اپنے شبہات پر ندامت محسوس ہونے لگی۔ آپ نے ہم سے یہ نہیں پوچھا کہ ہم کون ہیں اور کس مصیبت میں مبتلا ہیں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’مجھے پوچھنے کی ضرورت نہ تھی۔ میں ایک مصیبت زدہ انسان کا چہرہ پہچان سکتا ہوں تاہم اگر آپ مجھے اپنے حالات بتا سکیں تو میری بہت سی الجھنیں دور ہوجائیں گی۔ لیکن اگر کوئی ایسی بات ہے جسے ظاہر کرنا آپ مناسب خیال نہیں کرتیں تو میں اصرار نہیں کروں گا‘‘۔
فسطینہ کی ماں نے کہا۔ ’’اگر اب بھی میں آپ پر اعتماد نہ کروں تو یہ احسان فراموشی ہوگی! سنیے:
میرا نام یوسیبیا ہے۔ اور فسطینہ میری بیٹی ہے۔ میں ایک یونانی خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔ میرا دادا فوج میں بھرتی ہو کر قسطنطنیہ سے دمشق آگیا تھا۔ اپنی ذہانت اور کارگزاری کی بدولت وہ دمشق کی فوج کا سالارِ اعلیٰ بن گیا اور ایک شامی خاندان کی لڑکی سے شادی کرنے کے بعد مستقل طور پر وہیں آباد ہوگیا۔
جب میں پندرہ برس کی تھی تو میرے والد تھیوڈوسیس ایران کی سرحد کے قریب ایک قلعے کے محافظ تھے۔ میری ماں فوت ہوچکی تھی اور وہ مجھے اپنے پاس لے آئے تھے۔ اپنے باقی خاندان کے متعلق مجھے صرف یہ معلوم تھا کہ میری پیدائش سے قبل جب ایرانیوں نے حملہ کیا تھا تو میرے والد کے دو بھائی انطاکیہ کی حفاظت کرتے ہوئے مارے گئے تھے اور میرے دادا اور دادی اس حادثہ سے دو سال قبل وفات پاچکے تھے۔
ایک لڑکی کے لیے سرحد کا یہ دور افتادہ قلعہ قطعاً موزوں نہ تھا۔ لیکن اب میرے والد کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ میں ہمیشہ اُن کے پاس رہوں۔ وہ فرصت کے لمحات میں مجھے سواری اور تیر اندازی سکھایا کرتے اور اس بات کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے کہ مجھے تنہائی کا احساس نہ ہو۔ مجھے اپنے والد کے ساتھ رہتے ہوئے کوئی چار مہینے گزرے تھے کہ ایران سے انقلاب کی خبریں آنے لگیں۔ پھر ایک رات پچھلے پہر میں گہری نیند سو رہی تھی کہ میرے والد نے مجھے جگایا اور کہا۔ ’’بیٹی اگر تم ایران کے شہنشاہ کو دیکھنا چاہتی ہو تو اپنا لباس تبدیل کرکے باہر آجائو‘‘۔
میرے لیے یہ بات ناقابل یقین تھی، لیکن چند سوال کرنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایران کی سلطنت پر وہاں کے سپہ سالار بہرام نے قبضہ کرلیا ہے اور خسرو پرویز مدائن سے فرار ہو کر یہاں پہنچنے والا ہے۔ میرے والد ایران میں خانہ جنگی کی خبریں سن کر بہت خوش ہوا کرتے تھے، لیکن خسرو پرویز کو اس قلعے میں پناہ دینے کا مسئلہ بہت نازک تھا۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ قیصر کے دربار سے اُس کے لیے دوستی کا پیغام آئے گا یا وہ اُس کی گردن اُڑا دینے کا حکم بھیجیں گے۔ بہرحال وہ ایک شہنشاہ تھا اور میرے والد ایرانیوں سے انتہائی نفرت کے باوجود اُس کا استقبال کرنے کے لیے مجبور تھے۔
