اگرچہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ متعصبانہ اور مذہبی بنیادوں پر تفریق کا مسئلہ نیا نہیں، لیکن نریندر مودی کی حکومت اور ہندوتوا کی بنیاد پر جو سیاست آج بھارت میں کی جارہی ہے اُس پر اقلیتوں سمیت انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی اپنی شدید تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ بھارت میں آج محض مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ عیسائیوں، سکھوں اور دلتوں کو بھی ہندو انتہاپسندوں سے مختلف نوعیت یا سطحوں پر تشدد کا سامنا ہے۔ سخت گیر ہندو اور انتہا پسند عناصر سب سے زیادہ مسلمانوں کو ہدف بنارہے ہیں۔ماضی میں بھارت کے معروف اداکار نصیر الدین شاہ نے کہا تھا کہ ’’بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنایا جارہا ہے‘‘۔ ان کے بقول ’’جو لوگ بھی بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کررہے ہیں وہ دراصل ملک میں خانہ جنگی شروع کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ اسی طرح ان کا یہ بھی مؤقف ہے کہ ’’جو کچھ انتہا پسند کررہے ہیں اس پر انہیں اوپر کی سطح سے تحفظ حاصل ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا ہے‘‘۔
ہندوستان مدتوں سے ’’معکوس ارتقا‘‘ یا Regressive evolution کی زد میں ہے۔ مسلمانوں کے ایک ہزار سال کا جنوبی ایشیا ’’بھارت‘‘ تھا۔ انگریزوں کا جنوبی ایشیا ’’انڈیا‘‘ تھا۔ مگر گزشتہ75 سال سے اب تک کا بھارت صرف ’’ہندوستان‘‘ ہے۔ ہزاروں سال پہلے کا بھارت ’’رام‘‘ کا بھارت تھا، مگر مودی کا ہندوستان ’’راون‘‘ کا ہندوستان ہے۔ رام بھارت کا ’’ہیرو‘‘ ہے اور راون بھارت کا ’’ولن‘‘ ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آج کروڑوں ہندو راون کے ہندوستان پر فخر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ڈارون کہتا ہے کہ انسان کا ارتقا یہ ہے کہ وہ بندر سے انسان بنا ہے۔ مودی کا ہندوستان کہہ رہا ہے کہ میرا ارتقا یہ ہے کہ میں ’’انسان‘‘ سے ’’شیطان‘‘ بن گیا ہوں۔
یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی، مگر اتنی طویل مدت میں انہوں نے ہندوئوں کے مذہب کو چھیڑا، نہ تہذیب کو ہاتھ لگایا… نہ ہندوئوں کو اُن کی تاریخ سے الگ کیا، نہ ہندوئوں کی زبان اُن سے چھینی… نہ انہیں معاشی اور سماجی اعتبار سے شودر بناکر کھڑا کیا۔ مگر ہندوئوں کی قیادت نے صرف 75سال میں اسلام پر سیکڑوں حملے کیے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے پرسنل لا پر تیر چلائے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے فارسی اور اردو چھین لی ہے۔ انہوں نے 75سال میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کُش فسادات کرا ڈالے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبار سے بھارت کا ’’نیا شودر‘‘ بنادیا ہے۔
اسلام اور مسلمانوں سے ہندوئوں کی نفرت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ نتھورام گوڈسے نے گاندھی کو اس لیے قتل نہیں کیا کہ وہ بدکردار تھے۔ ممتاز مغربی مؤرخ اسٹینلے والپرٹ کی تصنیف Gandhi’s Passion کے مطابق وہ رات کو ننگی نوجوان لڑکیوں کے ساتھ سوتے تھے۔ نتھورام گوڈسے نے گاندھی کو اس لیے بھی قتل نہیں کیا کہ وہ بدعنوان تھے، بلکہ نتھو رام نے گاندھی کو اس لیے قتل کیا کہ اس کے نزدیک گاندھی مسلمانوں کے لیے ’’نرم‘‘ تھے۔ انہوں نے پاکستان کو قبول کرلیا تھا۔ گاندھی مسلمانوں کے لیے جتنے ’’نرم‘‘ تھے وہ تاریخ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ سرسید ہندو مسلم اتحاد کے علَم بردار تھے، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ گاندھی فارسی اور اردو کے گلے پر چھری چلا رہے ہیں تو انہوں نے مسلمانوں سے کہاکہ تمہیں اپنا سیاسی مفاد عزیز ہے تو کانگریس میں نہ جائو، اپنی جماعت بنائو۔ گاندھی مسلمانوں کے لیے اتنے ’’نرم‘‘ تھے کہ ہندو شدھی کی تحریک چلا کر مقامی مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنارہے تھے اور 1930ء میں مولانا محمد علی جوہر گاندھی سے پوچھ رہے تھے کہ آپ شدھی کی تحریک چلانے والوں کو کچھ کیوں نہیں کہتے؟ ان حقائق کے باوجود نتھورام گوڈسے کو گاندھی مسلمانوں کے لیے ’’نرم‘‘ نظر آتے تھے۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ بی جے پی نے اپنے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کو صرف اس لیے بی جے پی سے نکالا کہ انہوں نے قائداعظم کے حوالے سے جو کتاب لکھی ہے اس میں انہوں نے قائداعظم کی تھوڑی سی تعریف کردی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بلاشبہ ہندوستان جناح کی وجہ سے تقسیم ہوا، مگر اس تقسیم کے ذمے دار نہرو اور سردار پٹیل بھی ہیں جنہوں نے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے جناح کے کسی منصوبے کو قبول نہیں کیا۔ بس اتنی سی بات پر جسونت سنگھ کو بی جے پی سے نکال باہر کیا گیا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بی جے پی کے ابتدائی رہنمائوں میں لعل کرشن ایڈوانی اہم ترین تھے۔ مودی سے کہیں زیادہ اہم۔ یہ ایڈوانی ہی تھے جنہوں نے بابری مسجد کی شہادت کی راہ ہموار کی۔ مگر آج لعل کرشن ایڈوانی بی جے پی میں کہیں بھی نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ سال پہلے ایڈوانی نے کراچی کا دورہ کیا تھا۔ وہ اپنے دورے میں قائداعظم کے مزار پر بھی گئے۔ اس سے بھی بڑا ’’جرم‘‘ انہوں نے یہ کیاکہ مہمانوں کی کتاب میں قائداعظم کی تعریف کردی۔ چنانچہ بی جے پی نے لعل کرشن ایڈوانی کو اُگل دیا، اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہیرو سے زیرو ہوگئے۔
بھارت کی جدید تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک ہندو انتہا پسند حکومتی ڈھانچے سے دور رہے، اکادکا فرقہ وارانہ فساد چھوڑ کر بھارتی معاشرے میں بالعموم رواداری اور برداشت موجود تھی۔ ہر رنگ، نسل اور مذہب کے لوگ مل جل کر رہتے۔ مگر 1980ء کے بعد ہندو انتہا پسندی نے تیزی سے فروغ پایا تو یہ ملک مذہبی دنگے فساد کا مرکز بن گیا۔ بیسویں صدی کے اواخر میں بی جے پی نے حکومت سنبھال لی۔ تب سے پوری سرکاری مشینری یعنی فوج، انتظامیہ، عدلیہ، افسر شاہی اور پولیس میں انتہا پسندانہ ہندو نظریات سے متاثر مرد و زن اہم عہدوں پر تعینات ہوچکے۔ یہ لوگ علی الاعلان یا چوری چھپے بی جے پی اور آر ایس ایس کے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔ انہی میں عدالتوں کے جج اور وکیل بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2014ء میں انتہا پسندوں کو دوبارہ اقتدار ملا تو عدلیہ ان کی مرضی کے فیصلے سنانے لگی۔ مثلاً مساجد میں بم دھماکے کرنے والے ہندو انتہا پسند رہا کردیے گئے۔ آسام میں نیشنل رجسٹر کی مہم چلانے کا حکم دیا۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرڈالا، حتیٰ کہ بھارتی سپریم کورٹ کشمیر میں حکومتی ظلم و ستم روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکی۔ سچ یہ ہے کہ عدالتیں بھی انتہا پسندوں کے سامنے سرنگوں ہوچکیں۔
اس صورت حال نے بھارت کے مسلمانوں کے لیے سنگین مسائل کھڑے کر دیے ہیں اور بھارت کے مسلمانوں کے سامنے بقا کا سوال پیدا ہو گیا ہے۔ بظاہر مسلمان خاموش ہیں اور ’’ٹک ٹک دیدم‘ دَم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ مگر گزشتہ دنوں بھارتی ریاست کرناٹک کی ایک نوجوان طالبہ مسکان نے جو رویہ اختیار کیا وہ بڑا حوصلہ افزا ہے۔ اس طالبہ کو ہندو انتہا پسند نوجوانوں کا گروہ ہراساں کر رہا تھا۔ اس طالبہ نے خوف زدہ ہونے کے بجائے حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ اس نے جے شری رام کے نعروں کے جواب میں ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگایا۔ مسکان کی وڈیو پوری دنیا میں مشہور ہوئی ہے اور اس نے کروڑوں لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ غور کیا جائے تویہ صورتِ حال عالمی طاقتوں، انسانی حقوق کے اداروں اور سیاسی جماعتوں سمیت سول سوسائٹی و میڈیا کو بھی جھنجھوڑتی ہے کہ وہ ان تمام معاملات پر خاموشی کو توڑیں اور ایک مضبوط بیانیہ بھارت میں اقلیتوں کے تحفظ کے تناظر میں پیش کریں۔ انفرادی سطح پر تو آوازیں اٹھ رہی ہیں، لیکن ان انفرادی آوازوں کو اجتماعی آوازوں میں تبدیل کرنا ہوگا۔ خاص طور پر بھارت کی سول سوسائٹی اور دیگر سماجی طبقات یعنی فن کاروں، اداکاروں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں، دانشوروں اور تمام مذاہب کی پُرامن قیادت کو باہر نکلنا ہوگا اور مودی حکومت پر دبائو بڑھانا ہوگا کہ وہ ہندوتوا کی سیاست کے مقابلے میں تمام مذاہب یا اقلیتوں کے لیے تحفظ پر مبنی ماحول پیدا کرے۔ جو لوگ بھی انتہا پسندی یا ہندو مذہب کو بنیاد بناکر تشدد پر مبنی پالیسی اور عمل درآمد، یا ایکشن کو یقینی بناکر اقلیتوں کو دبائو میں لارہے ہیں یا ان میں خوف پیدا کرنے یا پُرتشدد عمل کی مدد سے لوگوں کی جان اور مال کو ختم کرنے کا ایجنڈ ا رکھتے ہیں، یا اس کا سرعام پرچار کررہے ہیں اُن کے خلاف ریاست کو بلاتفریق کارروائی کرنا ہوگی۔ عالمی برادری کو بھی بھارت کی موجودہ قیادت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ ان کا مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے تحفظ کا ایجنڈا نہ صرف بھارت بلکہ دنیا میں بھی تشویش کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