برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ حج کی ابتدا کس طرح اور کس غرض کے لیے ہوئی تھی۔ یہ بھی آپ کو بتا چکا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکے کو اس اسلامی تحریک کا مرکز بنایا تھا اور یہاں اپنے سب سے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ اسلام کو بٹھایا تھا تاکہ آپ کے بعد وہ اس تحریک کو جاری رکھیں۔
اولادِ ابراہیم ؑ میںبت پرستی کا رواج:
خداہی بہتر جانتا ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ کے بعد ان کی اولاد کب تک اس دین پر قائم رہی جس پر ان کے باپ ان کو چھوڑ گئے تھے۔ بہرحال چند صدیوں میں یہ لوگ اپنے بزرگوں کی تعلیم اور ان کے طریقے سب بھول بھال گئے اور رفتہ رفتہ ان میں وہ سب گمراہیاں پیدا ہو گئیں جو دوسری جاہل قوموں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ اسی کعبے میں جسے ایک خدا کی پرستش کے لیے دعوت و تبلیغ کا مرکز بنایا گیا تھا سیکڑوں بت رکھ دیے گئے تھے اور غضب یہ ہے کہ خود حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا بھی بت بنا ڈالا گیا جن کی ساری زندگی بتوں ہی کی پرستش کو مٹانے میں صَرف ہوئی تھی۔ ابراہیمؑ کی اولاد نے لات‘ منات‘ ہبل‘ نسر‘ یغوث‘ عزی‘ اساف‘ نائلہ اور خدا جانے کس کس نام کے بت بنائے اور ان کو پوجا۔ چاند‘ عطارد‘ زہرہ‘ زحل اور معلوم نہیں کس کس ستارے کو پوجا۔ جن‘ بھوت‘ پریت‘ فرشتوں اور اپنے مردہ بزرگوں کی روحوں کو پوجا۔ جہالت کا زور یہاں تک بڑھا کہ جب گھر سے نکلتے اور اپنا خاندانی بت انہیں پوجنے کو نہ ملتا تو راستہ چلتے میں جو اچھا سا چکنا پتھر مل جاتا اسی کو پوج ڈالتے اور پتھر بھی نہ ملتا تو مٹی کو پانی سے گوندھ کر ایک پنڈا (جسم کی شکل) سا بنا لیتے اور بکری کادودھ چھڑکتے ہی وہ بے جان پنڈا اُن کا خدا بن جاتا۔ جس مہَنت گری اور پنڈتائی کے خلاف ان کے باپ ابراہیم علیہ السلام نے عراق میں لڑائی کی تھی وہ خود انہی کے گھر میں گھس آئی۔ کعبے کو انہوں نے ہر دوار یا بنارس بنا لیا‘ خود وہاں کے مہنّت بن کر بیٹھ گئے۔ حج کو تیرتھ جاترا بنا کر اس گھر سے جو توحید کی تبلیغ کے لیے بنا تھا بت پرستی کی تبلیغ کرنے لگے اور پجاریوںکے سارے ہتھکنڈے اختیار کرکے انہوں نے عرب کے دور و نزدیک سے آنے والے جاتریوں سے نذر چڑھاوے وصول کرنے شروع کر دیے۔ اس طرح وہ سارا کام برباد ہو گیا جو ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کر گئے تھے اور جس مقصد کے لیے انہوں نے حج کا طریقہ جاری کیا تھا اس کی جگہ کچھ اور ہی کام ہونے لگے۔
حج میں بگاڑ کی شکلیں
-1 شعرا کے مقابلے:
اس جاہلیت کے زمانے میں حج کی جو گت بنی اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ یہ ایک میلہ تھا جو سال کے سال لگتا تھا۔ بڑے قبیلے اپنے اپنے جتھوں کے ساتھ یہاں آتے اور اپنی اپنے پڑائو الگ ڈالتے۔ ہر قبیلے کا شاعر یا بھاٹ اپنی اور اپنے قبیلے والوں کی بہادری‘ نام وری‘ عزت‘ طاقت اور سخاوت کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا اور ہر ایک ڈینگیں مارنے میں دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتا۔ یہاں تک کہ دوسرے کی ہجو تک نوبت پہنچ جاتی۔
جھوٹی سخاوت کے مظاہرے:
پھر فیاضی کا مقابلہ ہوتا۔ ہر قبیلے کے سردار اپنی بڑائی جتانے کے لیے دیگیں چڑھاتے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اونٹ پر اونٹ کاٹتے چلے جاتے۔ اس فضول خرچی سے ان لوگوں کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اس میلے کے موقع پر ان کا نام سارے عرب میں اونچا ہو جائے اور یہ چرچے ہوں کہ فلاں صاحب نے اتنے اونٹ ذبح کیے اور فلاں صاحب نے اتنوں کو کھانا کھلایا۔ ان مجلسوں میں راگ‘ رنگ‘ شراب خوری‘ زنا اور ہر قسم کی فحش کاری خوب دھڑلے سے ہو تی تھی اور خدا کا خیال مشکل سے کسی کو آتا تھا۔
-3 برہنہ طواف:
کعبے کے گرد طواف ہوتا تھا‘ مگر کس طرح؟ عورت‘ مرد سب ننگے ہو کر گھومتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس حالت میں خدا کے سامنے جائیں گے جس میں ہماری مائوں نے ہمیں جنا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی مسجد میں عبادت ہوتی تھی‘مگر کیسی؟ تالیاں پیٹی جاتیں‘ سیٹیاں بجائی جاتیں اور نرسنگھے پھونکے جاتے۔ خدا کا نام پکارا جاتا‘ مگر کس شان سے؟ کہتے تھے: ’’میں حاضر ہوں‘ میرے اللہ! میں حاضر ہوں‘ تیرا کوئی شریک نہیں‘ مگر وہ جو تیرا ہونے کی وجہ سے تیرا شریک ہے۔ تو اس کا بھی مالک ہے اور اس کی ملکیت کا بھی مالک ہے۔
-4 قربانی کا تصور:
خدا کے نام پر قربانیاں کرتے تھے‘ مگر کس بدتمیزی کے ساتھ؟ قربانی کا خون کعبے کی دیواروں سے لتھیڑاجاتا اور گوشت دروازے پر ڈالا جاتا‘ اس خیال سے کہ نعوذباللہ یہ خون اور گوشت خدا کو مطلوب ہے۔
-5 حرام مہینوںکی بے حرمتی:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حج کے چار مہینوں کو حرام ٹھیرایا تھا اور ہدایت کی تھی کہ ان مہینوں میں کسی قسم کی جنگ و جدل نہ ہو۔ یہ لوگ اس حرمت کا کسی حد تک خیال رکھتے تھے‘ مگر جب لڑنے کو جی چاہتا تو ڈھٹائی کے ساتھایک سال حرام مہینے کو حلال کر لیتے اور دوسرے سال کا بدلہ کر دیتے تھے۔
-6 چند خود ساختہ پابندیاں:
پھر جو لوگ اپنے مذہب میں نیک نیت تھے‘ انہوں نے بھی جہالت کی وجہ سے عجیب طریقے ایجاد کر لیے تھے۔ کچھ لوگ بغیر زادِ راہ لیے حج کو نکل کھڑے ہوتے اور مانگتے کھاتے چلے جاتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ نیکی کا کام تھا۔ کہتے تھے ’’ہم متوکل ہیں‘ خدا کے گھر کی طرف جارہے ہیں‘ پھر دنیا کا سامان کیوں لیں۔‘‘
عموماً حج کے سفر میں تجارت کرنے یا کمائی کے لیے محنت مشقت کرنے کو ناجائز سمجھا جاتا تھا۔ بہت سے لوگ حج میں کھانا پینا چھوڑ دیتے تھے اور اسے بھی داخلِ عبادت سمجھتے تھے۔ بعض لوگ حج کو نکلتے تو بات چیت کرنا ترک کر دیتے۔ اس کا نام ’’حج مُصمِت‘‘ یعنی ’’گونگا حج‘‘ تھا۔ اسی قسم کی اور غلط رسمیں بے شمار تھیں جن کا حال بیان کرکے میں آپ کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا۔
دعائے خلیل ؑ کی قبولیت:
یہ حالت کم و بیش دو ہزار برس تک رہی۔ اس طویل مدت میں کوئی نبی عرب میں پیدا نہیں ہوا‘ نہ کسی نبی کی خالص تعلیم عرب کے لوگوں تک پہنچی۔ آخر کار حضرت ابراہیم ؑ کی اس دعا کو پورا ہونے کا وقت آیا جو انہوں نے کعبے کی دیواریں اٹھاتے وقت اللہ سے مانگی تھی:
’’پروردگار! ان کے درمیان ایک پیغمبر خود انہی کی قوم میں سے بھیجو جو انہیں تیری آیات سنائے اور کتاب اور دانائی کی تعلیم دے اور ان کے اخلاق درست کرے۔‘‘
چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے پھر ایک انسانِ کامل اٹھا جس کا نامِ پاک محمد بن عبداللہ تھا۔
جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے پنڈتوں اور مہنتوں کے خاندان میں آنکھ کھولی تھی‘ اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُس خاندان میں آنکھ کھولی جو صدیوں سے کعبہ کے تیرتھ کا مہنت بنا ہوا تھا۔ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے ہاتھ سے خود اپنے خاندان کی مہنتی پر ضرب لگائی‘ اسی طرح آنحضرتؐ نے بھی اس پر ضرب لگائی اور محض ضرب ہی نہیں لگائی بلکہ ہمیشہ کے لیے اس کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ پھر جس طرح حضرت ابراہیم نے تمام باطل عقیدوں اور جھوٹے خدائوں کی خدائی مٹانے کے لیے جدوجہد کی تھی اور ایک خدا کی بندگی پھیلانے کی کوشش کی تھی‘ بالکل وہی کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا اور پھر اُسی اصلی اور بے لوث دین کو تازہ کر دیا جسے حضرت ابراہیم ؑ لے کر آگئے تھے۔ 21 سال کی مدت میںجب یہ سارا کام آپؐ مکمل کر چکے تو اللہ کے حکم سے آپؐ نے پھر اُسی طرح کعبے کو تمام دنیا کے خدا پرستوں کا مرکز بنانے کا اعلان کیا اور پھر وہی منادی کی کہ سب طرف سے حج کے لیے اس مرکز کی طرف آئو: ’’اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو کوئی اس گھر تک آنے کی قدرت رکھتا ہو‘ وہ حج کے لیے آئے‘ پھر جو کوئی کفر کرے (یعنی قدرت کے باوجود نہ آئے) تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘ (آل عمران۔ 97:3)
سنتِ ابراہیمی ؑ کا احیا:
اس طرح حج کا ازسرِ نو آغاز کرنے کے ساتھ ہی جاہلی کی وہ ساری رسمیں بھی یک قلم مٹا دی گئیں جو پچھلے دو ہزار برس میں رواج پاگئی تھیں:
-1 بت پرستی کا خاتمہ:
کعبے کے سارے بت توڑے گئے‘ خدا کے سوا دوسروں کی جو پرستش وہاں ہو رہی تھی وہ قطعاً روک دی گئی‘ سب رسمیں مٹا دی گئیں‘ میلے ٹھیلے اور تماشے بند کر دیے گئے اور حکم دیا گیا کہ اب جو طریقہ عبادت کا بتایا جارہا ہے اسی طریقے سے یہاں اللہ کی عبادت کرو۔ ’’اللہ کویاد کرو اس طرح جیسی تمہیں اللہ نے ہدایت کی ہے ورنہ اس سے پہلے تو تم گمراہ لوگ تھے۔‘‘ (البقرہ۔ 198:2)
-2 بے ہودہ افعال کی ممانعت:
تمام بے ہودہ افعال کی سخت ممانعت کر دی گئی: ’’حج میں نہ شہوانی افعال کیے جائیں‘ نہ فسق و فجور ہو‘ نہ لڑائی جھگڑے ہوں۔‘‘
-3 شاعری کے دنگل بند:
شاعری کے دنگل‘ باپ دادا کے کارناموں پر فخر‘ بڑھائی (تعریف کرنا) اور ہجو گوئی کے مقابلے سب بند کر دیے گئے۔ فرمایا گیا ’’پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کرچکو‘ تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے‘ اس طرح اب اللہ کا ذکر کرو‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔‘‘ (البقرہ۔ 200:2)
-4 نمائشی فیاضی کا خاتمہ:
فیاضی کے مقابلے‘ جو محض دکھاوے اور نام وری کے لیے ہوتے تھے ان سب کا خاتمہ کر دیا گیا اور اس کی جگہ وہی حضرت ابراہیمؑ کے زمانے کا طریقہ پھر زندہ کیا گیا کہ محض اللہ کے نام پر جانور ذبح کیے جائیں تاکہ خوش حال لوگوں کی قربانی سے غریب حاجیوں کو بھی کھانے کا موقع مل جائے۔ ’’اور کھائو پیو مگر اسراف نہ کرو کہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الاعراف۔ 31:7)
’’ان جانوروں کو خالص اللہ کے لیے اسی کے نام پر قربان کرو‘ پھر جب ان کی پٹھیں زمین پر ٹھہر جائیں (یعنی جب جان پوری طرح نکل چکے اور حرکت باقی نہ رہے) تو خود بھی ان میں سے کھائو اور ان کو بھی کھلائو جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔‘‘ (الحج۔ 36:22)
-5 قربانی کا خون اور گوشت لیتھڑنا موقوف:
قربانی کے خون کعبہ کی دیواروں سے لتھیڑنا اور گوشت لا کر ڈالنا موقوف کیا گیا اور ارشاد ہوا: ’’اللہ کو ان جانوروں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے بلکہ تمہاری پرہیز گاری و خدا ترسی پہنچتی ہے۔‘‘ (الحج 37:22)