مجھے ایرانیوں کے تصور سے خوف آتا تھا لیکن ایک شہنشاہ کو دیکھنے کی خواہش میرے خوف پر غالب آگئی، میں اپنا بہترین لباس پہن کر باہر نکلی تو صبح ہورہی تھی اور قلعے کے دروازے پر تمام افسر اور سپاہی قطاریں باندھے کھڑے تھے۔ یہاں اُس نوجوان سے میری پہلی ملاقات ہوئی جو میرا رفیق حیات بننے والا تھا۔ وہ بیش قیمت لباس پہنے ہوئے تھا اور اُس کا چہرہ اُس کے عالی نسب ہونے کی گواہی دے رہا تھا۔ اُس کی تلوار کے دستے میں بیش قیمت جواہرات چمک رہے تھے۔ وہ میرے باپ سے باتیں کررہا تھا اور دو ایرانی جو اُس کے نوکر معلوم ہوتے تھے، ادب سے اُس کے پیچھے کھڑے تھے۔ میں کچھ دیر تذبذب کی حالت مٰں چند قدم دور کھڑی رہی۔ بالآخر میرے باپ نے میری طرف دیکھ کر اشارہ کیا اور میں جھجکتی ہوئی آگے بڑھی، مجھے یقین ہوچکا تھا کہ ایران کا شہنشاہ یہی ہے لیکن جب میں اُسے جھک کر سلام کیا تو میرے والد اور فوج کے دوسرے افسر اپنی ہنسی ضبط نہ کرسکے۔
یہ نوجوان ایران کا شہنشاہ نہ تھا بلکہ اُس کا ایک وفادار ساتھی تھا۔ جس نے رات کے وقت میرے والد کو پرویز کی آمد کی اطلاع دی تھی‘‘۔
یوسیبیا اس ملاقات کی ایک ایک تفصیل بیان کرنا چاہتی تھی لیکن فسطینہ نے اُسے ٹوکنے ہوئے کہا۔ ’’اماں! آپ ہر ایک کے سامنے یہ قصہ لے بیٹھتی ہیں۔ بھلا ان کو اس سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ انہیں آرام کرنے دیجیے‘‘۔
یوسیبیا نے غصے کی حالت میں اپنی بیٹی کی طرف دیکھا اور پھر عاصم کی طرف متوجہ ہو کر بولی۔ ’’میں آپ کو سارے واقعات سنا کر پریشان نہیں کروں گی۔ اس نوجوان کا نام سین تھا اور اُس سے میری دلچسپی کی پہلی وجہ یہ تھی کہ وہ انتہائی بے تکلفی سے ہماری زبان میں گفتگو کرسکتا تھا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اُس کی ماں، اُن ہزاروں لڑکیوں میں سے ایک تھی جنہیں نوشیرواں کی فتوحات کے زمانے میں ایرانی آرمینیا اور شام کے شہروں سے پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
خسرو پرویز اور اُس کے ساتھیوں نے ہمارے قلعے میں صرف ایک روز قیام کیا اور اگلے دن، چند کوس دور، ایک شہر کے حاکم کے پاس چلے گئے۔ اور قسطنطنیہ سے قیصر کا پیغام آنے تک انہیں وہیں ٹھہرنا پڑا۔ اس عرصہ میں سین ایک مرتبہ سیروشکار کے بہانے ہمارے پاس آیا اور تین دن اِس قلعے میں مہمان رہا۔ اُس کے دورانِ قیام ، میں یہ محسوس کرنے لگی کہ ایرانیوں سے میری نفرت بتدریج کم ہورہی ہے۔ وہ آتش پرست تھا لیکن اُس کی باتوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ عیسائیوں سے نفرت نہیں کرتا۔ میرے والد کسی ایرانی کو اپنا دوست سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے، لیکن سین ایران کے شہنشاہ کا خاص آدمی تھا، اس لیے وہ اس کی خاطر مدارت کرنے پر مجبور تھے۔ پھر انہیں یہ بھی خیال تھا کہ شہنشاہ موریس ایران سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا یہ زریں موقع ضائع کرنا پسند نہیں کریں گے اور خسرو پرویز کو اپنا کھویا ہوا تخت و تاج حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن مدد دی جائے گی سین بار بار ہمیں اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کرتا تھا کہ اگر پرویز رومیوں کی مدد سے اپنی سلطنت پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ایران اور روم کی جنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی اور اس کے برعکس اگر ایران میں بہرام کے قدم جم گئے تو وہ عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے روم پر چڑھائی کردے گا۔ سین کے قیام کے آخری دن، میں شام کے قریب گھوڑے پر سیر کرکے واپس آرہی تھی کہ وہ قلعے سے کچھ دور ٹہلتا ہوا دکھائی دیا۔ اُس نے میری طرف دیکھ کر ہاتھ سے اشارہ کیا اور میں بادلِ ناخواستہ رُک گئی۔ اُس نے گھوڑے کی باگ پکڑتے ہوئے کہا۔ ’’میں کل صبح ہوتے ہی یہاں سے روانہ ہوجائوں گا۔ اور پھر شاید مدت تک آپ کو نہ دیکھ سکوں۔ چند دن تک قیصر کا حکم پہنچ جائے گا اگر انہوں نے ہماری مدد کی تو ہم مدائن پر حملہ کردیں گے‘‘۔
میں نے گھبرا کر کہا۔ ’’چلیے، میرا یہاں آپ سے باتیں کرنا ٹھیک نہیں‘‘۔
اُس نے کہا۔ ’’آپ کو مجھ سے خوف آتا ہے؟‘‘۔
میں نے جواب دیا۔ ’’نہیں۔ اگر آپ ایران کے بادشاہ ہوتے تو بھی مجھے آپ سے خوف نہ آتا‘‘۔
اُس نے کہا۔ ’’اگر میں ایران کا بادشاہ ہوتا تو اپنا تاج اُتار کر تمہارے قدموں میں ڈال دیتا‘‘۔
میں کچھ دیر سکتے کے عالم میں اُس کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر میں نے اچانک اُس کے ہاتھ سے باگ چھین لی اور گھوڑے کو چابک رسید کردیا۔ تھوڑی دیر بعد میں اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو میرا دل دھڑک رہا تھا اور ٹانگیں لاکھڑا رہی تھیں۔ میں نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا تو مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میری رگوں کا سارا خون سمٹ کر میرے چہرےمیں آگیا ہے۔ رات کے وقت جب والد نے مجھے دستر خوان پر بلایا تو میں سر کے درد کا بہانہ کرکے اپنے بستر پر بیٹھی رہی۔ سین اگلے دن چلا گیا اور کچھ عرصہ بعد جب روم کے لشکر نے پرویز کی مدد کے لیے مدائن کی طرف رخ کیا تو میرے والد کو بھی اُس کا ساتھ دینا پڑا۔ میرا تنہا قلعے میں رہنا مناسب نہ تھا۔ اس لیے مجھے والد کے ایک دوست کے گھر پہنچادیا گیا، جو پڑوس کے شہر کا حاکم بھی تھا۔ قلعے میں میرے والد کا قائم مقام انڈرونیکس تھا۔ یہ آدمی کسی صورت اس منصب کا اہل نہ تھا لیکن وہ قسطنطنیہ کے ایک بااثر خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔انتظامیہ کے گورنر نے اُس کی سفارش کی تھی۔ ان دنوں یہی انڈرونیکس یروشلم کا حاکم ہے۔ اس مجھ سے اُس کی دشمنی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب میرے والد کی غیر موجودگی کے دنوں میں وہ میرے پاس شادی کا پیغام لے کر آیا تھا تو میں نے اُس کے منہ پرچپت رسید کردی تھی۔
بہرام کو شکست دینے اور خسرو پرویز کو تخت پر بٹھانے کے بعد جب میرے والد واپس آئے تو میں بھی شہر سے قلعے میں آگئی۔ رات کے وقت میں اُن کے ساتھ کھانا کھارہی تھی اور وہ مجھے مدائن کے حالات بتارہے تھے۔ اچانک میں نے سین کے متعلق پوچھا اور وہ میری طرف غور سے دیکھنے لگے۔ پھر انہوں نے کہا۔ ’’بیٹی سین چند دن تک یہاں آرہا ہے‘‘۔ ’’وہ یہاں کیوں آرہا ہے‘‘؟ میں نے پریشان ہو کر سوال کیا۔
وہ بولے تمہیں معلوم نہیں‘‘؟۔
میرا دل دھڑکنے لگا۔ آخری ملاقات کے بعد مجھے سین کے الفاظ اکثر یاد آیا کرتے تھے، پھر بھی میں یہ اطمینان محسوس کرتی تھی کہ وہ دوبارہ مجھے پریشان نہیں کرے گا۔ لیکن اب وہ پھر آرہا تھا اور میں خوشی سے زیادہ خوف محسوس کررہی تھی۔ تاہم میں نے کہا۔ ’’ابا جان کیا بات ہے آپ پریشان کیوں ہیں؟‘‘۔
انہوں نے کہا۔ ’’بیٹی سین نے تم سے شادی کا پیام دیا ہے اور ہماری فوج کے سپہ سالار نے اس کی سفارش کی ہے۔ وہ کہتا تھا کہ خسرو پرویز نے ذاتی طور پر مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں اِس مسئلہ میں اپنا اثرورسوخ استعمال کروں۔ ہماری فوج کے دوسرے افسر بھی مجھے یہ سمجھاتے تھے کہ یہ شادی ایران اور روم کے تعلقات کے لیے ایک اچھا شگون ثابت ہوگی‘‘۔
میں اضطراب کی حالت میں کھڑی ہوگئی لیکن میرے والد نے مجھے پکڑ کر اپنے قریب بٹھالیا اور کہا۔ ’’بیٹی میرے لیے اُن سب کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ اگر یہ معاملہ شہنشاہ موریس کے پاس پہنچا تو مجھے یقین ہے کہ وہ بھی پرویز کی حمایت کریں گے۔ سین ایران کے شہنشاہ کو بہت عزیز ہے، لیکن اگر تمہاری مرضی نہ ہو تو تمہیں اُس سے شادی کرنے پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔ میں وہاں یہ کہہ آیا ہوں کہ اگر میری بیٹی رضا مند ہوئی تو میں مخالفت نہیں کروں گا۔ اب اگر تم اِس شادی سے بچنا چاہتی ہو تو تمہیں سین کے سامنے انکار کرنا پڑے گا۔ میں اُس سے یہ وعدہ کر آیا ہوں کہ اُسے براہ راست تم سے گفتگو کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اور اُس نے یہ بات مان لی ہے کہ اگر تم انکار کردو تو وہ ہمیں دوبارہ پریشان نہیں کرے گا۔ وہ شاید اسی مہینے یہاں پہنچ جائے اور تمہیں اقرار یا انکار کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ تم اپنے فیصلے پر کہاں تک قائم رہ سکو گی‘‘۔
اگلے روز میرے والد نے مجھ سے پوچھا۔ ’’یوسیبیا انڈرونیکس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔ اُس نے بھی آج تمہارے رشتے کی درخواست کی ہے۔ میں نے فی الحال اُسے ٹال دیا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اگر وہ تمہیں پسند آجائے تو ہمارے لیے سین کو جواب دینا آسان ہوجائے گا‘‘۔
میں نے غصے کی حالت میں انہیں یہ بتادیا کہ انڈرونیکس نے مجھے آپ کی غیر حاضری میں ورغلانے کی کوشش کی تھی اور میں اُسے مناسب جواب دے چکی ہوں۔ اب اُسے آپ کے سامنے منہ کھولنے کی جرأت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ میں اُسے انتہائی قابل نفرت انسان سمجھتی ہوں۔ اور یہ بھی جانتی ہوں کہ اگر وہ انطاکیہ کے گورنر کا رشتہ دار نہ ہوتا تو آپ اُسے اپنا نوکر رکھنا بھی پسند نہ کرتے۔
میری باتوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ والد نے اُسی دن انڈرونیکس کو اس کی خدمات سے سبکدوش کرکے انطاکیہ روانہ کردیا۔
چند دن بعد سین بھی آگیا۔ مدائن کے رومی سفیر کا ایک خاص ایلچی اور چند ایرانی امراء اُس کے ساتھ تھے۔