-6 برہنہ طواف کی ممانعت:
برہنہ ہوکر طواف کرنے کی قطعی ممانعت کر دی گئی اور فرمایا گیا ’’اے نبی! ان سے کہو کہ کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کیا جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی تھی (یعنی لباس)‘‘ (الاعراف۔ 32:7)
’’اے نبی! کہو کہ اللہ تو ہرگز بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔‘‘ (الاعراف 28:7)
’’اے آدم زادو! ہر عبادت کے وقت اپنی زینت (یعنی لباس) پہنے رہا کرو۔‘‘ (الاعراف 31:7)
-7 حج کے مہینوں میں الٹ پھیر کی ممانعت:
حج کے مہینوں میں الٹ پھیر کرنے اور حرام مہینوں کو لڑائی کے لیے حلال کر لینے سے سختی کے ساتھ روک دیا گیا: ’’لنسی تو کفر میں اور زیادتی ہے (یعنی کفر کے ساتھ ڈھٹائی کا اضافہ ہے۔) کافر لوگ اس طریقے سے اور زیادہ گمراہی میں پڑتے ہیں‘ کسی ایک سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور دوسرے سال اس کے بدلے میں کوئی دوسرا مہینہ حرام کر دیتے ہیں تاکہ جتنے مہینے اللہ نے حرام ٹھیرائے ہیں ان کی تعداد پوری کر دیں‘ مگر اس بہانے سے دراصل اس چیز کو حلال کر لیا جائے جسے اللہ نے حرام کیا تھا۔‘‘ (التوبۃ 37:9)
-8 زادِ راہ لینے کا حکم:
زادِ راہ لیے بغیر حج کے لیے نکلنے کو ممنوع ٹھیرایا گیا اور ارشاد ہوا ’’زادِ راہ ضرورلے لو‘ بہترین زادِ راہ تو تقویٰ ہے۔‘‘ (البقرہ۔ 197:2)
-9 حج میں روزی کمانے کی اجازت:
سفرِ حج میں کمائی نہ کرنے کو جو نیکی کا کام سمجھا جاتا تھا اور روزی کمانے کو ناجائز خیال کیا جاتا تھا اس کی تردید کی گئی: ’’کوئی مضائقہ نہیں اگر تم کاروبار کے ذریعے سے اپنے رب کا فضل تلاش کرتے جائو۔‘‘ (البقرہ 198:2)
-10 جاہلی رسموں کا خاتمہ:
گونگے حج اور بھوکے پیاسے حج سے بھی روکا گیا‘ اور اس طرح جاہلیت کی دوسری تمام رسموں کو مٹا کر حج کو تقویٰ‘ خدا ترسی‘ پاکیزگی اور سادگی و درویشی کا مکمل نمونہ بنا دیا گیا۔ حاجیوں کو حکم دیا گیا کہ جب اپنے گھروں سے چلو تو اپنے آپ کو تمام دنیوی آلائشوں سے پاک کر لو‘ شہوات کو چھوڑ دو‘ بیویوں کے ساتھ بھی اس زمانے میں تعلق زن و شو نہ رکھو۔ گالی گلوچ اور تمام بے ہودہ اعمال سے پرہیز کرو۔
-11 میقات کا تعین:
کعبہ کی طرف آنے والے جتنے راستے ہیں‘ ان سب پر بیسیوں میل دور سے ایک حد مقرر کر دی گئی کہ اس حد سے آگے بڑھنے سے پہلے سب لوگ اپنے اپنے لباس بدل کر احرام کا فقیرانہ لباس پہن لیں‘ تاکہ سب امیر و غریب یکساں ہو جائیں‘ الگ الگ قوموں کے امتیازات مٹ جائیں اور سب کے سب اللہ کے دربار میںایک ہو کر‘ فقیر بن کر عاجزانہ شان کے ساتھ حاضر ہوں۔
-12 پُرامن ماحول کی ہدایت:
احرام باندھنے کے بعد انسان کا خون بہانا تو درکنار‘ جانور تک کا شکار کرنا حرام کر دیا گیا‘ تاکہ امن پسندی پیدا ہو‘ بہیمیت دور ہو جائے اور طبیعتوں پر روحانیت کا غلبہ ہو۔ حج کے چار مہینے اس لیے حرام کیے گئے کہ اس مدت میں کوئی لڑائی نہ ہو‘ کعبہ کو جانے والے تمام راستوں میں امن رہے اور زائرین حرم کو کوئی نہ چھیڑے۔ اس شان کے ساتھ جب حاجی حرم میں پہنچیں تو ان کے لیے کوئی میلہ ٹھیلہ‘ کھیل تماشا‘ ناچ رنگ وغیرہ نہیںہے۔ قدم قدم پر خدا کا ذکر ہے‘ نمازیں ہیں‘ عبادتیں ہیں‘ قربانیاں ہیں‘ کعبہ کا طواف ہے اور کوئی پکار ہے تو بس یہ ہے کہ:
’’حاضر ہوں‘ میرے اللہ میں حاضر ہوں‘ حاضر ہوں‘ تیرا کوئی شریک نہیں‘ میں حاضر ہوں‘ یقینا تعریف سب تیرے ہی لیے ہے‘ نعمت سب تیری ہے‘ ساری بادشاہ تیری ہے‘ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