جب سین نے ان سب کی موجودگی میں مجھ سے شادی کی درخواست کی تو میری زبان گنگ ہوگئی اور میں جواب دینے کے بجائے اُٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔ اُس نے میرا پیچھا کیا اور جب میں اپنے ہاتھ میں منہ چھپا کر سسکیاں لے رہی تھی تو وہ کہہ رہا تھا۔ ’’یوسیبیا تم مجھ سے اس لیے ڈرتی ہو کہ میں آتش پرست ہوں۔ لیکن میں زرتشت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں تمہارے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کروں گا۔ تمہیں معلوم نہیں کہ خسرو پرویز بھی ایک عیسائی لڑکی سے شادی کرچکا ہے۔ میری قسمت کا فیصلہ اب تمہارے ہاتھ میں ہے۔ میں تمہیں مجبور نہیں کرسکتا لیکن فیصلہ کرنے سے پہلے تمہیں اتنا ضرور سوچ لینا چاہیے کہ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گا‘‘۔
میرا باپ پریشانی کی حالت میں اُس کے پیچھے دروازے میں کھڑا تھا۔ اُس نے آگے بڑھ کر سین کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’اب آپ کو زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میری بیٹی اپنی قسمت کا فیصلہ کرچکی ہے‘‘۔
تیسرے دن ہماری شادی ہوگئی۔
عاصم نے قدرے بے چین ہو کر پوچھا۔ ’’آپ کا شوہر زندہ ہے؟‘‘
یوسیبیا نے جواب دیا۔ ’’ہاں! لیکن اس وقت مجھے معلوم نہیں کہ وہ کس حال میں ہے‘‘۔
’’وہ کہاں ہے؟‘‘ عاصم نے دوبارہ سوال کیا۔
’’اُسے قسطنطنیہ میں قید کرلیا گیا تھا۔ میں آپ کو پوری داستان سناتی ہوں۔ شادی کے بعد میں اپنے شوہر کے ساتھ مدائن چلی گئی تھی۔ وہاں زندگی میرے لیے ایک سہانا خواب تھی۔ پرویز، شہنشاہ موریس کو اپنا باپ سمجھتا تھا اور میں یہ محسوس کرتی تھی کہ ایران اور روم کے درمیان جنگ کے امکانات ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکے ہیں۔ مدائن میں ہمارے پادری کسی روک ٹوک کے بغیر تبلیغ کرسکتے تھے لیکن چند سال بعد میں یہ محسوس کرنے لگی کہ مجوسی پیشوا ایران میں عیسائیت کے پرچار سے خائف ہیں۔ اور شاہ ایران اپنی ظاہری رواداری کے باوجود یہ محسوس کرتے ہیں کہ قیصر نے اپنی اعانت کے بدلے اُس سے آرمینیا کے علاقے چھین کر بہت بڑی قیمت وصول کی ہے۔ میرا شوہر پرویز کے انتہائی قابل اعتماد آدمیوں میں سے تھا اور میرے لیے یہ معلوم کرنا مشکل نہ تھا کہ ایران ایک وسیع پیمانے پر جنگی تیاریوں میں مصروف ہے۔ تاہم شہنشاہ موریس کے ساتھ خسرو پرویز کے تعلقات ایسے تھے کہ ہمیں کسی فوری جنگ کا خطرہ نہ تھا۔ لیکن ایک دن اچانک یہ خبر آئی کہ قسطنطنیہ میں بغاوت ہوگئی ہے اور فوکاس نے شہنشاہ موریس کو قتل کرکے سلطنت پر قبضہ کرلیا ہے۔ ایران کے امراء اور مذہبی اکابر نے پرویز کو مشورہ دیا کہ اب روم سے حساب چکانے کا وقت آگیا ہے۔ پرویز خود بھی برسوں سے کسی موقع کا انتظار کررہا تھا۔ چناں چہ اس نے موریس کے قتل کی اطلاع ملتے ہی یہ اعلان کردیا کہ ہم فوکاس سے موریس کے قتل کا انتقام لیں گے۔ میرا شوہر جنگ کے خلاف تھا، اور اُس نے بھرے دربار میں یہ کہا کہ ہمیں روم کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اچھی طرح حالات کی چھان بین کرلینی چاہیے۔ اگر شہنشاہ مجھے اجازت دیں تو میں قسطنطنیہ جانے کو تیار ہوں، اگر وہاں تسلی نہ ہوئی تو ہم روم پر حملہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔ پرویز جنگ پر تلا ہوا تھا، تاہم اُس نے میرے خاوند کی یہ درخواست رد نہ کی۔
(جاری ہے)

حصہ