ایسے پاک صاف‘ بے لوث اور مخلصانہ حج کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’‘جس نے اللہ کے لیے حج اور اس میں شہوات اور فسق و فجور سے پرہیز کیا وہ اس طرح پلٹا جیسے آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
فریضۂ حج کی اہمیت:
اب قبل اس کے کہ آپ کے سامنے حج کے فائدے بیان کیے جائیں‘ یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ یہ فرض کیسا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتاہو‘ وہ اس کا حج کرے اورجس نے کفر کیا تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیازہے۔‘‘ (آلِ عمران۔ 97:3)
اس آیت میں قدرت رکھنے کے باوجود قصداً حج نہ کرنے کو ’’کفر‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کی شرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو حدیثوں سے ہوتی ہے:
-1 جو شخص زادِ راہ اور سواری رکھتا ہو جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکتا ہو‘ اور پھر حج نہ کرے تو اس کا اس حالت پرمرنا اور یہودی یا نصرانی ہوکر مرنا یکساں ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ حدیث نمبر 2407)
-2 ’’جس کو نہ کسی صریح حاجت نے حج سے روکا ہو‘ نہ کسی ظالم سلطان نے‘ نہ کسی روکنے والے مرض نے‘ اور پھر اس نے حج نہ کیا‘ اور اسی حالت میں اسے موت آجائے تو اسے اختیار ہے خواہ یہودی بن کر مرے یا نصرانی بن کر۔‘‘ (دارمی)
اسی کی تفسیر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی جب کہا ’’جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیںکرتے‘ میرا جی چاہتا ہے کہ ن پر جزیہ لگا دوں وہ مسلمان نہیں ہیں‘ وہ مسلمان نہیں ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم و خلیفۂ رسولؐ کی اس تشریح سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ یہ فرض ایسا فرض نہیں ہے کہ جی چاہے تو ادا کیجیے اور نہ چاہے تو ٹال دیجیے‘ بلکہ یہ ایسا فرض ہے کہ ہر اس مسلمان کوجو کعبے تک جانے آنے کا خرچ رکھتاہو‘ اور ہاتھ پائوں سے معذور نہ ہو‘ عمر میں ایک مرتبہ اسے لازماً ادا کرنا چاہیے۔ خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہو‘ اور خواہ اس کے اوپر بال بچوںکی اور اپنے کاروبار یا ملازمت وغیرہ کی کیسی ہی ذمے داریاں ہوں۔ جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج کو ٹالتے رہتے ہیں اور ہزاروں مصروفیتوں کے بہانے کر کرکے سال پر سال یونہی گزارتے چلے جاتے ہیں ان کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ رہے وہ لوگ جنکو عمر بھر کبھی یہ خیال ہی نہیںآتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمے ہے۔ دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں۔ کعبۂ یورپ کو آتے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزر جاتے ہیں جہاں سے مکہ چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے‘ اور پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دلوں میں نہیں گزرتا‘ وہ قطعاً مسلمان نہیں ہیں۔ جھوٹ کہتے ہیں اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور قرآن سے جاہل ہے جو انہیں مسلمان سمجھتا ہے۔ ان کے دل میں اگر مسلمانوں کا درد اٹھتا ہے تو اٹھا کرے۔ اللہ کی اطاعت اور اس کے حکم پر ایمان کا جذبہ تو بہرحال ان کے دل میں نہیں ہے۔ (جاری ہے)